پنجاب کی بیوروکریسی

پنجاب کی بیوروکریسی میاں شہباز شریف کے سامنے کس قدر بے بس ہے اس کا اندازہ عام آدمی نہیں کر سکتا۔ اس بات کا اندازہ صرف اس شخص کو ہو سکتا ہے جس کو اس کا کبھی عملی تجربہ ہوا ہو۔بیوروکریسی میں میاں صاحب کی دہشت اور ڈر کا یہ عالم ہے کہ سرکاری افسر اپنے جائز اور آئینی اختیارات بھی بغیر میاں صاحب کی اجازت کے استعمال نہیں کرتے۔کہ کہیں کوئی بات میاں صاحب کو گراں گزر گئی تو مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ نہ اچھی پوسٹنگ ملے گی اور نہ ہی پروموشن۔مزید جو عتاب نازل ہونا شروع ہو گا وہ الگ۔پنجاب میں اس وقت چند چہیتے بیوروکریٹس کے علاوہ کسی سرکاری آفیسر کی کچھ حیثیت نہیں۔میاں صاحب کے یہ چند پالتو جن کی پتہ نہیں کون سی ادا میاں صاحب کو پسند ہے اس وقت پنجاب کے سیاہ و سفیدکے پوری طرح مالک ہیں۔وہ کسی جونیئر یا سینئر افسر کی پرواہ نہیں کرتے ۔ صرف میاں صاحب کو مانتے اور ان کو خدا جان کر ان کے سامنے ادب کی آخری حدوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ اپنے رب کو تو یہ سب بھول چکے ہیں۔
مجھے ایک ذاتی تجربہ ہوا۔پنجاب بورڈ آف ریونیو میں میرا ایک کیس تھا جس کا فیصلہ 2007 کے شروع میں میرے حق میں ہو گیا۔بیس رکنی کمیٹی جس کی صدارت ممبر کالونی کر رہے تھے اس نے اس کی منظوری دی۔ فائنل فیصلہ لکھتے وقت ممبر کالونی نے ایک فقرے کا اضافہ کر دیا کہ مزید منظوری کے لئے بہتر ہے یہ کیس چیف منسٹر کو بھیج دیا جائے۔ممبر کالونی فائنل اتھارٹی ہیں ان کا مزید منظوری لینا میری سمجھ سے باہر تھا۔اس وقت سینئر ممبر ایک ایسے شخص تھے جنہیں ایمانداری کا خبط تھا۔ میرے یونیورسٹی فیلو تھے۔ وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ہر کام میں رسک ہوتا ہے اس لئے نہ کام کرواور نہ رسک لو۔چیف منسٹر کا حکم ہو تو بغیر کسی کمنٹ کے سارا ملبہ ممبر پر ڈالتے ہوئے فائل اوپر اور باقی فائلوں پر کوئی فضول سا اعتراض یہ ان کا سٹائل تھا۔یہ بھی ایمانداری کا خوبصورت انداز ہے کہ تنخواہ چاہے حلال ہونہ ہو ایمانداری کا بھرم قائم رہے۔ انہوں نے پہلے مجھ سے گلہ کیا کہ تمہارا کام تھا اور تم نے بتایا ہی نہیں۔ میں نے جواب دیا کہ سفارش کی ضرورت نہیں تھی ۔ کہنے لگے سب کو ہمارے تعلقات کا پتہ ہے ۔لوگ یہی جانیں گے کہ میں نے مدد کی ہے۔ انہوں نے پتہ نہیں کیا سوچ کرپہلے ایک اعتراض لگایا اور پھر فائل اپنے دراز میں رکھ لی اور مجھے تڑخاتے رہے۔ میری برداشت جب جواب دے گئی تو میں کورٹ میں چلا گیا۔

میرا موقف تھا کہ ممبر کالونیز حتمی اتھارٹی ہیں ان کا فیصلہ حتمی ہے ۔ سینئر ممبر اور چیف منسٹر کا اس سے کیا کام ۔ مجھے حتمی فیصلے کا لیٹر جاری کیا جائے۔تقریباً نو سال بعد 2016 میں ہائیکورٹ نے میرے موقف کو تسلیم کیا اور فیصلہ میرے حق میں ہو گیا۔ فیصلہ دیتے وقت جناب جسٹس مسعود جہانگیر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تو بالکل اسی طرح ہے کہ میں کوئی فیصلہ لکھوں اور پھر چیف جسٹس صاحب کو ان کی مزید رائے کے لئے بھیج دوں۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق بورڈ آف ریونیو کو چار ماہ میں حتمی فیصلہ مجھے دینا تھا۔ہائی کورٹ کی مقررہ تاریخ پر میں ممبر کالونی سے ملنے ان کے دفتر موجود تھا۔وہ موجود نہیں تھے۔ دفتر کے عملے نے بتایا کہ کورٹ کا فیصلہ موصول ہو چکا ہے اور اس پر کاروائی جاری ہے ۔بہتر ہے آپ پندرہ بیس دن بعد آ کر صورت حال کا پتہ کر لیں۔

تقریباً ایک مہینے بعد میں پتہ کرنے گیا تو مجھے بتایا گیا کہ فائل ممبر کالونی کی عدالت میں بھیج دی گئی ہے۔ یہ عدالت ہفتے میں دو دن کام کرتی ہے۔ میں دو ماہ تک اپنی تاریخ پر عدالت میں جاتا رہا۔ عدالت کے تمام بنچوں پر میرے جیسے سینکڑوں لوگ اونگ رہے ہوتے مگر ممبر کالونی کو نہ آنا تھا اور نہ آئے۔ پتہ چلا کہ اپنی پوسٹنگ کے دوران پچھلے ساڑھے آٹھ ماہ میں وہ فقط ایک دفعہ عدالت تشریف لائے ہیں۔ وجہ شاید ان کی بے پناہ مصروفیت تھی۔ وہ ممبر کالونی کے علاوہ سینئر ممبر بھی تھے۔ فلڈ کمشنر بھی تھے اور اس کے علاوہ چار یا پانچ چارج اور بھی ان کے پاس تھے۔ اتفاق سے ایک دن وہ سینئر ممبر کی عدالت صرف دو یا تین منٹ کے لئے آئے۔ سیڑھیوں پر اترتے میں نے استدعا کی کہ آپ کا یہاں آنا مشکل ہوتا ہے ۔کورٹ آرڈرز کے مطابق چار ماہ ہو چکے بہتر ہے فیصلے کے لئے اپنے دفترہی میں میری بات سن لیں۔ ان کی ہدایت کے مطابق دو دن بعد ان سے دفتر میں ملاقات ہوئی اور فائل منگوا کر سیکرٹری کالونیز کو رائے دینے کے لئے بھیج دی گئی۔

سیکرٹری کالونیز بھلے آدمی تھے۔ ان کی بیسویں گریڈ میں پروموشن ہو چکی تھی اور وہ پوسٹنگ آرڈر کے منتظر تھے۔تقریباً دس روز وہ کوشش کرتے رہے کہ فائل پر کسی رائے کا اظہار نہ کریں اور ان کی جگہ جو نیا بندہ آئے یہ کام وہ سر انجام دے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ اسے خود نپٹا دیں تو مہربانی ہو گی۔ انہوں نے کھل کر کہا کہ آپ کا کیس تو ٹھیک ہے۔ برانچ سے بہت بھی بہت اچھی سمری بن کر آئی ہے۔ ہر چیز ٹھیک ہے مگر میاں صاحب کے منظوری کے بغیر چاہے کورٹ آرڈر ہوں کیسے یہ کیس منظور کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم میرے بس کی بات نہیں۔ آپ کے سارے سیاسی لوگ واقف ہیں،بہتر ہے کسی کو کہہ دیں آسان کام ہے۔میں نے سیاسی راستہ اختیار کرنے سے انکار کیا تو بہت سوچ کر انہوں نے میری مدد میں ممبر کالونی کو لکھا کہ لا (law)ڈیپارٹمنٹ سے رائے لے لی جائے تو بہتر ہے۔ پندرہ دن بعد پتہ چلا کہ فائل واپس آ کر دوبارہ عدالت پہنچ چکی ہے۔میں ایک بار پھر ممبر کالونی سے ملا۔ اتفاق سے انہوں نے اسی ادارے سے ایم اے کیا تھا جس سے میں وابستہ ہوں اس لئے وہ میرا احترام استاد کی طرح ہی کرتے تھے۔ میں نے درخواست کی کہ لا ڈیپارٹمنٹ سے فائل واپس آ چکی۔ کورٹ کی بجائے ذاتی شنوائی کر لیں۔ ویسے بھی کورٹ نے چار مہینے کہا تھا،اب سات مہینے ہوچکے۔ انہوں نے فائل منگوا لی .لا والوں کی رپورٹ پڑھی ۔ مجھے کہنے لگے ٹھیک ہے ، قانون کے محکمے نے بھی آپ کے موقف کو تسلیم کیا ہے۔ تھوڑی مصروفیت ہے مگر چار پانچ دن میں آرڈر کر دوں گا۔

ہر محکمے میں کچھ لال بجھکڑ ہوتے ہیں جو زبردستی ہر کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں اور اس میں سے کچھ حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب بورڈ میں بھی ہیں۔ مجھ سے براہ راست تو انہوں نے کبھی کوئی جوڑ توڑ نہیں کیا۔ مگر جب بھی میری کوئی درخواست وہاں پہنچی کچھ انجانے لوگ ان کے حوالے مجھ تک ضرور پہنچے۔ میری مجبوری ہے کہ جو وہ صاحب چاہتے ہیں میرا نہ تو اس پر ایمان ہے اور نہ ہی اس کی استعاعت۔ میں پانچ دن بعد ممبر کالونی کے پاس پہنچا۔ فائل اسی طرح میز پر پڑی تھی اور وہ لال بجھکڑ صاحب ان کے پاس بیٹھے تھے۔ممبر صاحب نے معذرت کی کہ وقت نہ ملنے کے سبب وہ ڈکٹیشن نہیں دے سکے۔دو دن میں وہ نپٹا دیں گے۔ ممبر صاحب سے وہ صاحب بولے ان کا کیس فائنل کر رہے ہیں۔ممبر صاحب نے اثبات میں جواب دیا۔بولے دیکھ لیں میاں صاحب پہلے ہی کورٹ کے فیصلوں سے کچھ خوش نہیں۔ آپ کے لئے کوئی مشکل نہ بن جائے۔وہ ایک دم پریشان ہو گئے۔مگر کورٹ آرڈر ہے ۔ ممبر صاحب نے کہا۔ہنس کر بولے ، ایسے آرڈرز کی پرواہ نہ کریں۔ یہ آرڈر نہیں۔ کورٹ نے ریمانڈ کیا ہے۔مجھے فائل دیں شاندار جواب لکھ دوں گا۔کورٹ بھی مان لے گا۔ میں نے احتجاج کیا کہ یہ شخص سب غلط کہتا ہے۔ اسے فائل مت دیں۔ میں اس کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ خود فائل کو پوری طرح دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ چند دن بعد پتہ چلا کہ انہی لال بجھکڑ صاحب کے ڈرانے کی وجہ سے انہوں نے فائل اسے دے دی اور اسی کے لکھے نوٹ پر دستخط کر دئیے ہیں۔ میں آج کل دوبارہ ہائی کورٹ میں دعویٰ دائر کرنے کے بعد نئے فیصلے کا منتظر ہوں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500378 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More