23 مارچ 1940ء کے دن کو ہماری ملی تحریک و تاریخ میں جو
اہمیت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ آج سے 78 سال قبل اس عظیم دن اقبال
پارک (منٹو پارک) لاہور میں قرار داد لاہور منظور ہوئی، جسے قرارداد
پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔اس دن مسلمانوں کے سمندر بے کراں نے ایک آزاد مسلم
وطن حاصل کرنے کا عزم مصمم کیا اور پھر اس کے حصول کے لیے قربانیاں دینے کی
کوئی کسر نہیں چھوڑی اور نہ ہی کوئی دقیقہ فرگزاشت کیا۔ انگریز کی منافقت
اور ہندو کی عداوت کے باوجود عزم و ہمت کے عوض اپنے دیرینہ خواب کو شرمندہ
تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مسلمانوں نے برصغیر پر لگ بھگ ایک ہزار سال
ایسی شاندار حکومت کی، جس کی مثالیں مسلمانوں کے مخالفین بھی دیتے ہیں۔ اس
کے باوجودمسلمانوں کی حکومت کے زوال کے بعد انگریزوں اور ہندووں نے ہمیشہ
مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ اور ناانصافی پر مبنی متعصب رویہ اپنائے رکھا۔ہر
طرح سے مسلمانوں کو تنگ کیا۔ انگریزوں نے تقریباًدو سو سال تک برصغیر کے
باسیوں کو غلام بنائے رکھا۔ برصغیر کے مسلمان انگریزحکمرانوں کی سخت سے سخت
سزاؤں کے زیر اعتاب رہے۔انگریزوں کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و سربریت کاہر
طریقہ آزمایا گیا، لیکن مسلمانوں نے کسی بھی موڑ پر انگریز کی غلامی کو
قبول نہیں کیا۔ مسلسل آزادی کے حصول کی جدوجہد کرتے رہے۔مایوسی کبھی بھی ان
کے قدموں کی زنجیر نہ بن سکی۔ جب انگریزوں نے برصغیر سے سب کچھ لوٹ لیا تو
جاتے جاتے اپنے دیرینہ دشمن مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے شاطر و مکار قوم
ہندؤں کی غلامی میں دینے کا منصوبہ بنایا۔ ہندو چونکہ مسلمانوں کے ساتھ
انتہا درجے کی دشمنی رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو ہندؤں کے
ماتحت رہنا ہوگا۔ جس کے مقابلے میں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد
اقبال سمیت متعدد مسلمان رہنماؤں نے دو قومی نظریہ پیش کیا،جس کے مطابق
مسلمان اور ہندو کسی صورت بھی ایک قوم نہیں ہوسکتے،مسلمان ایک الگ قوم ہے۔
ان کی ہندؤں سے ہرچیز جدا ہے، ان کی ثقافت و معاشرت، کھانا، پینا اور رہنے
کا طریقہ تک مختلف ہے۔ مسلمان اور ہندو سڑک کے دو کناروں کی طرح ہیں جو
کبھی بھی آپس میں نہیں مل سکتے۔
ہندو چونکہ مسلمانوں کو انگریزوں کے بعد ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنانا
چاہتے تھے، اس لیے مسلمانوں کا یوں ہندؤں کی ہر بات کو رد کرنا ان پر بہت
ہی گراں گزرا۔ جس کی پاداش میں انہوں نے مسلمانوں کو بلاوجہ تنگ کرنا شرع
کردیا۔دوسری جانب برصغیر میں ہندو اور دیگر غیر مسلم اقوام، مسلمانوں سے
متاثر ہوکر دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ ہندؤں کو یہ بات برداشت نہ
ہوئی جس کی وجہ سے برصغیر کے ہندو مسلمانوں کے خلاف اور زیادہ بھڑک اٹھے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ میں بھڑکتے ہوئے ہندؤں نے مختلف طریقوں سے
مسلمانوں کو تنگ کرنا شروع کردیا، ہندؤں کو جب کبھی موقع ملا انہوں نے
مسلمانوں کو زک پہنچانے میں کسر نہ چھوڑی۔ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا
کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ مختلف اداور میں ہندؤں کی جانب سے
مسلمانوں کے خلاف مذہبی تحریکیں چلائی گئیں۔ نتیجتاً مسلمانوں کو ایک
علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنا پڑا، کیونکہ مسلمان جان چکے تھے کہ جب تک مسلمان
اپنا الگ ملک حاصل نہ کرلیں، اس وقت تک ہندو انہیں چین سے جینے نہیں دیں
گے۔لہٰذاوہ الگ ملک پاکستان کی آزادی کے لیے کمربستہ ہوگئے۔ مسلمان پاکستان
کی آزادی کے لیے مکمل طور پر پر امید تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے
فرمایا تھا: ’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلے
ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی
حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے
نہ کہ وطن اور نسل۔ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا
فرد نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا،ہندوستان میں ایک نئی قوم
وجود میں آگئی۔‘‘
اسی سلسلے میں 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں لاکھوں انسان پورے برصغیر سے
جمع ہوئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ لاہور میں انسانوں کا سمندر امنڈ آیا ہے۔
اس دن گویا کہ پاکستان کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ 23 مارچ کو لاہور کے
منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ
تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں
مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا
مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے
اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936ء/1937ء میں جو پہلے
عام انتخابات ہوئے تھے، ان میں مسلم لیگ کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی، لیکن جب
نئے ملک کے حصول کی خاطر ٹھاٹھے مارتے انسانوں کے سمندر نے لاہور میں جمع
ہوکر قرارداد پیش کی تواس کے بعد مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور انہوں
نے ایک نئے عزم کے ساتھ اپنا الگ ملک حاصل کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ پورے
برصغیر میں آزادی کی تحریک نئے عزم کے ساتھ شروع ہو گئی۔ انگریزوں، ہندووں
نے تحریک آزادی کو دبانے کی ہرممکن کوشش کی، لیکن پاکستان کے مطالبے سے
مسلمان کسی بھی قیمت پر پیچھے نہ ہٹے، ان کے اذہان وقلوب میں صرف آزادی کا
لفظ گردش کر رہا تھا۔ مسلمان آزادی کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے
اور بالآخر اپنا الگ ملک پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
آج سے 78سال پہلے ہمارے بڑوں نے جس مقصد کے لیے قربانیاں دی تھیں، آج اس
مقصد کو بھلا دیا گیا ہے۔ قیامِ پاکستان کا مقصد صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل
کر لینا ہی نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سوچ، فکر، نظریے اور اصول و قانون کی
ترویج کے لیے ایک فلاحی و مثالی مملکت بنانے کا خواب تھا، جس کو مسلمانانِ
برصغیر نے برسوں اپنی آنکھوں میں سجایا تھا۔ بلاشبہ پاکستان کا قیام نہ صرف
اﷲ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کے لیے ایک نایاب تحفہ تھا، بلکہ تمام عالم
اسلام کے لیے ایک معجزہ بھی تھا۔ یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران
مسلمانوں میں جس نعرے نے جوش وخروش پیدا کیا، وہ یہی تھا : ’’پاکستان کا
مطلب کیا ، لا الہ الا اﷲ‘‘، جو یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان ’’لا الہ الا
اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کا قانون و نظام نافذ کر کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ قیام
پاکستان کا مقصد صرف ایک ریاست کا قیام ہی نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی فلاحی
ریاست کا قیام تھا، جہاں اسلام کے اصولوں کے مطابق معاملات طے کیے جائیں
اور اسلام کو ہی ضابطہ حیات بنایا جائے، اسی مقصد کے لیے لاکھوں لوگوں نے
اپنی جانوں کے نذرانے دیے، لیکن قیام پاکستان کے بعد سب نے مل کر اپنی
جانیں قربان کرنے والوں کے خواب کو پورا نہ کیا اور اسلام کے قوانین کو صرف
کتابوں تک محدود رکھا، عملی طور پر اس کو یہاں نافذ نہیں کیا گیا۔ علامہ
محمد اقبال کہتے ہیں: ’’میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ
مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ
عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑ گئے تھے، ان سے چھٹکارا حاصل کرسکے اور
اپنے قوانین، تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ روح عصر سے ہم
آہنگ کرسکے‘‘ اور اپنے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کی اساس کچھ یوں بیان
کی: ’’ایک سبق جوکہ میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے سیکھاہے کہ اپنی تاریخ کے
اس نازک ترین مواقع پر یہ اسلام ہی ہے جوکہ مسلمانوں کو نجات عطاکرے گا، نہ
کہ اس کے برعکس کچھ اور…لہٰذا آپ اپنی نظر کو اسلام پرمرکوز رکھیں۔‘‘ اسی
طرح علامہ اقبال نے 28مئی1937ء کو ایک خط میں بانی پاکستان محمد علی جناح
کولکھا: ’’اسلامی شریعت کانفاذ اور ترویج مسلمان ریاست یاریاستوں کے قیام
کے بغیرناممکن ہے اور میرا یہ یقین ہے کہ پاکستان کے معاشی اور معاشرتی
مسائل کاحل اسی میں ہے۔‘‘
قائد اعظم محمد علی جناح بھی قیامِ پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی
متعدد مواقع پر قیامِ پاکستان کے مقاصد کو نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ
میں بیان کرتے رہے ہیں۔ قائداعظم نے31 جنوری 1948ء کواسلامیہ کالج پشاور کے
جلسہ میں حصولِ پاکستان کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘ہم نے پاکستان کا
مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی
تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘
25/جنوری 1948ء کو کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا : ’’میں ان لوگوں کی بات
نہیں سمجھ سکتا، جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ
پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام
زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں، جس طرح 13 سو سال پہلے تھے۔ میں
ا یسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہوچکے ہیں، یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا
ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو، بلکہ یہاں غیر مسلمانوں کو بھی کوئی خوف نہیں
ہونا چاہیے۔‘‘ 4/ فروری 1948ء کو سبی میں خطاب کے دوران فرمایا: ‘‘میرا
ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر
ہے، جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمارے لیے
قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور
تصورات پر رکھنی چاہئیں۔‘‘بمبئی میں خطاب کرتے ہوئے کہا:’’ اگر کوئی چیز
اچھی ہے تو عین اسلام ہے۔ اگر کوئی چیز اچھی نہیں ہے تو یہ اسلام نہیں ہے،
کیوں کہ اسلام کا مطلب عین انصاف ہے۔‘‘
78 سال پہلے منٹو پارک میں جمع ہوکر ایک آئیڈل ملک کے حصول کا عہد کرنے
والے بزرگ حضرات اگر آج آکر اس ملک کی حالت دیکھ لیں تو شاید وہ یہ کہنے پر
مجبور ہوجائیں کہ ایسے ملک کو حاصل کرنے سے بہتر تو تھا کہ ہم اسے حاصل ہی
نہ کرتے۔ یقیناً ہم سب نے مل کر ان بزرگوں ، ان کی قربانیوں اور قیام
پاکستان کے وقت اپنی جانوں کی نذرانے دینے والوں کی ناقدری کی ہے،انہوں نے
آج سے 78 سال پہلے 23مارچ کو پاکستان بنانے کا عہد کیا تھا اوراسے پورا
کرکے دکھایا،آج ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی لاج
رکھتے ہوئے اپنی ذات پر اور اس ملک میں اسلامی اصولوں کے نفاذ کا عہد کریں
اور اس عہد کو پورا کردکھائیں۔ اﷲ تعالیٰ میرے ملک کا حامی و ناصرہو۔
|