تحریر : طہٰ منیب
نظریہ قوموں میں روح کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بغیر قومیں اپنی روح کھو
بیٹھتی ہیں جبکہ نظریے پرکاربند اقوام زندہ و جاوید رہتی ہیں. آج کی جنگ
نظریات کی جنگ ہے۔ نظریات کے دفاع و فروغ کیلئے اقوام سرگرم عمل ہیں. مختلف
مذاہب و نظاموں کی بنیاد نظریات پر ہے۔ اسلام، یہودیت، ہندو مت، عیسائیت،
بدھ مت، سیکولرزم، لبرلزم، کیپیٹلزم اور کمیونزم کی بنیاد پر دنیا میں
جنگیں ہوئیں ہیں۔مدینہ طیبہ کے بعد پاکستان کی ریاست جس نظریہ کی بنیاد پر
وجود میں آئی وہ نظریہ، نظریہ اسلام ہے۔ یہ نظریہ ہی ہے جس کی وجہ سے آج
پوری دنیا پاکستان کے خلاف ہوچکی ہے اور اسے دنیا میں تنہا کرنے کی پالیسی
پر عمل کیا جا رہا ہے۔بر صغیر میں انگریز سامراج کی آمد کے بعد مسلمانوں کی
حکومت چھن گئی اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے. ان کا جینا دوبھر
کردیا گیا، زندہ رہنے کی آزادی چھین لی گئی۔ یہ وہ حالات تھے جب ہندو
اکثریت انگریز حکمرانوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا استحصال کرنے میں مشغول
تھے۔ ایسے میں سرسید احمد خان اور دیگر مسلم لیڈرز اٹھے جنہوں نے مسلمانوں
کو سیاسی و قومی طور پر بیدار کرنے کے لئے تحریک کا اعلان کیا۔ انیس سو چھ
میں مسلم لیگ کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ علامہ محمد اقبال نے خطبہ
الہ آباد کے موقع پر مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطے کا اعلان کیا جہاں وہ
آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا ہوسکیں۔
انیس سو تیس میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے 21 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال نے کہا کہ ’’ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں
ہیں ان میں کوئی بھی چیز مشترکہ نہیں اور گزشتہ ایک ہزار سال سے وہ
ہندوستان میں اپنی ایک الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں ان دونوں کو موں کے
نظریہ آزادی میں نمایاں فرق ہے اور میں واضح الفاظ میں قید دینا چاہتا ہوں
کہ ہندوستان کی سیاسی کشمکش کا حل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ہر جماعت کو
اپنی اپنی مخصوص قومیں اور تہذیبی بنیادوں پر آزادانہ شوری کا حق دیا جائے۔
اسی طرح ایک اور جگہ پر کہا " میں چاہتا ہوں کہ پنجاب شمالی مغربی سرحدی
صوبہ سندھ اور بلوچستان ایک ریاست میں مدغم ہو جائیں مجھے ایسا دکھائی دیتا
ہے کہ برطانوی حکومت کے اندر رہتے ہوئے یا باہر خودمختاری کا حصول اور شمال
مغربی علاقوں میں ایک مسلم ریاست کا قیام مسلمانوں کا مقدر بن گیا ہے‘‘۔
مسلمانوں نے علامہ اقبال کے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قائد اعظم
محمد علی جناح کی قیادت میں بھرپور تحریک شروع کردی. چوہدری رحمت علی نے اس
خطے کا نام پاکستان تجویز کیا۔ انیس سو چالیس میں منٹو پارک لاہور میں
قرارداد پاکستان پیش کی گئی۔ جہاں برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے علیحدہ وطن
پاکستان کا مطالبہ کیا جس کی وجہ سے یہ تحریک مزید عروج پکڑ گئی۔
اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا
"ہمارا رہنما اسلام ہے اور یہی ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے ہم کسی سرخ یا
پیلے پرچم کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہمیں سوشلزم کمیونزم یا کسی اور ازم کی
ضرورت ہیـــــ‘‘۔
برطانوی حکومت اور ہندو اکثریتی کانگریس نے بہت سے منصوبے پیش کیے تاکہ
پاکستان کے قیام کو روکا جاسکے اور متحدہ ہندوستان پر ہندوؤں کی حکومت قائم
ہو سکے لیکن قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے پاکستان کے مطالبے کے لیے
تحریک کو جاری رکھا. 14 اگست 1947 کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا "ہم نے پاکستان
کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم چاہتے
تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
ہندو اکثریتی ہندوستان جس پر انگریز کی اجارہ داری قائم تھی دونوں کی
مشترکہ سازشوں کے باوجود پاکستان کا قیام کسی معجزے سے کم نہ تھا. لاکھوں
مسلمانوں نے ہجرتیں کیں اور اپنا خون پیش کیا. قربانیوں کی طویل داستاں رقم
کی گئی. دو قومی نظریہ کے اصول کے مطابق مسلم اکثریتی علاقوں بنگال، پنجاب،
سندھ، بلوچستان، سرحد پر مشتمل ریاست پاکستان کا وجود عمل میں آیا. اسی
اصول کے تحت حیدرآباد، جوناگڑھ، مناودر اور کشمیر کی ریاستیں بھی پاکستان
کا حصہ بننا تھی لیکن بھارتی فوج نے فوجی قبضے کے ذریعے انہیں پاکستان کا
حصہ بننے سے روک دیا. بعدازاں اس نوزائیدہ ریاست کے حصے میں آنے والی
انڈسٹری، آرمی، کرنسی اور دیگر وسائل پر قبضہ جما کر پاکستان کو اس کے حق
سے محروم رکھا گیا. تا کہ شروع میں ہی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار ہو
جائے. 26 اکتوبر 1947 کو بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج اتار کر مسلم
اکثریتی علاقے پر اپنا قبضہ جما کر کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم کر
دیا . قائداعظم نے افواج پاکستان کے سربراہ جنرل گریسی کو کشمیر میں بھارتی
افواج کے خلاف لڑنے کا حکم دیا لیکن اس نے انکار کردیا بعد میں صوبہ سرحد
سے تعلق رکھنے والے پختون قبائل نے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے
کشمیر میں بھارتی فوج کے مقابلے کے لیے جنگ کا آغاز کر دیا. اپنی افواج کی
پسپائی اور ممکنہ شکست کو دیکھتے ہوئے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے
اقوام متحدہ میں کشمیریوں کو حق خودارادیت کے وعدے پر جنگ بندی کی درخواست
کی. آدھا کشمیر قبائل کے جہاد کے نتیجے میں بھارتی قبضہ سے آزاد ہو گیا.
باقی ماندہ کشمیر پر بھارتی فوج نے قبضہ جما کر لاکھوں کشمیریوں پر ظلم و
ستم کرتے ہوئے ظالمانہ غاصبانہ قبضہ جاری رکھا ہوا ہے اور اقوام متحدہ کی
قرار دادوں کو ماننے سے انکار کیا ہوا ہے۔انیس سو پینسٹھ میں بھارتی جنرل
پاکستان پر قبضے کا خواب دیکھتے ہوئے لاہور پر حملہ آور ہوئے جس کے بعد یہ
جنگ سیالکوٹ اور دیگر علاقوں میں پھیل گئی. پاک افواج کے جذبہ جہاد اور شوق
شہادت کی وجہ سے بھارت کو ایک مرتبہ پھر منہ کی کھانی پڑی اور بدترین شکست
سے بچنے کیلئے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لیے بھاگ کھڑا ہوا۔یہ سلسلہ رکا
نہیں بلکہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کھڑی کرنے کے اقدامات شروع
کردیئے. تعلیم کے شعبے میں ہندو اساتذہ کی خدمات حاصل کرکے بنگالی قوم میں
محرومیوں کا احساس پیدا کیا گیا جس کی بنا پر انہیں پاکستان سے علیحدگی پر
اکسایا گیا اور دسمبر 1971 میں بھارتی فوج نے جارحیت کرکے بین الاقوامی
باڈر کو روند کر مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا اور اس بھارتی دہشت گردی کے
نتیجے میں پاکستان کا مشرقی بازو کٹ گیا. جس پر بھارتی وزیر اعظم اندرا
گاندھی نے کہا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔
انیس سو اٹھتر میں افغانستان پر روس نے قبضہ کیا جس کا ہدف پاکستان کے گرم
پانیوں تک رسائی تھا. پاکستان نے اس جارحیت کا مقابلہ افغانستان میں کرنے
کا فیصلہ کیا. ملحد کمیونسٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے لاالہ اﷲ محمدالرسول اﷲ
پاکستان نے غیرتمند افغانوں کی حمایت کا اعلان کیا. جس کے نتیجے میں چند
سالوں میں ہی روس کو شکست ہوئی اور نظریہ اسلام کے ملک پاکستان کو سرخروئی
حاصل ہوئی۔ انیس سو بانوے میں شدت پسند بی جے پی اور آر ایس ایس کے دہشت
گردوں نے بابری مسجد کو شہید کرکے رام مندر کی تعمیر کا اعلان کیا۔مئی 1998
میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان پر اپنی مشرکانہ برتری کی کوشش
کی تو پاکستان نے اس کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں چھ دھماکے کر کے
دو قومی نظریے کے محافظ اسلام کے قلعے کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔
نریندر مودی کے زیر حکومت 2002 میں گجرات فسادات کے ذریعے چند دنوں میں
ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا کر شہید کر دیا گیا۔2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس
پر حملوں کے ذریعے 68 پاکستانیوں کو شہید کردیا گیا۔ دوسری طرف پاکستان میں
افغانستان کی سرزمین استعمال کرکے دہشتگردوں کی مالی و عسکری تربیت کرکے
پاکستان کو خون میں نہلایا جاتا رہا. جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی اور دیگر خوارج
کے ذریعے پاکستان کی مسجدوں، بازاروں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر
حملے معمول تھے جس کے نتیجے میں 70 ہزار معصوم پاکستانی شہید ہوئے۔کراچی
میں مہاجر کارڈ استعمال کرکے روشنیوں کے شہر کو اندھیری رات میں بدل دیا
گیا. کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جب کراچی میں بوری بند لاشیں نہ ملتی
ہوں. سندھ میں بھارتی جاسوس کے ذریعے سندھی قوم پرستوں کو سندھو دیش کے ہدف
دیے گئے. 2009 میں پاکستان کے اندر کھیلوں کو برباد کرنے کے لیے سری لنکن
ٹیم پر حملہ کیا گیا. 16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پشاور پر حملہ کر کے ڈیڑھ
سو معصوم پھولوں کو بے دردی سے کچلنے والے دہشتگرد بھیڑیوں کے ماسٹر مائنڈ
بھارتیوں کے ایجنٹ نکلے. کلبوشن یادو جیسے حاضر سروس بھارتی خفیہ ایجنسی را
کے افسروں نے بلوچستان کو خاک و خون میں نہلانے کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی.
پاکستان کی زراعت کو تباہ و برباد کرنے کے لئے بھارت نے پاکستان کی شہ رگ
کشمیر کو اپنے قبضے میں جکڑا ہوا ہے اور وہاں سے آنے والے دریاؤں پر ڈیم
بنا کر پاکستان کو بنجر بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جبکہ تحریک کو کچلنے
کے لیے ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھا ہوا ہے کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر
معصوم کشمیریوں کو شہید کر کے حقوق انسانی کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں جبکہ
ایف اے ٹی ایف کے نام پر برطانیہ، فرانس، جرمنی، بھارت، اسرائیل کا شیطانی
اتحاد امریکی قیادت میں افغانستان میں ہونے والی شکست کا ذمہ دار پاکستان
کو گردانتے ہوئے پاکستان پر عالمی معاشی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کر
رہا ہے. یاد رہے یہ سب دشمنی پاکستان کے نظریہ کہ خلاف ہے جو دراصل نظریہ
اسلام ہے. لیکن ان سب سازشوں کے باوجود روس کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہو یا سی
پیک کی صورت میں پاکستان میں آنے والی خوشحالی، سعودی عرب کی زیرنگرانی
راحیل شریف کی قیادت میں چالیس ممالک کا اسلامی اتحاد ہو یا ترکی سے
تعلقات، اسلام کا قلعہ پاکستان، کشمیر و فلسطین کی تحریکوں کا پشتی بان
پاکستان مستقبل کا مضبوط پاکستان ہے۔ ان شاء اﷲ۔ |