چونکہ انڈے ایک خاتون پر ہی پھینکے جانے تھے، اس
لئے پارٹی کی مقامی قیادت نے ایک خاتون کا انتخاب کیا۔ چونکہ کچھ روز قبل
سیاسی قائدین پر جوتیاں پھینکنے کا فریضہ مرد حضرات نے ادا کیاتھا، اسی لئے
خواتین پر کوئی چیز پھینکنے کے لئے فیصلہ یہی ہوا کہ یہ کارِ خیر خواتین ہی
سرانجام دیں۔ ظاہر ہے کسی خاتون پر کوئی مرد انڈے برساتا ہوا اچھا بھی نہ
لگتا۔ یہ انڈے جنوبی پنجاب کے خوبصورت اور روایات کے امین شہر بہاول پور
میں پھینکے گئے، گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی مخصوص
نشستوں پر منتخب ہونے والی اور بعد ازاں اپنے قائد پر بہت حساس الزامات
لگانے والی عائشہ گلالئی بہاول پور آئیں تو یہ واقعہ پیش آگیا۔ دلچسپ بات
یہ ہوئی کہ انڈے براہِ راست گلالئی کو نہیں مارے گئے بلکہ ان کے راستے میں
پھینکے گئے، چونکہ یہ کام اُن کے آگے آگے ہو رہا تھا، اس لئے بظاہر یہ خطرہ
اپنی جگہ پر موجود تھا کہ کوئی انڈہ زمین پر مارنے کی بجائے موصوفہ کو بھی
لگ سکتا تھا، لیکن انڈے مارنے والی خاتون نے بھی احتیاط کا دامن تھامے رکھا
اور انڈے نشانے (زمین )پر لگتے رہے۔ تاہم انڈے زمین پر مارنے کی منطق نہ
جانے کیا تھی۔ جوتا ماری کے بعد انڈہ ماری کا یہ واقعہ بھی ناپسندیدہ قرار
دیا گیا، مقامی سطح پر بھی بہت سے لوگوں نے اس عمل کی مذمت کی۔
عائشہ گلالئی کا نام ہنگامی طور پر منظرِ عام پر آیا تھا، پاکستان کی سیاست
میں نام پیدا کرنے کے لئے سب سے بہتر اور آسان طریقہ یہ دریافت ہوا ہے کہ
کسی پر سنگین الزام لگا دیا جائے، اس کام کے جہاں بہت سے لوگ مخالف ہوں گے
وہاں بہت سے حامی بھی پیدا ہو جائیں گے۔ گلالئی نے بھی شہرت کے زینے پر قدم
رکھنے کے لئے اسی فارمولے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے خیبر پختونخواہ سے پی ٹی
آئی کی خواتین کے لئے مخصوص نشست پر منتخب ہو کر قومی اسمبلی کے ایوان تک
رسائی حاصل کی تھی، پھر اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے پانچویں سال کے آغاز
میں ایک الزام کا سہارا لے کر پارٹی کو خیر باد کہہ دیا۔ الزام سنگین تھا،
مخالفین نے اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ، دوسری
طرف دانشور طبقہ بھی انگشت بدنداں تھا کہ سیاسی لیڈر کیسے ہیں، مگر وقت کی
دھُول نے جلد ہی اس معاملہ کو منظر سے غائب کردیا۔ معاملہ تو دب گیا، مگر
پی ٹی آئی میں غصہ کی لہر باقی رہ گئی اور سیاست میں گلالئی کا نام۔ پی ٹی
آئی عدالت تک ہو آئی، مگر گلالئی کی قومی اسمبلی کی وہ رکنیت ختم نہ کروا
سکی، جو خود اس نے پلیٹ میں رکھ کر دی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو لوگ کسی
بھی پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد اپنی ’وفاداریاں‘
تبدیل کر لیتے ہیں، وہ پارٹی چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی رکنیت پر بھی
دو حرف بھیج دیں، اور بعد ازاں اپنی نئی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قسمت آزمائی
کریں، خاص طور پر مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے لوگوں کومنحرف ہونے کا
اعلان کرتے وقت ہی اسمبلی کی سیٹ چھوڑنے کا اعلان بھی ساتھ ہی کرنا چاہیے،
مگر اپنے ہاں عزمِ صمیم اس درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے، کہ عطا دوسرے کی اور
زعم اپنا۔ جس کا احسان مند ہونا چاہیے، اسے ہی آنکھیں دکھائی جاتی ہیں۔
موصوفہ نے پی ٹی آئی چھوڑتے وقت عمران خان پر الزام لگایا تھا، نتیجہ اور
ضرورت کے طور پر مسلم لیگ ن نے معاملہ (اور ساتھ ہی گلالئی) کو بھی خوب
اچھالنے کی کوشش کی، مگر زیادہ کامیابی اس لئے نہ ہو سکی کہ کچھ ہی عرصہ
بعد موصوفہ نے ن لیگ پر بھی الزام لگا دیا کہ مجھے سینیٹ کی ٹکٹ کی آفر کی
گئی تھی، شرط یہ تھی کہ عدلیہ اور فوج کے خلاف بیان بازی کی جائے۔ حیرت
انگیز بات یہ ہوئی کہ اس سنگین الزام کی بھی کسی نے تحقیق نہیں کی۔ یوں
الزامات کی سیاست سے نام کمانے والی گلالئی بہت جلد اس زعم کو پہنچ گئی کہ
اپنی نئی پارٹی بنانے کا سوچنے لگی۔ ہر علاقے میں ایسے لوگ مل ہی جاتے ہیں،
جوہر نئی آنے والی فرنچائز کی طرف توجہ کرتے اور اسے متعارف کروانے کے لئے
دستیاب ہوتے ہیں، جنہیں مقامی سطح پر کوئی نہیں جانتا (یا پوچھتا) وہ ایسے
ہی سہارے تلاش کر لیتے ہیں، دونوں کی بات بن جاتی ہے۔ بہرحال انڈے مارے
جانے والے واقعہ کے بعد گلالئی کا نام بھی خاص سیاستدانوں کی فہرست میں
شامل ہو گیا ہے۔ |