بظاہر تو ایسا اشارہ ملا ہے کہ جب سے میاں نواز
شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش کیا گیا اور اس وقت سے اب تک ان کی
مایوس کن خیالات اور نہ سمجھنے والے انداز بتا رہے ہیں کہ وہ اب سیاست سے
بددل ہوگئے ہیں ،اور لوگ بھی سمجھ رہے ہیں کہ وہ جو انہوں نے بیانیہ نظریہ
اپنایا ہوا ہے اس میں کسی بھی قسم کی صداق نہیں، آپ اس بات کو لے لیں سپریم
کورٹ آف پاکستان نے انہیں بدعنوانی میں نہیں غلط بیانی میں نااہل قرار دیا
جسے نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم بھی کیا اس کے باوجود وہ
گلی ،محلہ ،سڑکوں، روڈ ،اور مختلف مقامات پر یہ بیانیہ کہ (مجھے کیوں نکالا)؟
سوال یہ عوام سے کر رہے ہیں جس کا جواب اور اس کا حل عوام کے پاس موجود
نہیں لاکھ نواز شریف کروڑوں ووٹ لیکر وہ وزیر اعظم کے منصب پر پہنچے مگر وہ
اس منصب پر رہنے کے لائق نہیں تھے اس وجہ سے پاناما لیکس میں سپریم کورٹ نے
وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار د ے دیا اثاثوں سے متعلق حقائق چھپانے
پر وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے جھوٹا حلفی بیان جمع کرایا پانچوں ججزنے
نواز شریف کو دبئی کی کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنی میں اپنی قابل وصول تنخواہ (اثاثہ)
کو ظاہر نہ کرنے پر نا اہل قرار دیا عام انتخابات 2013 کے کاغذات نامزدگی
میں متحدہ عرب امارات کی کیپٹل ایف زیڈ ای جبل علی کمپنی کے قابل وصول
اثاثہ جات جو کہ نکالے نہیں گئے ان کو عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 کے سیکشن
12 ٹو ایف کے تحت ظاہر نہ کرنے پر اور غلط ڈ یکلیئرشن داخل کرنے پر میاں
نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ سیکشن 99 ایف اور آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف
کے تحت صادق و امین نہیں رہے جس وجہ سے ان کو بطور ممبر پارلیمنٹ نا اہل
قرار دیا گیا لہذا نواز شریف کا یہ کہنا بالکل صحیح نہیں ہے کہ( مجھے کیوں
نکالا ) اگر اُن دوران نواز شریف اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ
لیتے تو کوئی حرج نہیں تھا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا جبکہ ا نہیں نظر
ثانی کا موقع بھی ملا جس میں معافی کی درخواست کی جاتی تو شاید ممکن تھا کہ
معافی مل جاتی مگر یہ موقع بھی گنوا دیا نواز شریف کو یہ گمان تھا کہ عوامی
حمایت کے بل بوتے اپنی خواہش کی تکمیل ہوجائے اس سلسلے میں نواز شریف نے
عدلیہ کے فیصلے کے خلاف تحریک شروع کی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو عوام کی
نظر میں گمراہ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوئے اور ہونا بھی تھا
کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق تھا اس نواز شریف کے وہ
چہیتے جنہوں نے آئین و قانون کی حدود پار کردی اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ
وہ توہین عدالت کے مرتکب قرارپائے گئے اور انہیں سزا کھانی پڑی جن میں مسلم
لیگ کے نااہل ہونے والا سینیٹر نہال ہاشمی جسے کس قدرذلت ، شرمندگی، شرمندہ
و رسوا ئی کا سامنا کرنا پڑا وہ منظر بھی عوام نے دیکھا اور اب سپریم کورٹ
نے توہین عدالت کیس میں مسلم لیگ (ن)کے رہنما طلال چودھری پر فرد جرم عائد
کردی طلا چودھری نے اپنی تقریر میں عدلیہ کو بدنام کیا وہ بھی اپنی تقریروں
میں عدلیہ کی توہین کے مرتکب قرار پائے ہیں در اصل نواز شریف انا اور غلط
مشیروں کے چنگل میں پھنس گئے اب حالیہ ان کے خیالات سن کر اندازہ کریں کہ
وہ کس قدر اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہے ہیں ابھی حال ہی میں نااہل وزیر
اعظم نواز شریف کو پارٹی کے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں تاحیات قائد
بنایا گیا مگر ابھی وہ مطمئن نہیں ہیں کیونکہ اس وقت نواز شریف کی اہمیت
ایک عام عادمی جیسی ہے وہ جو چاہتے ہیں اس کا حل عوام کے پاس نہیں صرف اپنی
غلطی کا اعتراف ہے اور سپریم کورٹ سے معافی مانگے تب ان کے حالات میں
تبدیلی رونما ہوسکتی ہے-
گزشتہ روز جنرل کونسل اجلاس میں نواز شریف عوام سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں2013
میں آپ نے مجھے وزیر اعظم بنایا سمجھ نہیں آتی آناً فاناً ایک اچھے بھلے
وزیر اعظم کو ہٹا دیا گیا چار سال پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ملک
میں اندھیرے تھے دہشتگردی کا سامنا تھا قوم ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف
جارہی تھی ہم نے رات دن کام کیا اوراس کا علاج بھی کیا نواز شریف نے ٹوٹے
ہوئے دل سے کہا میں بھی انسان ہوں اب توسابق نااہل وزیر اعظم شعر و شاعری
بھی کرنے لگے ہیں ملاحظہ ہو
سابق وزیر اعظم نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کے دوران ایک شعر
سنایا
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب ۔ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے
تھے
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ میں لڑائی کے حق میں نہیں ہوں میں
چاہتا ہوں ملک آئین و قانون کے مطابق چلے، جامع نظام عدل لانے کے لئے کام
کر رہے ہیں ،انہوں نے حالیہ ہونے والے سینیٹ الیکشن کے متعلق کہا جو کچھ
سینیٹ میں ہوا تماشا پوری قوم نے دیکھا اس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں
کوئی بتائے کہ عمران خان اور آصف علی زرداری کو سنجرانی ہاؤس کا پتا کس نے
بتایا ؟ نواز شریف کہتے ہیں آدھی زندگی گزر گئی اچھے اور برے تجربات دیگر
سیاستدانوں کے ساتھ بھی ہوئے ان سے سیکھنا چاہیے ملک و قوم کے لئے جو اچھا
ہوا اس سے دل خوش ہوتا ہے میرے سوا جن سیاستدانوں کے مقدمات ہیں ان پر
کرپشن اور کِک بیکس کے الزامات ہیں میرا مقدمہ اپنی نوعت کا پہلا کیس ہے جس
میں ایسا کوئی الزام نہیں ، نواز شریف نے کہا ایسا نظام لائیں گے جس میں
عدل ہوگا موجودہ نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، انصاف نہ ملنا یا دیر سے
ملنا بڑا مسئلہ ہے ،صحافی نے ایک سوال کیا کہ اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ آپ
سازش کرنے والے کانام لیں آپ کے ساتھ کھڑے ہونگے آپ کو لگتا ہے وہ ساتھ
کھڑے ہونگے جس پر نواز شریف نے کہا ہم بھی دیکھ رہے ہیں اور آپ بھی کہ کیا
چل رہا ہے نواز شریف نے کہا اب نہ وہ وقت رہا اور نہ ہی حالات دنیا اب بہت
آگے چلی گئی ہے مسلم لیگ کی جنرل کونسل کے اجلاس میں خطاب کے دوران نواز
شریف نے کچھ اس انداز میں اشعار پڑھے اور عمران خان اور زرداری پر ایک ہی
در پر جھکنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب ۔ شرم تم کو مگر آتی نہیں اور بھی شعر ،
جو میں بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ۔ تیرا دل تو ہے صنم آشنا
تجھے کیا ملے گا نماز میں
آخری شعر بھی سنا ہی دیا نواز شریف کے زبانی ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین
گلستان میں ۔ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے ایک جگہ سابق وزیر
اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ مجھے اب پھر سے جان بوجھ کر پھنسایا جارہا ہے
عدالتوں کا دہرا معیار ہے جو جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا ایک سوال کے
جواب میں نواز شریف کہتے ہیں جو ججز میرے کیس کے بینچ میں شامل تھے اگر ان
سے انصاف مل سکتا تو میرا فیصلہ پاناما کے بجائے اقامہ پر نہ ہوتا یہ ایک
بڑی دلیل ہے اس بینچ کے ججز سے انصاف کی کوئی اُمید نہیں۔
آخر کیوں میں معروف کالم نویس رؤف کلاسرا لکھتے ہیں لگتا ہے شریف خاندان
اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے اور خصوصی عدالت میں چلنے والے مقدمات میں
شریف خاندان کو کرپشن پہ سزاؤں کا فیصلہ ہوگا وہ کہتے ہیں ان پانچ برسوں
میں نئی نسل سامنے آئی ہے جسے پہلی دفعہ پاناما لیکس سے پتا چلا کہ شریف
خاندان نے کتنی کرپشن کی ہے اور دنیا کن کن براعظموں میں ان کی جائیدادیں
ہیں ملک کے وزیر اعظم دبئی میں پارٹ ٹائم نوکری کرتے پکڑے گئے نوجوان نسل
کو پہلی دفعہ پتا چلا کہ سیاست خدمت کے لیے نہیں بلکہ ذاتی لوٹ مار کے لیے
کی جاتی ہے نواز شریف کو دھچکا لگا کہ جنہیں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا
تھا وہ ان کے ساتھ نہیں رہے رؤف کلاسرا مزید لکھتے ہیں جس طرح نواز شریف نے
اداروں پر حملے کیے ہیں اس کے بعد ان کا کوئی بھی خواہ وہ کتنا ہمدردہی
کیوں نہ ان کا دفاع نہیں کرسکتا پانسہ پلٹ چکا اب جو ماحول بن چکا ہے اور
عمران زرداری الائنس جس تیزی سے شریف خاندان اس طوفان سے نکل نہیں پائے گا
جنہوں نے شریف خاندان کو پہاڑ پر چڑھایا تھا وہی اب نیچے اتارنے کا بندوبست
کر رہے ہیں اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔ بہر حال ہم یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف
اپنی اصلاح کریں اور عدلیہ کا احترام صدقے دل سے کریں اور آئین و قانون کے
مطابق چلنے کی بات کرتے ہیں تو اس پر عملی جامعہ پہنائیں تب ہی ان حالات سے
نجات پاسکتے ہیں اور تنہائی کو دور کرنے کا یہی راستہ ہے۔
کیا واقعی نواز شریف سیاست سے کنارہ کشی کر رہے ہیں ایسا مت کرنا پھر تو
تنہائی مزید کا ٹے گی۔ تنہائی کے متعلق شعر
تنہائی کا عالم بھی پر اسرار ہے کتنا جیسے کوئی چھپ چھپ کے مجھے دیکھ رہا
ہے
جس کے ایما ء پر یہ کیا ترک تعلق سب سے اب وہی شخص مجھے طعنہ تنہائی دے
|