صابرعدنانی
مٹھی سے تقریباً40 کلومیٹر دور واقع اسلام کوٹ میں ایک عالم سے ملاقات ہوئی۔
اس چھوٹے سے شہر میں ایک بڑا آدمی موجود ہے، جو علم وادب کی محبت میں سرشار
کتاب دوستوں سے وہ ایسے ہی دوستی کرتا ہے جیسے اُسے کتاب سے ہے۔اشرف علی
سموں علم وادب سے تعلق کی بنیاد پر غالباً مٹھی اور اسلام کوٹ کے معروف
لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہرکتاب دوست اُن کا دوست ہے، چاہے وہ کسی بھی
زبان، علاقے، مذہب یا ذات سے تعلق رکھتا ہو۔ایک چھوٹے سے غیرمعروف شہر میں
رہتے ہوئے بھی تقریباً ساڑھے تین ہزار کتابوں کا خزینہ جمع کرلیا ہے۔ بقول
افتخار عارف:
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
راقم کو بھی اس مردِ قلندر سے مل کر انتہائی خوشی ہوئی کہ جس نے نہ صرف
کتابیں جمع کیں بلکہ خود بھی عملی طور پر تھر میں رہتے ہوئے علم وآگہی کے
لیے لوگوں سے رابطے اور تحریک پیدا کی۔ ایک استاد ہونے کی وجہ سے یہ فرض تو
خیر بنتا ہی ہے مگر جس جذبے اور خلوص سے اشرف سموں اس اثاثے کو سنبھالے
ہوئے ہیں یقینا یہ قابل ستائش بات ہے۔ اشرف علی سموں کی مخدوم بلاول
لائبریری میں کچھ کتب تو ایسی نادر ہیں جو غالباّ کراچی کی بڑی لائبریریوں
میں بھی موجود نہیں۔
اشرف علی سموں نے تھر پر ایک تشریحی ببلو گرافی ترتیب دی ہے، جس کی ناشر
مخدوم بلاول لائبریری، اسلام کوٹ ہے۔ یہ ببلوگرافی2004 ءمیں شائع ہوئی۔ اسی
طرح دل گداز کے مدیر اور تاریخی ناول نگارعبدالحلیم شرر کی کتاب ”تاریخ
سندھ“ کا سندھی میں ترجمہ بھی اشرف سموں ہی کی کاوش کا نتیجہ ہے ، یہ کتاب
مہران اکیڈمی ، شکارپور سے شائع ہوئی۔ اس کا پہلا ایڈیشن 2006ء میں چھپا ،
اب تک اس کے چار ایڈیشن آچکے ہیں۔ ڈاکٹرذاکر نائیک کی کتاب ”اسلام میں
عورتوں کے حقوق“ اس کا بھی سندھی ترجمہ کیا جو 2009 ءمیں شائع ہوئی۔ اشرف
سموں کی زیرطبع کتب میں ”ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر“ سندھی ترجمہ، تھر کے گوٹھ
کی تاریخ (جلداول) مکمل ہوچکی ہے اور مزیدجلدوں پر کام جاری ہے۔ یہ بھی
سندھی میں ترجمہ ہے۔”روزنامہ کاوش“ کے لیے کبھی کبھی ہائیڈپارک کے عنوان سے
عالمی ادبی اداروں اور سماجی مسائل پر بھی لکھتے ہیں۔
مخدوم بلاول لائبریری میں جن موضوعات پر کتب ہیں اُن میں آپ بیتی، شخصیات
اور خاکے تقریباً ایک ہزار کے قریب ہیں۔ سندھی میں بھی آپ بیتی اور شخصیات
پر ڈھائی سو کے قریب کتب ہیں۔ اسی طرح سندھ کی تاریخ پر تین سو کتب، مولانا
ابوالکلام آزاد پر قریباً سو کے قریب کتابیں ہیں۔ فارسی کلاسیکل شاعری کا
ذخیرہ بھی موجود ہے۔ اسی طرح اردو، سندھی، عربی،فارسی، انگریزی لغات جن کی
تعداد تقریباً سو کے قریب ہے اس لائبریری کی زینت ہیں۔اردو، سندھی افسانے،
ناول وغیرہ کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔
سندھ یونی ورسٹی شعبہ اردو کا شمارہ ”تحقیق“ کی مکمل فائل موجود ہے۔ اسی
طرح سندھی شعبہ سے شائع ہونے والے رسالے ”کھینجر“ کی مکمل فائل بھی اس
لائبربری میں ہے۔ اکادمی ادبیاتِ پاکستان سے نکلنے والا رسالہ ”ادبیات“ کا
پاکستانی ادب حصہ نثر1992 ءسے اب تک شائع ہونے والے تمام شمارے موجود ہیں۔
سندھی ادبی بورڈ کا سہ ماہی رسالہ ”مہران“1955 ءسے 2017 ءتک کی مکمل فائل
موجود ہے۔ رسالہ ”نئی زندگی“ کے شماروں کی بیس سال کی فائل موجود ہے۔
”پیغام“ جو کہ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ نکالتا ہے اس کی بھی تقریباً دس سال کی
فائلیں موجود ہے۔ نقوش کے خاص نمبر بھی وافرمقدار میں موجود ہیں۔
اشرف علی سموں نے مشہور اسکالر ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کی مطبوعات اور اُن پر
شائع رسائل کے خاص نمبر کا مکمل ذخیرہ اپنے پاس محفوظ کرلیا ہے۔ لطیفیات کا
بھی بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔پیرحسام الدین راشدی کی تمام کتب اس لائبریری
میں ہیں۔ مشفق خواجہ پر لکھی جانے والی اور مشفق خواجہ کی کتب بھی اس
لائبریری کا حصہ ہیں۔ رشید حسن خان بھی ان کا پسندیدہ موضوع ہے اس لیے ان
پر بھی کئی کتب موجود ہیں۔
اشرف سموں کے پاس شخصیات یعنی اقبال، غالب، شبلی نعمانی پر بڑی تعداد میں
کتب موجود ہیں، اسی طرح بعض اداروں کی کتب بھی جن کی تعداد تقریباً ڈھائی
سو کے قریب ہیں بھی موجود ہیں جن میں انجمن ترقی اردو ہندو پاک،
دارالمصنفین علی گڑھ، خدابخش لائبریری پٹنہ، غالب لائبریری، کراچی وغیرہ
شامل ہیں۔
اشرف سموں دوزبانوں کے ادب کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سندھی
ادب، اردو قارئین کے لیے اور اردو ادب، سندھی قارئین کے مطالعے کے لیے پیش
کرے تو دونوں زبانوں کے قارئین ادب کے نئے گوشوں اور ادیبوں سے واقف ہوسکیں
گے۔ اسی طرح سندھی کے قدیم ادب کو جب وہ اردد ادب کے قالب میں ڈھالے گا تو
نئے قاری پیدا ہوجائیں گے، اسی طرح اردو ادب کو بھی نئے قاری میسر آسکیں
گے۔
اشرف سموں کوکتابیں اور رسائل پڑھنے کا اتنا شوقین ہے کہ وہ اپنی تنخواہ سے
ایک قطیر رقم کتابوں کی خریداری کے لیے مختص کرتا ہے۔ ملنسار ہے، سچا ہے
اور سب سے بڑھ کر دوستوں پر نچھاور ہونے والا۔یقینا وہ ایک مخلص اور کتاب
شناس دوست ہے، اور اپنی اس دوستی میں سب کو رنگنے اور کتاب سے دوستی کرنے
کی ترغیب دیتا ہے۔مگر یہ کہنا غلط ناہوگا کہ اشرف سموں کی تھر میں اس
لائبریری کی خوبصورتی ایسی ہے جیسے کہ تھر کی بارش میں پنکھ پھیلائے
خوبصورت مور۔ |