متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں 23مارچ 1940تاریخ کا
وہ اہم دن تھاجب ہندوستان کے سماج میں تاریخ نے ایسی کروٹ لی جس نے ساری
دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور ہندو تعصب ایسا عود کر سامنے آیا کہ جس
نے ماضی کے تمام تعصبات کو پسِ پشت ڈال دیا تھا۔یہ وہ دن تھا جب مملکتِ خدا
داد پاکستان کی بنیاد کی پہلی اور سب سے مضبوط اینٹ ایک بنگالی مسلمان
رہنما ،مولوی اے کے فضل الحق نے اپنی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد
میں ان الفاظ سے رکھ دی تھی’’اس ملک(ہندوستان) میں کوئی دستوری خاکہ اُس
وقت تک قابلِ قبول نہ ہو گاجب تک کہ وہ مندرجہ ذیل اُصول پر مرتب نہ
کیاجائے،یعنی جغرافیائی اعتبار سے متصلہ علاقے الگ خطے بنا دیئے جائیں۔جہاں
علاقائی ترمیم ضروری سمجھی جائیں کر لی جائیں۔تاکہ ہندوستان کے شمال مغرب
اور شمال مشرق میں ،جن علاقوں کے میں مسلمانوں کو آبادی کے لحاظ سے اکثریت
حاصل ہے انہیں یکجا کر کے ایسی آزاد مملکتیں بنا دی جایئں جن کے اجزائے
ترکیبی مقتدر اور خود مختار ہوں‘‘ قرار دادِپاکستان نے ہندوستان کے
مسلمانوں کے لئے گویا اب ایک منزل کا تعین کر دیا تھا۔اس قرار داد کی تائید
ہندوستان کے ہر مسلمان نے کی۔جن میں چوہدری خلیق الزماں، مولانا عبدالحامد
بدایونی اور بیگم مولانا محمد علی جوہرنے یوپی سے۔عبدالرؤف شاہ نے سی پی
سے۔مولانا ظفر علی خان اور ڈاکٹر محمد عالم نے پنجاب سے ۔قاضی محمد عیسیٰ
نے بلوچستان سے۔ عبداﷲ ہارون نے سندھ سے۔سرداراورنگ زیب خان نے (سرحد)خیبر
پختونخوا سے۔اور آئی آئی چندریگر نے (بمبئی) ممبئی سے بھر پور تائد و حمایت
کا اعلان کر دیا تھا۔ابھی اس قرار داد کو partition of india resolutionکہا
گیا تھا کہ اگلے دن اس قرار داد پرہندو پریس میڈیا نے پورے ہندوستان میں
ایک ہا ہا کار مچادی تھی اور کہا گیا کہ مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کر
دیا ہے۔جبکہ قائد اعظم نے قیام ِپاکستان کا مقصد یہ بتایا تھا کہ ’’ہم نے
پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا۔ہمارا
مقصد ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا تھا جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آاما
سکیں‘‘
مگر پاکستان کے سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے پاکستان کو نہ تو اسلامی اصولون
کو پرکھنے کا موقع دیا اور نہ ہی اسلامی جمہوری نظام کو پنپنے کا موقع دیا۔
آج کا یومِ پاکستان قوم اور جمہوریت کو لہو لہان کر کے اور سازشی ہتھ کنڈوں
پر قوم کو بین کرتے ہوئے بنانے پر مجبور کر دیاگیا ہے۔سازشی عناصر پوری آب
و تاب کے ساتھ جمہوریت اور جمہوریت پسندوں کا قلع قمع کرتے دیکھے جا رہے
ہیں۔جمہوریت کو من مانے انداز میں چلانے کے لئے نت نئے ہتھ کنڈے استعمال
کئے جا رہے ہیں پوری قوم کو ایسے عناصر نے یرغمال بنا رکھا ہے۔
سینٹ الیکشن میں جو کچھ گیم چینجرز نے کیا وہ ساری دنیا نے دیکھا اور ہر
جانب سے اُس پر اظہارِ حیرت اور افسوس بھی کیا جا رہا ہے۔ہم ایسے عناصر سے
دست بستہ گذارش کرتے ہیں کہ خدا کے لئے پاکستان میں جمہوریت کو لڑ کھڑاتے
ہوئے ہی صحیح مگر آگے بڑھنے دو․․․․ یہ پاکستان ربِ کائنات کی عطاء ہے ۔اس
پر روز روز شب کون مارنا بند کردیں اور اس پسماندگی کے جزیرے کی پسماندگی
کو اور نہ بڑھائیں ۔یہ پاکستان ہم سب کی پہچان ہے،اس پہچان کو تار تار کرنے
پر کسی کے بھی کچھ ہاتھ نہ آئے گا مگر ایسے سیاہ چہروں کو تاریخ کبھی معاف
نہیں کرے گی۔جو مخاصمت میں ڈوب کر اپنا اور اپنے حواریوں کا راستہ خود ہی
تنگ کر رہے ہیں ۔طاقت و اقتدار تو اﷲ نے فرعون کوبھی دیا تھا۔ جب ہی تو کسی
نے کیا خوب کہا’’لاکھ دارا و سکندر ہو گئے ،آج بولو وہ سب کہاں کھو گئے؟آئی
ہچکی موت کی اور سوگئے ‘‘ اس بگاڑ کے بڑے چُغادریوں کو بھی اپنے گریبانوں
میں جھانک کر دیکھنا چاہئے۔ ان کے اپنے اداروں میں ابتری کے جوکھیل گذشتہ
ستر سالوں سے چل رہے ہیں،پہلے دیکھنے چاہئیں۔پھر کسی اور ادارے میں گھس کر
اس کی خامیوں کی نشان دہی کرنی چاہئے،جو ان پر واجب بھی نہیں ہے۔ان کے
اداروں میں بھی لوگ اُس سے زیادہ بلبلا ر ہے ہیں ۔سائل سالہا سال سے رُل
رہے ہیں!جتنا کچھ میڈیا پر کسی اور ادارے کی کار کردگی پر لوگوں کو دکھایا
جا رہا ہے،اُس سے زیادہ پریشانی لوگوں کو ان کے اداروں میں ہے۔مگر افسوس اس
بات کا ہے کہ دوسرے کی طرف ایک اُنگلی اٹھانے ولا اپنی طرف اُٹھتی ہوئی چار
انگلیوں کا احساس نہیں کر پا رہا ہے یہ امر بھی ا فسوس ناک ہے کہ اپنی ناک
کے نیچے جو گند پھیلا ہوا ہے وہ تو ادروں کے سربرہان دیکھ کر خاموش
ہیں۔جہاں اُن کا کوئی کام نہیں ہے وہاں کھڑے ہو ہو کر یہ لوگ مسحائی کے
فرایض کی انجام دہی میں لگے ہوئے ہیں۔
23مارچ 1940میں جس طرح کی شیرازہ بندی ہمارے پُرکھوں نے کی تھی آہستہ آہستہ
اُس شیرازہ بندی کا ایک ایک تار ہم اور ہمارے زعومی کھینچ کھینچ کر آدھی
بچی ہوئی چادر کو بھی اُدھیڑ دینے کے درپہ ہیں! یہ سب کچھ قومی خدمت کے نام
پر لوگ کر رہے ہیں۔لگتا یوں ہے کہ لوگوں کے اندر کا تعصب ہماری قوم کا
شیرازہ بکھیرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔عہدے اور اقتدار تو آنی جانی چیز ہیں آج
تمہارے پاس کل کسی اور کے پاس ہونگے!!!مگر ترکش سے نکلا تیر اور گیا وقت
کبھی واپس نہیں آتا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ 2018 کے مارچ کو لوگ کوئیک مارچ میں تبدل کرنے میں
لگے ہوئے ہیں۔کیونکہ اس ملک کے کرتا دھرتا اس وقت جمہوریت کے درپہِ آزار
ہیں! اب ان لوگوں نے ایسے لوگوں کو سیاسی بساط پر مسلط کروانا شروع کر دیا
ہے جن کو سیاست کے حروفِ ابجد کا بھی پتہ نہیں ہے۔وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ
سیاست کے مضبوط کھلاڑی کو چِت کرکے چابی والے رُوبوٹوں کو اس قوم کی تقدیر
پر مسلط کر دینا چاہتے ہیں۔اس کھیل میں سچی سیاست کرنے والے اور اداروں کے
روُبوٹ، دونوں نے شامل ہو کر اپنا مُستقبل خود ہی تباہ کرنے کا راستہ محض
ایک شخص کی مخاصمت میں اختیار کرلیاہے۔ایسے سیاسی دھڑوں کو وقتی فائدے سے
زیادہ اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ سب کچھ لُٹ جانے
کے بعد ہوش آئے تو میدان سپاٹ ملے․․․․
|