بلوچستان کا معاملہ بڑا پیجیدہ ہے۔یہاں کی عوام کی ان کی
لوکل قیادت ہمیشہ احساس محرومی کے نام پر بلیک بیل کرتی رہی ہے۔ڈرایا گیا
کہ بلوچستان کو کچھ لوگ اس کے جائز حقوق سے محروم کررہے ہیں۔کچھ طاقتیں
ہمارے وسائل پر قابض ہیں۔ہماری آزادی ادھوری ہے۔ہم آزاد ہوکر بھی بے بس
ہیں۔وغیر ہ وغیرہ۔بلوچ عوام اپنے قائدین کی بات سن کر ا س کی معقولیت کے
قائل ہیں۔انہیں اپنی بے بسی اور بد حالی پر کوئی شک نہیں۔سسکیاں ان کی عادت
بن چکی ہے او رمایوسی ان کا مقدر۔مسئلہ یہ ہے کہ وہ بدحالی کے باوجود لوکل
قیادت پر بھروسہ کرنے پر آمادہ نہیں۔قیادت کا کردار بھی قول وفعل کے اتنے
تضاد ات رکھتا ہے کہ اعتبار مشکل ہوچکا۔اسے بیرونی خاصبوں سے ڈرایا
جاتاہے۔اپنوں کی طرف دیکھتی ہے تو اسے یہاں بھی اپنے بدخواہوں کا جھمگٹا
نطر آتاہے۔بلوچ عوام کی حالت اس لڑکی کی طرح ہے جو زمانے کی بری نظروں سے
بچنے گھر میں دبکی بیٹھی ہو۔مگر اس کی سوتیلی ما ں اس کا گھرکے اندر بھی
عزت سے رہنا مشکل بنادے۔جب گھر والے ہی بدنیتی پر اتر آئیں تو کوئی جائے
آمان نہیں بچتی۔قو ل وفعل کا اتنا بڑا تضاد ہے کہ بلوچ اپنی قیادت سے بدظن
ہیں۔ جس سے ڈرایا گیا۔خود قیادت اسی کے جلو میں بیٹھی نطر آئی۔جن منصوبوں
کا وعدہ کیا۔انہی کی مخالفت کی گئی۔جن پراجیکٹس کو تباہی لانے والے قراردیا
گیا۔انہی کے فیتے کاٹتی نظر آئی۔یہ بد اعتمادی مستقبل قریب میں دور ہوتی
نظر انہیں آرہی۔وجہ یہ کہ پچھلے دنوں بلوچستان ااسمبلی میں بلوچوں کے
نمائندوں نے جو حلف وفاداری کا حشرکیا۔اس کے بعد یہ منزل اوردور ہوگئی۔ایک
بار پھر عوامی نمائندوں نے جن لوگوں کے نام پر ووٹ لیے تھے۔انہیں چھوڑ
گئے۔جن سے ڈرا کر ووٹ لیے تھے۔انہی کے ساتھ مل گئے۔بلوچ اب قیادت پر اعتبار
کریں بھی تو کس سبب کریں۔
سینٹ الیکشن کے دوران باربار بلوچستان کی خوشحالی لوٹانے کے نعرے سنے
گئے۔دونوں بڑی جماعتوں نے سینٹ چئیرمین کا بلوچستا ن سے بنوانے کا اعلان
کیا تھا۔پہلے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے میر حاصل بزنجو کو چئیرمین سینٹ کے
لیے نامزد کرنے کا فیصلہ کیاگیاتھا۔پیر صابر شاہ ان کے ڈپٹی چئیرمین کے طور
پر نامزد تھے۔ ایک اورتجویز یہ بھی تھی کہ راجہ ظفر الحق کو چئیرمین سینٹ
اور بلوچستان سے کسی کو ڈپٹی چئیرمین سینٹ بنوایا جائے۔جب حتمی فیصلہ کرنے
کا وقت آیا تو میرحاصل بزنجو نے از خو دراجہ ظفر الحق کو چئیرمین سینٹ کے
لیے نامز دکردیا۔ڈپٹی چئیرمین کے لیے بلوچستان سے عثمان کاکڑ کا نام دے
دیاگیا۔بلوچستان کو اس کا حق دلانے کانعرہ دوسری بڑی جماعت نے بھی لگایا،پی
پی قیادت اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی میں ہوئی ادل بدل کو اس سلسلے کی
ایک کڑی قراردے رہی تھی۔کہا جارہا تھاکہ اس ٹریلر کا مقصد بلوچستان کو
اختیار دلوانا ہے۔آگے چل کر چئیرمین سینٹ بھی بلوچستان سے بنوایا جائے
گا۔پی پی نے اس ضمن میں کوئی واضح فیصلہ کرنے میں خاصہ وقت لیا۔اس کے پاس
چیئرمین سینٹ بنوانے کی مطلوبہ تعداد موجود نہ تھی۔ دوسری جماعتوں کا تعاون
درکار تھا۔جناب زرداری کو اس سلسلے میں دشواری یہ پیش آئی کہ جس جماعت سے
بات کی جاتی۔وہ چئیرمین یا ڈپٹی چئیرمین شپ کا مطالبہ کرتی۔پی پی قیادت کی
تمنا تھی کہ کم ازکم ایک عہدہ اس کے اپنے پاس رہ جاتا۔وہ دوسری جماعتوں کے
لیے ایک عہدہ نکال سکتی تھی۔دو عہدوں کے درجن سے زیادہامیدوار ہونے کے سبب
پی پی کے حمایت گروپ کو حتمی اعلان کرنے میں وقت لگا۔
بلوچستان کو تاریخ میں پہلی بار سینٹ کی چئیرمین شپ ملی بھی تو کس
اندازمیں۔جس طریقے سے یہ عہدہ ملا مسائل کم کرنے کی بجائے بڑھنے کے امکانات
بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ عہدہ اس دھڑے کی وساطت سے ملا ہے جو اس وقت
اسٹیبلشمنٹ کے کان اور زبان بناہواہے۔عمران خاں نے ہمیشہ ایمپائر کی انگلی
کے ذریعے خوابوں کی تعبیر پانے کا اعلان کیا ہے۔جناب زرداری کی پارٹی اس
قدر کمزور پوزیشن میں ہے کہ بلوچستان سے اسے واش آؤٹ کردیا گیا تھا۔پورے
ملک کی طرح بلوچ عوام نے بھی زرداری سیاست کودھتکاردیا تھا۔اب جبکہ پانچ
سال پورے ہونے کو ہیں۔عوام میں پسند نا پسند کے معیار میں بظاہر کوئی بڑی
تبدیلی نہیں آئی۔ملک گیر ہونے والے ضمنی الیکشن کے نئائج اس کا ثبوت ہیں۔ان
پانچ سالوں میں نہ نوازشریف نے کوئی اتنی بری پرفارمنس دی کہ ان کی مقبولیت
کا گراف گرجاتا اور نہ ہی پی پی نے کوئی ایسا کمال دکھایاکہ مقبولیت میں
کچھ اثر آتا۔جس طرح کی مصنوعی قیادت ہمارے حقوق غصب کرنے کے لیے مسلط کی
جاتی رہی ہے۔موجود ہ چئیرمین سینٹ اسی قیادت کے طفیل وارد ہوئے ہیں۔جس طرح
حقیقی قیاد ت کے خلاف ساز باز کرکے بے ایمانوں کو اکٹھا کیا گیا۔اس کے
نتیجے میں قائم ہونے والا سیٹ اپ بھلا کس طور دکھوں کا مداہ کرسکتا ہے۔جس
طرح ساز باز اور بے ایمانی سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اتحاد کوہروایا گیا۔ بلوچ
قوم سے ہاتھ کیا گیاہے۔جو لوگ تبدیلی کے لیے نکلے تھے۔انہیں ناکام کروایا
گیا۔بڑی پلاننگ سے اسی دھڑے کو مسلط کردیا گیا جو ان محرومیوں کا سبب رہا
ہے۔
|