برما جنوب مشرقی ایشیاء میں واقع ہے اسکا رقبہ اڑھائی
لاکھ مربع میل ہے اسکا دارالحکومت رنگون ہے ایک اندازے کے مطابق آبادی
7کروڑہے جس میں اکثریت کا تعلق بدھ مت مذہب ہے کل 14 صوبے ہیں1996میں برما
کا سرکاری نام میانمار رکھ دیا گیا تھین سین ایک فوجی جرنیل ہے جس نے طویل
عرصے سے ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے آمرانہ تسلط قائم کیاہوا ہے فوجیوں کی
لوٹ مار اور بیڈگورنس نے ملک کو اقتصادی لحاظ سے تباہ برباد کردیاہے اس وقت
اسکاشمار دنیاکے غریب ترین ممالک میں ہوتاہے کسی زمانے میں اسکاشمار دنیاکے
چاول برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل تھا لیکن بدعنوانی نے تجارت کو
بری طرح متاثرکر دیا۔ برما کی GDPشرح اس وقت دنیا میں کم ترین سطع پر ہے
اراکان برما کاایک بڑا صوبہ ہے۔ جہاں مسلمان اکثریت میں بستے ہیں کسی زمانے
میں اراکان مکمل طور پر آزاد اسلامی ریاست تھی لیکن 1786میں برما کے راجہ
نے اراکان پرحملہ کرکے اس پر مکمل قبضہ کرلیا اور برماکے ساتھ شامل
کرلیا1886سے1948تک برما میں برٹش راج رہاتھا۔صوبہ اراکان بنگلہ دیش کے
ساحلی شہر کے چاٹگام سے متصل ہے1948میں آزادی کے وقت مسلمانوں نے خواہش کا
اظہار کیا تھا کے انہیں مشرقی پاکستان کاحصہ بنادیا جائے لیکن انگریز
حکمران اور بدھ مت آڑے آئے لہذا ایسانہ ہو سکا۔2010کے اواخرمیں فوجی ڈکٹیٹر
نے شدید بیرونی دباؤ سے مجبور ہوکر ملک میں انتخابات کرائے ان انتخابات میں
ایک خاتون آنگ سانگ سوچی اپوزیش لیڈر کامیاب ہوئی ان محترمہ کارویہ برمی
مسلمانوں کے حوالے سے قدر نرم ہے -
لیکن اکثر مسلمان لیڈروں کی رائے ہے کی انکا رویہ صرف اور سیاست صرف بیانات
کی حد تک ہے عملی طور پر وہ مسلمانوں کے لئے کچھ کرنے کوتیار نہیں سوچی کے
والد نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور انہیں مسلمانوں کی مکمل
حمایت حاصل تھی ان انتخابات میں14مسلمان بھی اسمبلی کے رکن بنے آ ج برما
میں مسلمانوں جو ستم ڈھایا جارہاہے اسکی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔میانمار
میں مسلمانوں کے قتل عام کی اندو ہنا ک خبریں منظرِعام پر آتی ہیں اب
اقوامتحدہ کے ایک سینئر اہلکار نے بھی تصدیق کردی ہے میانمار اپنی سر زمین
سے مسلمانوں کی نسل ہی ختم کرناچاہتاہے۔
برطانوی ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین کے
سربراہ جان مک کسک کا کہنا تھاکے میانمار کی رخائن ریاست میں مسلح افواج
روہنگیاکے افراد کا قتل عام کررہی ہے جس کے باعث علاقے مسلمان ہمسایہ ملک
بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں دوسری طرف برماکی حکومت
اپنی وحشیانہ کرتوت کی تردید کرتی چلی آرہی ہے اور اس ضمن میں ایسے مضحکہ
خیز بیانات جاری کررہی ہے کہ جن پر یقین کرنا ہی ناممکن ہے برمی حکومت کا
کہناہے کے رخائن ریاست میں مسلمان اپنے گھروں کو خود ہی آگ لگارہے ہیں اس
علاقے میں مسلم خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کی رپوٹ بھی سامنے
آتی رہتی ہیں اس حوالے سے بھی برمی حکومت کا کہناہے کہ یہ خواتین خود اپنے
ساتھ زیادتی کرواتی ہیں تاکہ فوج پر الزام عائد کرسکیں یہاں یہ امر قابل
زِکر ہے کے برمی حکومت کی طرف سے ریاست رخائن میں غیر ملکی صحافیوں اور
امدادی کارکنوں کو داخلے کی اجازت نہیں۔
بی بی سی رپوٹ کے مطابق بنگلہ دیش نے بھی روہنگیاکے مسلمانوں کو اپنے ملک
میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی
کے ہزاروں ک تعداد میں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد پر جمع ہورہے ہیں
رپوٹ کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں اپنے ملک میں داخل ہونے والے برمی
مسلمانوں کو پکڑ کر واپس بھیج رہے ہیں جان مک کسک کا کہنا اس مسئلے کے حل
کے لئیے دنیا کو میانمار کی صورت حال پر توجہ دینی ہو گی برمی فوج اور
بارڈر گارڈ پولیس نے9اکتوبر کوبارڈر گارڈکی ہلاکت کے بعدروہنگیا میں
مسلمانوں کا بڑی بے دردی سے قتل عام کررہی ہے برمی سیکورٹی فورسز مردوں کو
گولیا ں مار کر قتل کرنے۔ بچوں کو ذبح کرنے، خواتین کو اجتماعی زیادتی
کانشانہ بنانے اور انکے گھروں کو جلانے اور لوٹنے جیسے اقدامات کرکے انہیں
اپنے ہی ملک سے نکل جانے کے لیے مجبور کررہی ہے وہاں کے حالات معلوم کرکے
ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کے یقینادنیا کے کسی حصے میں بھی اقلیت کے ساتھ
ظلم تشدد نہیں ہورہا جو آج برمی مسلمانوں کے ساتھ ہورہاہے برما کے مسلمانوں
کے ایک صوبے یا دوسری شہر میں جانے میں بڑی دشواریاں پیش آتی ہیں مسلمانوں
کے لئے تعلیم کے درازے بند ہیں انہیں سرکاری ملازمت ملنے کے امکانات بھی
بہت کم ہیں یہاں تک کے مسلمانوں کو شادی کرنے کے لئے بھی جان جوکھوں کا کام
ہے سرکار سے اسکی اجازت لیناپڑتی ہے خواہش مند جوڑوں کو شادی کے لئے سرکاری
اہلکاروں کے سامنے پیش ہونا پڑتاہے اور ان درندہ صفت سرکاری اہلکاروں کے
ہاتھوں اپنی عزت بھی گنوابیٹھتی ہیں۔ ملک میں کئی بار مسلم کش فسادات ہوچکے
ہیں لیکن بین ا لااقومی برادری نے کبھی نوٹس نہیں لیا موجودہ ظلم تشدد کی
لہر نوعیت کے بدترین مسلم کش فسادات تادم تحریر جاری ہے لیکن انسانی حقوق
کے علمبرداروں کے کانوں جوں تک نہیں رینگ رہی عالمی میڈیا اس وقت کے حوالے
سے مکمل گونگی بہری ہوچکی ہے عالمی اداروں غیر ملکی میڈیا کاکیا گلہ کریں
مسلم ممالک کے حکمرانوں اور میڈیا کو بھی سانپ سونگھاہے بلکہ یہ کہنازیادہ
مناسب ہے کے انسانی حقوق کے علمبردار عالمی ہجڑوں اور مسلم خواجہ سرہ
حکمران مکمل طور پر تماشاہی بنے ہوئے ہیں۔
بچوں کو زبح کیا جارہاہے عورتوں کی عصت دری کی جارہی ہے لیکن دنیا مکافات
عمل ہے آج جو ظلم کے خلاف خاموش ہیں اور جو ظلم کی انتہاکو پہنچ رہے ہیں کل
انکی بھی پکڑ ہونی ہے۔ |