بندگی یا برانڈنگ
(haseeb ejaz aashir, Lahore)
حسیب اعجاز عاشرؔ جب انسان دنیا کی ہنگامہ خیزی، حرص و ہوس، نمود و نمائش اور نفس کے بے لگام تقاضوں سے تھک کر کسی پاکیزہ سمت کا قصد کرتا ہے تو اس کے قدم ازخود اُن گلیوں کی طرف اٹھنے لگتے ہیں جہاں زمین نہیں، دل جھکتے ہیں، جہاں دیواریں نہیں، نیتیں سجدہ ریز ہوتی ہیں، جہاں آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نہیں، مگر دل کے پردے پر رب کی عظمت روشن ہو جاتی ہے۔ خانۂ کعبہ کی حاضری اور روضۂ رسول ﷺ پر سلام عرض کرنا محض سفر نہیں، یہ باطن کی ہجرت ہے، یہ خودی کو مٹانے اور بندگی کو پانے کا نام ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی پہچان کھو کر پہچانا جاتا ہے، جہاں زبان خاموش ہو کر دل بولنے لگتا ہے۔ مگر یہ کس قدر دردناک حقیقت ہے کہ آج اسی مقدس سفر میں ایک ایسا عنصر شامل ہو چکا ہے جس نے عبادت کی روح کو مجروح، نیت کی لطافت کو مکدر اور اخلاص کی بنیادوں کو متزلزل کر دیا ہے۔ وہ عنصر کوئی کھلا ہوا گناہ نہیں، کوئی ظاہر فساد نہیں، بلکہ وہ ایک باریک، خاموش، مگر نہایت مہلک بیماری ہے، جسے شریعت نے ریاکاری کہا اور جدید زمانے نے اسے اظہار، شیئرنگ اور ڈیجیٹل یادگار کا نام دے دیا ہے۔ ہاتھ میں موبائل، نگاہ اسکرین پر، دل مخلوق کی طرف، اور زبان پر اللہ کا نام ،یہ وہ امتزاج ہے جس پر خوف آتا ہے کہ کہیں عبادت عبادت نہ رہے اور محض نمائش بن کر رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ہلاکت ہے اُن نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، جو دکھاوا کرتے ہیں۔ غور کیجیے، یہاں نماز کی نفی نہیں کی گئی، بلکہ اُس نماز کی جس میں دل شامل نہ ہو، جس کا رخ اللہ سے ہٹ کر لوگوں کی طرف ہو۔ یہ وہی دکھاوا ہے جو عمل کو کھوکھلا کر دیتا ہے، جو بظاہر نیکی کو اندر سے جلا کر راکھ بنا دیتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے ریا کو شرکِ اصغر قرار دیا، یعنی وہ چھوٹا شرک جو بتوں کے سامنے نہیں بلکہ انسانوں کی نگاہوں میں سر جھکواتا ہے۔ آج کا انسان شاید اس خطرے کو محسوس نہیں کرتا، کیونکہ اس کی صورت بدل چکی ہے۔ اب کوئی منبر پر کھڑے ہو کر اپنی عبادت کا اعلان نہیں کرتا، بلکہ خاموشی سے موبائل کا کیمرہ آن کرتا ہے۔ سجدہ طویل ہوتا ہے، مگر اس لیے نہیں کہ دل حاضر ہے، بلکہ اس لیے کہ فریم مکمل ہو۔ آنسو بہتے ہیں، مگر اس لیے نہیں کہ دل پگھل گیا ہے، بلکہ اس لیے کہ منظر اثر انگیز بن جائے۔ دعا مانگی جاتی ہے، مگر رب سے نہیں، بلکہ اُن آنکھوں سے جو بعد میں اس دعا کو دیکھیں گی۔ یوں عبادت بھی مواد بن جاتی ہے، اور بندہ خود لاشعوری طور پر اپنی نیکی کا تشہیرکار بن جاتا ہے۔ خانۂ کعبہ کو پہلی نظر میں دیکھ کر جو کیفیت طاری ہوتی ہے، وہ کیفیت الفاظ کی محتاج نہیں، وہ صرف خاموشی مانگتی ہے۔ روضۂ رسول ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر جو لرزہ طاری ہوتا ہے، وہ کسی تصویر کا تقاضا نہیں کرتا، وہ صرف ادب چاہتا ہے۔ مگر آج وہاں بھی لوگ اس اضطراب کو محفوظ کرنے کے چکر میں اُس کی تاثیر کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہیں جو محفوظ نہیں کیے جاتے، بلکہ جو محفوظ کر لیتے ہیں۔ جو دل میں ثبت ہو جائیں، وہی قیامت تک ساتھ جاتے ہیں، اسکرین میں قید کیے گئے مناظر نہیں۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ نیت اگر اللہ کے لیے ہو تو چھوٹا سا عمل بھی پہاڑ بن جاتا ہے، اور اگر نیت لوگوں کے لیے ہو تو پہاڑ جیسا عمل بھی خس و خاشاک بن جاتا ہے۔ سلف صالحین کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی نیکیوں کو ایسے چھپاتے جیسے آج لوگ اپنے گناہ چھپاتے ہیں۔ انہیں اس بات کا خوف رہتا تھا کہ کہیں کوئی عمل قبول ہونے سے پہلے ہی ضائع نہ ہو جائے۔آج لوگ فالوورز کی تعداد کو قبولیت کا معیار سمجھ بیٹھے ہیں۔ قیامت کے دن جب اعمال تولے جائیں گے تو نہ تصویر پوچھی جائے گی، نہ ویڈیو، بلکہ نیت پوچھی جائے گی۔ مقدس مقامات کا ادب بھی ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے جسے ہم نے سہل سمجھ لیا ہے۔ حرمین شریفین عبادت گاہ ضرور ہیں، مگر اس سے پہلے ادب گاہ ہیں۔ یہاں بلند آواز، بے توجہی، اور دوسروں کی خلوت میں مداخلت بھی ناپسندیدہ ہے۔ جب کوئی بندہ سجدے میں ہو، دعا میں ہو، اشک بار ہو، تو اس کی خلوت کا احترام فرض ہے۔ اس کے سامنے کیمرہ تاننا، اس کے جذبات کو بغیر اجازت قید کرنا، اور پھر انہیں دنیا کے سامنے پیش کرنا محض بدذوقی نہیں، بلکہ ایک اخلاقی جرم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ آج اس حدیث کو نئے تناظر میں پڑھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہاتھ میں پکڑا ہوا موبائل بھی ہاتھ ہی کی توسیع ہے۔ اگر اس کے ذریعے کسی کو اذیت پہنچے، کسی کی توجہ بٹے، کسی کی عبادت متاثر ہو جائے تو اپنے ہاتھ کیا بچا؟یہ تحریر کسی خاص فرد، طبقے یا نیت پر حملہ نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی محاسبہ ہے۔ اگر کوئی تصویر محض ذاتی یاد کے لیے ہو، اگر نیت خالص ہو، اگر کسی کو اذیت نہ ہو، تو امید ہے کہ اللہ درگزر فرمائے گا، کہ وہ غفور و رحیم ہے۔ مگر جب عبادت اشتہار بن جائے، جب دعا نمائش بن جائے، جب آنسو شہرت کا ذریعہ بن جائیں، تو پھر ڈر ہے کہ کہیں یہ مقدس سفر محض سیاحتی یادداشت بن کر نہ رہ جائے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:"عمل کو چھپاؤ، کیونکہ عمل کی حفاظت، عمل سے زیادہ مشکل ہے۔"اللہ تعالیٰ بندوں کے ظاہر نہیں دیکھتا، دل دیکھتا ہے۔ وہ کیمروں کے زاویے نہیں، نیتوں کے رخ دیکھتا ہے۔ اصل کامیابی یہی ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے کچھ ہو اور لوگوں کے سامنے کچھ نہ ہو۔ خاموش سجدہ، چھپی ہوئی دعا، اور گمنام آنسو وہ سرمایہ ہیں جو عرش تک پہنچتے ہیں۔ دنیا کی اسکرینوں پر چمکنے والی نیکیاں کہیں آخرت کا اندھیرا نہ بن جائیں۔ ایک بزرگ سے پوچھا گیا:اخلاص کیا ہے؟فرمایا:"یہ کہ تمہاری عبادت کا علم فرشتوں کو بھی نہ ہو، مگر اللہ کو ہو۔" ہائے ہائے ۔ کیا کیا دردبیان کروں ؟ جب انسان کے قدم مکہ و مدینہ کی اُن وادیوں میں داخل ہوتے ہیں جہاں زمین اب بھی لہو کی خوشبو سنبھالے ہوئے ہے، جہاں اُحد کا پہاڑ آج بھی پشت پھیرنے والوں کی لغزش اور شہداء کی استقامت کا گواہ بن کر کھڑا ہے، جہاں بدر کی ریت نے مٹھی بھر اہلِ ایمان کو تاریخ کا رخ موڑتے دیکھا، جہاں خندق کی خاک میں فاقوں، زخموں اور یقین کی چیخیں دفن ہیں، تو وہاں دل کو پھٹ جانا چاہیے، وہاں زبان کو گنگ ہو جانا چاہیے، وہاں ہنسی کو مر جانا چاہیے؛ کیونکہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں کلمہ قہقہوں میں نہیں، خون میں ڈوبا تھا، جہاں ایمان سکرین پر نہیں، سینوں پر لکھا جاتا تھا، جہاں سجدے آرام کے نہیں، تلواروں کے سائے میں ہوتے تھے؛ مگر کتنا دل دہلا دینے والا منظر ہے کہ آج انہی وادیوں میں کچھ لوگ اشک بہانے کے بجائے مسکراتے چہرے سجاتے، قہقہے اچھالتے، پکنگ مناتے اور فوٹیج بناتے پھر رہے ہیں، جیسے یہ شہداء کے مقتل نہیں بلکہ کسی میلے کی گزرگاہ ہو، جیسے یہ زمین قربانی کی نہیں بلکہ تماشے کی طلبگار ہو؛ انہیں شاید خبر نہیں کہ یہاں ہنسنے والا ہر لمحہ اُن سروں کی توہین ہے جو کلمہ بچانے کے لیے کٹ گئے، یہاں کیمرہ اٹھانے والا ہر ہاتھ اُن ہاتھوں کا انکار ہے جو نیزوں میں پیوست ہو کر بھی لرزے نہیں، اور یہاں بنائی گئی ہر ویڈیو خاموشی سے یہ سوال چلا رہی ہے کہ جس دین کے لیے یہاں لاشیں بچھیں، کیا وہ تمہارے دل تک صرف ایک کلپ بن کر ہی پہنچا ہے؟ قلم و قرطاس اب نوحہ گوئی سے بھی عاجز ہو گئے ہیں۔ بس دعا ہے کہ اللہ ہمیں وہ اخلاص عطا فرمائے جو عمل کو زندہ رکھتا ہے، وہ ادب عطا فرمائے جو عبادت کو باوقار بناتا ہے، اور وہ بصیرت عطا فرمائے جو ہمیں اس دور کے فتنوں کو پہچاننے کی توفیق دے۔ ہمیں ایسا بندہ بنا دے جو تیرے گھر میں آئے تو صرف تیرے لیے آئے، جس کا سجدہ صرف تیرے لیے ہو، اور جس کے آنسوؤں کا راز تیرے اور اس کے درمیان ہی رہے۔ آمین۔ Haseeb Ejaz Aashir | 03344076757 |