انسان کسی چیز کے حصول کے لیے سب پہلے اس خیال دل و
دماغ میں لاتا اس تصور کرتا ہے اسے اپنے خوبوں اور خیالوں میں بنا ہوا
دیکھتا کہ جس چیز کا تصور وہ کر رہا ہے وہ چیز کیسی اس میں اسے کیا کیا
چاہیے وہ دیکھنے مجھے اور باقی لوگوں کو کیسی لگنی چاہیے ایک آئیڈیا اور اس
چیز کا مکمل عکس ذہین میں رکھتے ہوئے آگے کی سوچتا ہے کہ اسے حاصل کیسے اس
کے لیے کیا کچھ کرنا ہے کیسے کرنا اور کتنی محنت کرنی ہے بعض اوقات اس کے
حصول میں ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘کہ انسان نے اس کے بارے میں
سوچا بھی نہیں ہوتا پر وہ اپنی خالص محنت لگن اور عزم کی بنا پر اس خواب کو
اس تصور کو حقیقت میں بدل دیتا ہے۔ اور اس کا خواب اور تصور جب حقیقت کا
روپ دہار لیتا تو وہ اس دن میں رہیں نہ رہیں لیکن ان کی محنت کے ثمرات آنے
والی نسلوں کے لیے راحت اور سکون کا باعث بنتی ہیں، آج کے جدید دور میں
جہاں ساری سہولیات میسر ہوں ٹیکنالوجی جہان انسان کے لیے آسانیاں پیدا کر
رہی ہو ، میڈیا اور سوشل میڈیا انٹرنیٹ کے ذریعہ آپ کا پیغام ایک کلک سے
ہزاروں لاکھوں لوگوں تک چند سکینڈ میں پہنچ جاتا ہو تو آپ کو اپنی بات
منوانے اور پورا کرنے کے لیے کسی قسم لمبی چوڑی پلائنگ کی ضرورت نہیں ہوتی
، لیکن آپ تصور کریں آج سے لگ بھگ 90 سال قبل کسی نے تصور کیا ہو کہ اس کی
قوم کو ایک آزاد اور خود مختیار ریاست مل جائے جس میں وہ آزادی سے زندگی
بسر کر سکیں ، ہر طرح سے انہیں مذہبی آزادی حاصل ہو ، لیکن دوسری طرف ایسا
علاقہ جو غلامی کی زنجیروں جکڑا ہوا ہو جہاں آزادی کے بارے بولنا تو درکنا
سوچنا بھی جرم ہو ، تو تصور کریں کہ 70 سال پہلے آزاد ہونے والا ہمارا
پیارا پاکستان جس کے حصول کے لیے ہمارے ان بزرگوں نے کتنی قربانیاں دی ہوں
گی کتنے ظلم اور جبر کو سہا ہو گا جہاں عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے ان
کے پاس کسی قسم کا میڈیا نہ تھا سوائے چند اخبارات کے جنہیں اکثر پابندیوں
کا سامنا کرنا پڑتا تھا ملکان کو کوڑے مار جاتے پرنٹنگ پریس کو آگ لگا دی
جاتی تھی لیکن اس کے باوجود آزادی کے متوالوں کے حوصلے بلند تھے اور آزادی
کا پیغام بچے بچے تک پہنچ رہا تھا -
پاکستان کی نظریاتی اساس ریاست مدینہ کے اعلٰی تصورات پر رکھی گئی جن میں
حاکمیت اعلیٰ کا مالک رب ذوالجلال ہے اور اس کے بندے اس کے خلیفہ کی حیثیت
سے اس کی طے شدہ حدود میں اقتدار کرنے کے مجاز ہیں۔ ہندوستان میں ہندوؤں کی
غالب اکثریت جب مسلمانوں کا دینی اور تہذیبی تشخص مٹانے اور ان کے سیاسی
اور معاشی وجود ختم کرنے کے درپے ہوگئی، اس دور میں مسلمانوں کے حالات بڑے
ناخوشگوار تھے اور حد درجہ تشویش ناک تھے، ہندوستان میں وہ نظام جاری تھا
جس میں مختلف قوموں کے لیے اپنے نظریات کے مطابق آزادنہ زندگی گزارنے کی
گنجائش نہ تھی برصغیر میں میں مسلمان ہر لحاظ سے جدگانہ قوم تھی ۔ ان حالات
کے پیش نظر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے آزاد مملکت کا تصور پیش کیا 1930 میں
آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس جو الہ آباد میں ہوا، اسی موقعہ پر حطبہ صدارت
میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے پہلی مرتبہ آزاد اسلامی ریاست کی صدا بلند
کی اور مسلمانوں کے سامنے ایک نصب العین پیش کیا جسے پورا کرلینے پر ان کے
مستقبل کی کامیابی موقوف تھی یقیناً اسی خطبے کو پاکستان کی بنیاد کی وہ
پہلی اینٹ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جس پر آج بلند پاکستان کھڑا ہے، خطبہ
آلہ آباد میں پیش ہونے والے تصور کے لیے مسلم رہنماؤں نے اپنی جستجو جاری
رکھی جس کے لیے ان رہنماؤں آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر بالاآخر دس
سال بعد وہ دن آ گیا جب قرار داد پاکستان پیش کی گئی-
21 مارچ 1940 کا قائد اعظم محمد علی جناح فرنٹیئر میل کے ذریعے لاہور ریلوے
سٹیشن پر پہنچے جہاں لوگوں کا جم غفیر آپ کے شاندار استقبال کیلئے موجود
تھا اور تاریخ بتاتی ہے کہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی،
مسلمانوں کا جوش و خروش قابل دید تھا اور لاہور فضاء فلک شگاف نعروں سے
گونج رہے تھی۔ اور تصور کر کہ جب آج کے دور کا میڈیا اس وقت نہ تھا آج تو
جلسہ گاہ بھرنے کے لیے ہر طرح کے وسائل خرچ کیے جاتے ہیں دہاڑی پر بندے
کرسیوں پر سجائے جاتے ہیں اور دیگیں چڑہائی جاتی ہیں تب جلسوں میں نہ
بریانی ملتی تھی نہ کسی ڈی جے کے میوزک پر جسم تھلکتے تھے۔ بس اس وقت لوگ
بھی خالص تھے جذبے بھی خالص تھے اور نیت بھی صاف تھی -
جب 23 مارچ 1940 ء کو قائد اعظم کی زیر صدارت منظور کی گئی قرارداد پاکستان
نے تحریک پاکستان میں نئی روح پھونک دی تھی جس سے برصغیر کے مسلمانوں میں
ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آل انڈیا مسلم
لیگ کی طرف سے پیش کی گئی قرار داد کو اس وقت ’’قرار داد لاہور’’ کا نام
دیا گیا تھا جس کو دشمنان اسلام و پاکستان نے طنزیہ طور پر ’’قرار داد
پاکستان’’ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا اسی دن سے قرار داد لاہور ،
قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہو گئی،اور مسلمانوں نے اس نئے نام یعنی
’’قرار داد پاکستان‘‘ کو بخوشی قبول کر لیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے
ہندوؤں اور مسلمانوں کے جداگانہ قومیتی وجود کو حقیقی فطرت قرار دیتے ہوئے
اس موقعہ پر اپنی تقریر میں فرمایا ’’ہندوؤں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ
اسلام اور ہندوازم مذہب کے عام مفہوم ہی نہیں بلکہ واقعی دو جداگانہ اور
مختلف اجتماعی نظام ہیں اور یہ محض خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک
مشترکہ قوم بن سکیں گے‘‘
قرار داد پاکستان پیش ہونے کے ٹھیک سات بعد دنیا کے نقشے پر وہ ریاست قائم
ہوئی جس کا خواب دیکھا گیا تھا آج ملک کو آزاد ہوئے ستر سال سے زیادہ عرصہ
بیت چکا ہے آج ہم دنیا کی پہلی اٹیمی ریاست ہیں ہماری فوج دنیا کی بہترین
فوج ہے اور ہماری قوم پوری دنیا میں خوش رہنے والی قوموں میں شمار ہوتی ہے
حالات کی سنگینوں کے باوجود ہم وہ قوم ہیں جس نے دوسروں کی جنگ میں 70 ہزار
شہری اپنے شہید کروائے 80 ارب ڈالر کا نقصان اپنا کروایا جس کی بیس کروڑ
آبادی میں 2 کروڑ بچے سکول نہیں جاتے دن بدن خطے عربت سے قوم کے لوگ نیچے
جارہے ہیں کرپٹ تین ارب ڈالر کا سرمایہ کرپشن کی بوتل میں بند کر کے باہر
لے گئے ہیں یہ کرپٹ لوگ ملک میں نہ تو اپنی جائیدایں رکھتے ہیں اور نہ ہی
اولاد لیکن حکومت کرنے کے لیے انہیں ملک کی یاد آجاتی ہے انہیں لوگوں کی
نااہلی اور اقتدار کے لالچ نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا۔
آج ہم جن مشکلات اور مسائل کا شکار ہیں صرف اور صرف نااہل قیادت کی وجہ سے
ہیں ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والے ملک زیادہ ترقی کر گئے قوم کے جذبے
بلند ہیں اس لیے تو ہم خوش رہنے والی قوموں میں شمار ہوتی ہیں جبکہ قائدے
اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیڈر شپ کا جو خلا پیدا ہوا وہ تاحال پر
نہ سکا، اگر آج کی سیاسی قیادت صرف اپنی ذات سے بارے میں اور اپنے مفاد کے
بارے سوچنا چھوڑ دیں تو پاکستان دنیا میں تیزی سے ترقی کرتا ملک بن سکتا ہے
ہمیں قائداغظم کے بنائے ہوئے پاکستان کو آگے لے کر چلنا ہے نہ کہ نیا
پاکستان بنانا ہے
|