میں ایک بار پھر اپنے محترم قارئین کا تہہ دل سے مشکور
ہوں جو اندرون پاکستان اور بیرون پاکستان میرے کالم کو پسند کرتے ہیں اور
مجھے پیغامات بھیجتے ہیں۔ چکوال کا نام دُنیا بھر میں لیا جاتا ہے۔ چکوال
کی پہچان پاک فوج سے ہے، یہاں کے لوگ پاک فوج میں جانا پسند کرتے ہیں۔ اپنے
وطن کی خاطر جام شہادت نوش کر کے اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ چکوال کی مونگ
پھلی اور ریوڑی پوری دُنیا میں مشہور ہے۔ لاکھوں چکوالئے بیرون پاکستان
موجود ہیں اور پاکستان کے لئے کروڑوں کا زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں لیکن چکوال
کی بدبختی یہ ہے کہ چکوال کو کوئی اچھا سیاسی وارث نہ مل سکا جس کی وجہ سے
چکوال کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ چکوال کی 15 سے 20 لاکھ عوام کی
قسمت کا فیصلہ چند سیاسی گھرانے کرتے ہیں۔ چہرے وہی ہوتے ہیں بس پارٹیاں
اور جھنڈے بدل جاتے ہیں اور ہماری عوام کے بھی کیا کہنے ہیں کہ جو ان کو
ووٹ بھی برادری ازم، تھانے کچہری کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ اس وقت جس طرح کی
جمہوریت چل رہی ہے اس میں عام آدمی کے لئے ایم این اے اور ایم پی اے بننا
کسی بڑے خواب سے کم نہیں۔ ذرا ملاحظہ کریں کہ چکوال کی عوام کی قسمت کا
فیصلہ کن کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اور کیا ان کو ایک عام آدمی کے مسائل
کا اندازہ بھی ہے۔ ایم پی اے چوہدری سلطان حیدرعلی خان ، ایم این اے میجر
طاہر اقبال، ایم این اے سردار ممتاز ٹمن، ایم پی اے سردار ذوالفقار دُلہہ،
معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب ملک سلیم اقبال، سابق ضلع ناظم چکوال سردار
غلام عباس، صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم، پی ٹی آئی کے رہنما راجہ یاسر
سرفراز، پی پی کے رہنما شاہ جہان سرفراز راجہ اور پی ٹی آئی کے رہنما
چوہدری علی ناصر بھٹی وغیرہ وغیرہ، انہی لوگوں میں سے آپ کے ایم این اے،
ایم پی اے منتخب ہوں گے۔ ان میں سے کسی ایک کا نام بتا دیں جس کا تعلق عوام
سے ہو، لیکن یہ پھر بھی خود کو جمہوریت کے چیمپئین سمجھتے ہیں۔ مجھے چند دن
پہلے چکوال کی دو بیٹیوں کی فون کال آئی، وہ کہتی ہیں کہ سر آپ چکوال
یونیورسٹی پر کیوں نہیں لکھتے، ہم یہاں ہاسٹل میں رہتے ہیں، ہمارے والدین
اتنے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، ہم یہاں نوکری بھی ڈھونڈ رہے ہیں اور
ساتھ پڑھائی بھی کریں گے۔ کاش چکوال میں بھی یونیورسٹی بن جاتی تو ان
بیٹیوں کو اتنی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتیں بھی
اُس شخص کو پارٹی ٹکٹ دیتی ہیں جو زیادہ پارٹی فنڈ دیتا ہے۔ وہ یہ نہیں
دیکھتے کہ کیا یہ ٹکٹ کے قابل ہے یا نہیں ہے۔ بار بار منتخب ہوتے ہیں مگر
عوام کے لئے کچھ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اب اس جمہوری حکومت کو بھی 5
سال مکمل ہونے والے ہیں ابھی تک کوئی ایک بھی میگا پراجیکٹ نہ دے سکے ہیں
لیکن انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ ایم این اے، ایم پی اے ہاؤس پر عوام کا رش
بھرپور ہے۔ اس رش سے کیا اندازہ لگایا جائے؟ کہ عوام ان سے خوش ہیں اور
آمدہ الیکشن 2018ء میں پھر انہی کو منتخب کریں گے، اب قومی خزانے کے منہ
کھل جائیں گے، تمام انتخابی وعدے پورے ہو جائیں گے، فخریہ انداز میں عوام
کے پاس جا کر ووٹ مانگیں گے اور عوام پھر ان کو منتخب کر لیں گے۔ میرے خیال
میں ہماری عوام کو بھی اچھے اور بُرے کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ ہم لوگ اپنی
اپنی ذات تک محدود ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی ایم این اے، ایم پی اے ہمیں فون
کال کرے تو ہم پھولے نہیں سماتے ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ ان کو عوام منتخب
کرتے ہیں، ان کو عوام کے لئے دن رات کام کرنا چاہئے مگر چکوال میں جو بھی
آیا اُس نے بس اپنی ذات کا سوچا، عوام کا کسی نے نہ سوچا۔ کروڑوں کی ریلوے
اراضی پر قبضہ مافیا قبضہ کر چکا ہے لیکن ہمارے سینیٹر جنرل (ر) عبد القیوم
ملک نے ایک خط وزیراعظم کو لکھ کر جیسے اپنا حق ادا کر دیا ہو، اس کے بعد
کچھ نہ ہوا۔ کوئی ایک منصوبہ بتا دیں جو مکمل ہوا ہو۔ اب ڈیڑھ سال میں کیا
ہونے لگا ہے؟ لیکن آپ دیکھ لینا کہ کوئی کام ہو یا نہ ہو یہ عوام پھر ڈھول
کی تھاپ پر ناچ رہے ہوں گے۔ ان کے گلے میں ہار ڈال رہے ہوں گے۔ ریلیاں
نکالیں گے، آخر کب چکوال کی عوام کو کوئی خالص عوامی، سیاسی وارث ملے گا۔
آخر کب چکوال کے مسائل کوئی حل کرنے آئے گا؟ میرے ذہن میں اتنے اچھے اچھے
خیالات آتے ہیں کہ مقامی سیاسی قائدین کو یہ آئیڈیا بھی دوں گا کہ چکوال
میں ایسا ہونا چاہئے مگر پھر جب دیکھتا ہوں کہ جب پہلے ہی کوئی کام مکمل
نہیں ہوا، مزید کیا لکھا جائے۔ میرے خیال میں چکوال کی عوام کے ساتھ جو کچھ
ہو رہا ہے یہ سب ٹھیک ہے۔ جب عوام کو یہی پتہ نہ ہو کہ حق کیا ہوتا ہے، جب
ووٹر کو اپنے ووٹ کی طاقت کا ہی اندازہ نہ ہو تو پھر ایسے ہی ہونا چاہئے۔
جیسی عوام ہو گی ایسے ہی حکمران ہوں گے۔ عوام کو جب اپنے حقوق لینے آجائیں
گے اور یہ پتہ چل جائے گا کہ منتخب نمائندے اُن کے ووٹ کی وجہ سے منتخب
ہوتے ہیں اور یہ منتخب نمائندے صرف اور صرف عوام کے حقوق کے لئے ایوان میں
جاتے ہیں تو پھر تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی لیکن انتہائی افسوس سے کہنا
پڑتا ہے کہ اس وقت تین بڑی جمہوری جماعتیں عوام کے لئے کچھ نہ کر سکے۔
پاکستان کی عوام گذشتہ کئی سالوں سے دو جماعتوں کی باریوں کی منتظر تھی
یعنی پی ایم ایل (ن) اور پیپلز پارٹی۔ گذشتہ انتخابات میں تحریک انصاف
تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی مگر پھر کیا ہوا، تینوں جماعتوں نے عوام
کو سخت مایوس کیا۔ اب عوام کدھر جائیں، پاکستان کے اندر ایک بڑی تعداد
تینوں بڑی جماعتوں سے مایوس نظر آتی ہے۔ آخر عوام کے لئے کب سوچا جائے گا؟
دُنیا کے اندر کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو ممالک دو عشروں میں ترقی پذیر
سے ترقی یافتہ بن گئے۔ چین ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا، آج وہ پاکستان میں
بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ملائیشیا، کوریا ترقی یافتہ بن چکے۔ آخر
پاکستان میں یہ تبدیلیاں کب رونما ہوں گی۔ تمام تر ذمہ داری عوام پر عائد
ہوتی ہے۔ اگر عوام اپنے ووٹ کا بہتر استعمال کریں گے تو یقینا تبدیلی رونما
ہو گی۔ اس وقت پاکستان کو شدید ترین ضرورت ہے ایسی قیادت کی کہ وہ پاکستان
کے مسائل کو سمجھ سکیں تو پھر یقینی طور پر پاکستان میں بھی بہتر تبدیلی
دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے اندر
کیا تبدیلی آتی ہے یا پھر پاکستانی عوام کو نئے خواب دکھانے کے لئے مزید
گہری نیند میں سونے کا کہہ دیا جاتا ہے۔ جب تک پاکستان میں امن نہیں ہو
جاتا بیرون ملک سے بڑے سرمایہ کار پاکستان کا رُخ نہیں کریں گے۔ چین،
پاکستان پر بہت زیادہ اعتماد کرتا ہے اور یقینی طور پر سی پیک مکمل ہونا
پاکستان کی کامیابی تصور کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کو دیگر ممالک سے
سرمایہ کار درکار ہوں گے اور پاکستانی عوام کو تبھی اُمید کی کوئی کرن نظر
آئے گی۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭
|