تا حیات قائد‘ پاکستان مسلم لیگ (ن)نا اہل وزیر اعظم میاں
محمد نواز شریف کا بیانیہ پانامالیکس میں ناہلی کے فیصلے کے بعد بہت واضح
اور دو ٹوک بیانیہ قوم کے سامنے آیا اور اس کی بانگ دھل تشہیر کی گئی۔
بیانیہ ظاہر میں یہ ہے کہ ’مجھے کیوں نکالا‘ اور پھر اس میں اضافہ ہوا اس
وقت اور ہوگیا جب انہیں نون لیگ کی صدارت سے بھی نا اہل کردیا گیا ۔ گویا
اب بیانیہ کچھ اس طرح ہوگیا کہ ’’مجھے کیوں نکالا اور مجھے صدارت سے بھی
نکال دیا‘‘۔ یہ بیانیہ خوب مشہور ہوا، نون لیگ چاہنے والوں نے اسے ہاتھوں
ہاتھ لیا۔ ہمدردی دکھائی، آنسو بہائے، آہ و گریا کیا،ہاتھ پیر مارے، برا
بھلا کہا، یہاں تک کہ گالیاں تک دیں۔ لیکن کچھ نہ ہوا، دونوں فیصلوں پر عمل
در آمد ضرور ہوا۔ بقول میرتقی میرؔ
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
کام تمام کیا ہو ا، دنیا نے دیکھا ، میاں صاحب اور ان کے چند درباری اپنے
بیانیہ پر قائم رہے جس کا نتیجہ میاں صاحب کے ایک درباری شاہ سے زیادہ شاہ
کے وفاداری میں ا تنے آگے نکل گئے کہ انہیں ایک ماہ قید ہوئی، پچاس ہزار
جرمانہ اور پانچ سال کے لیے نااہل ہوئے۔ سزاکاٹی ، حوش ٹھکانے نہیں آئے،جو
ں ہی جیل سے باہر آئے سمجھے جیسے اب وہ ملک کے طاقت ترین شہ بن گئے، بہت
بڑا کارمانہ انجام دے دیا، وہی انداز گفتگو، وہی بیہودہ گفتگو، وہی گلو بٹ
والا اسٹائل اپناتے ہوئے عدلیہ کو وہ کچھ کہا جو انہوں نے پہلے نہیں کہا
تھا، پھر دھر طلب کر لیے گئے ، عدالت میں حاضر ہوئے اور شیر جو دھاڑ دھاڑ
کے پاگل ہورہا تھامعزز عدالت میں بکری ، منہ لٹکائے کھڑا ، مافی مانگتا نظر
آیا لیکن عدالت نے اس کا معافی سر دست قبول نہیں کیا، فرد جرم عائد ہوچکی،
موصوف کا وکیل بھی شرمندہ ہورہا تھا لیکن اب عدالت ان کے ساتھ کیا کرتی ہے
یہ وقت بتائے گا، یہ ہے میاں نواز شریف کا بیانیہ۔ اور بھی شاہ کے وفادار
ہیں جیسے نام کے شیر، زبان کے شیر ، عدالت میں بکری ، جلد ان پر فرد جرم
عائد ہوگی، دیکھیں عدالت ان کا کیا حشر کرتی ہے، یہی کچھ دانیال عزیز کا ہے
ان پر بھی فرد جرم عائد ہونے کو ہے، وہ بھی اپنے کیے کی سزا بھگتنے والے
ہیں۔ باقی چھوٹے موٹے درباریوں کی تو بات ہی کیا ہے۔ میاں نواز شریف کا
بیانیہ ہی ہے جس کی وجہ سے سیاست میں بیہودگی آگئی جس کا مظاہرہ ان کے
مخالفین نے خواجہ محمد آصف کے ساتھ جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کیا، بات
یہاں تک نہیں رہی بلکہ نواز شریف پر وہ بھی مدرسہ میں جو کچھ ہوا وہ سب کے
سامنے ہے۔اس عمل کو کسی باشعور طبقے نے پسند نہیں کیا، مخالفت اپنی جگہ
لیکن سیاست میں شائستگی کا، شرافت کا، احترام کا دامن نہیں ہاتھ سے چھوٹنا
چاہیے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے
کارکنوں ساتھیوں کو اس حد تک نہ جانے کی سخت تلقین کرنی چاہیے ، اس قسم کے
واقعات کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤ کو سخت الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے
اور کی بھی ہے ۔ بات میاں صاحب کے بیانیہ کی ہورہی تھی اس میں کوئی لچک
محسوس نہیں ہورہی۔
میاں صاحب کے دیرانہ ساتھی ، سنجیدہ سیاست داں چوہدری نثار نے تو کھل کر
میاں صاحب کے بیانیہ سے ہٹ کر اپنا موقف دیدیاجو واقعی بہت ماقول ہے۔در اصل
میاں نواز شریف کا بیانیے کی مثال کچھ ایسی ہے کہ ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے
اور دکھانے کے اور‘‘ یعنی وہ کہہ تو رہے ہیں کے مجھے کیوں نکالا، مجھ پر
کرپشن کا الزام نہیں، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں انہیں نااہل کیا
درحقیقت وہ صرف ایسا نہیں کر رہے بلکہ وہ اور ان کے چند ساتھی وہ کر رہے
ہیں جس کی جانب چوہدری نثار واضح الفاظ میں اشارہ کیا اور اسے اپنا موقف
قرار دیا یعنی اداروں سے ٹکراؤ، اداروں کی تضحیک ، اداروں سے لڑائی نہ کریں
، جو سیاسی مخالفین ہیں ان کے ساتھ سیاست کریں لیکن کیا کیا جائے ، میاں
صاحب کا ماضی کچھ اسی قسم کا رہا ہے ، ٹکراؤ اور عدم برداشت کا مظاہرہ وہ
ماضی میں کرتے رہے ہیں اور اب بھی عدم برداشت کا مظاہری کیا جارہا ہے۔
چودھری نثار کے طرز عمل سے اس بات کے اشارے مل رہے تھے کوئی نہ کوئی معاملہ
دونوں کے درمیان ضرور ہے آخر وہ سامنے آہی گیا۔ انہوں نے میاں نواز شریف کے
بیانیہ سے اختلاف کرتے ہوئے اسے اپنا بیانیہ نہیں بلکہ اپنا موقف کہتے ہوئے
فرمایا کہ ’’سیاست باکسنگ نہ پہلوانی ، نواز شریف کو بتایا فوج وار عدلیہ
سے نہ لڑیں‘‘۔ چودہری نثار نے جس کھلے الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا ، یہی
وہ بنیادی اختلاف ہے جس نے چوہدی نثار اور میاں نواز شریف کے درمیان سرد
جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس کی وجہ سے چودہری نثار
اور نواز شریف کے چند قریبی نون لیگیوں کے مابین بات چیت بھی بند رہے اور
یہی وہ بنیادی سوچ اور موقف ہے جس کی وجہ سے ماضی میں اکثر یہ سنا گیا کہ
مہینے مہینے چودھری نثار اور میاں نواز شریف میں بات چیت نہیں ہوتی تھی
دونوں ایک دوسرے سے ملتے نہیں تھے۔ یہ ملک کا نظام کس طرح چلتا رہا کہ کہ
ملک وزیر داخلہ وزیرا عظم سے ملاقات نہ کرے ، آپس میں بات چیت نہ ہو۔ چوہدی
نثار جسے اپنا موقف کہا وہ دراصل ان کا بیانیہ ہی ہے۔ میاں نواز شریف کے
موقف کو بیانیہ کا نام دیا گیا ہے۔ پریس کانفرنس میں دیگر امور پر بھی بات
ہوئی ، مسلم لیگ نون کو خیر باد کہنے پر سوال ہوا، یہ بھی کہا گیا کہ نون
لیگ میں ان کے حلقے کے لیے ان کا متبادل ڈھونڈنے کی کاروئی شروع ہوچکی ہے
اس کا جواب چوہدری نثار نے یہ دیا کہ میرا متبادل ڈھونڈنے والوں کی ضمانتیں
ضبط ہوجائیں گی۔ انہوں نون لیگ میں فارورڈ بلاک بننے کی بات کی نفی کی، ان
کہنا تھا بہت سی باتوں کی وضاحت کا وقت قریب آگیا ہے۔ چوہدی نثارٹیکسلا میں
پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ جوتے کی سیاست کو انہوں نے بدترین سیاست قرار دیا
چاہے کسی سیاسی رہنما کے خلاف استعمال ہو، ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں
موقف کا اظہار کیا تو کیا پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی؟ انہوں نے دو ٹوک
الفاظ میں کہا کہ ہمیں اداروں سے لڑنے کے بجائے سیاسی اپوزیشن کی طرف منہ
کرنا چاہیے۔ چوہدی نثار کی باتوں میں وزن ہے، ان کا موقف موجودہ حالات کو
دیکھتے ہوئے بالکل درست دکھائی دیتا ہے۔ فوج اور عدلیہ کے حوالے سے چوہدی
نثار کا موقف یا رائے کوئی نئی نہیں وہ ماضی میں بھی فوج سے اچھے تعلقات کے
حوالے سے یاد کیے جاتے رہے ہیں۔ اداروں سے ٹکراؤ میاں نواز شریف کی اپنی
سوچ ہے یا پھر ان کے گرد رہنے والے نون لیگیوں نے انہیں اس راہ پر ڈال دیا
ہے۔ چوہدی نثار ان کے پرانے اور بہ اعتماد ساتھی ہیں ، اگر میاں صاحب نے
انہیں کھودیا تو یہ نون لیگ کا بڑا نقصان ہوگا ، ان کی طاقت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کی وزارت لی اور میاں نواز
شریف اور کئی وزیروں سے ناراض رہتے ہوئے اس وزارت کو چلاتے رہے۔ یہ ان کی
خوابی اور صلاحیت ہے ۔
چوہدی نثارکے موقف ملتا جلتا موقف، بیانیہ یا رائے میاں شہباز شریف جو اب
نون لیگ کے صدر بھی ہے سامنے آئی ہے۔ چھوٹے میاں صاحب نے گزشتہ روز(17 مارچ
2018)ڈیرہ غازی خان میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ
’’ سیاست دانوں ، عدلیہ اور فوج اور پارلیمان کو کہتا ہوں کہ خدا را مل کر
بیٹھیں اور کام کریں، سیاسی مخالفین سے اپیل کرتا ہوں ہوش کے ناخن لو‘‘۔ جب
سے میاں نواز شریف نا اہل ہوئے، مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں میاں شہباز
شریف نے اپنی تقریروں اور پریس کانفرنسیز میں فوج اورعدلیہ کے بارے میں وہ
زبان استعمال نہیں کی جو میاں صاحب اور ان کے ارد گرد رہنے والے استعمال کر
رہے ہیں۔ چوہدی نثار یہ بات بھی کہہ چکے کہ انہیں میاں شہباز شریف کے ماتحت
کام کرنے میں کوئی مشکل نہیں ، البتہ وہ میڈم مریم نواز کے تحت کام نہیں کر
سکتے۔ اس طرح میاں شہباز شریف کا موقف بھی وہی سامنے آتا ہے جو چوہدی نثار
کا موقف ہے ۔ اس موقف یا بیانیہ کے حق میں کئی نون لیگی پارلیمانی اراکین
بھی ہیں، ان میں سے کچھ نے سینٹ اراکین کے انتخاب اور بعد میں سینٹ کے چیئ
میں کے انتخاب میں اپنے موقف کا اظہار خاموشی سے کر بھی دیا ہے۔ کہا یہ
جارہا ہے زیادہ بڑی تعداد خاموش ہے وہ کسی بھی وقت یا جوں ہی موجودہ حکومت
کی میعاد ختم ہوگی میاں نواز شریف کے بیانیہ سے اختلاف رکھنے والے اور
چوہدی نثار کے موقف اور شہباز کی رائے کی حمایت کرنے والے نون لیگ سے اعلان
بغاوت کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اب بھی وقت ہے کہ میاں نواز شریف جو وزارت اعظمیٰ
سے نا اہل ہوئے ، نون لیگ کی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھے اب جو فیصلہ پاناما
لیکس کے حوالے سے آنے والا ہے اس میں کیا ہوتا ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا،
ساتھ ہی توہین عدالت بھی میاں صاحب کئی بار کر چکے ہیں ، ان میں بھی ان کے
خلاف کاروئی عمل میں آسکتی ہے۔ اس صورت حال میں بڑے میاں صاحب کو چوہدی
نثار کے موقف اور چھوٹے میاں صاحب کی رائے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے
اور ان کے وہ ساتھی جو اس وقت ان کے مشیران میں شامل ہیں کی سوچ سے ہٹ ملک
و قوم اور اپنی پارٹی کے مفاد میں سوچ کر اپنے بیانیہ پر نظر ثانی کریں ،
سیاسی مخالفین کے خوب لتے لیں لیکن اداروں کو برا بھلا کہنا بند کریں۔ اسی
میں ان کی، خاندان کی، پارٹی کی ملک و قوم کی بھلائی اور خیر خواہی دکھائی
دے رہی ہے بصورت دیگر اداروں سے ٹکراؤ کا انجام ماضی میں بھی خوش گوار نہیں
تھا اور اب بھی مختلف نہیں ہوگا۔
|