قیامت سے پہلے قیامت کا منظر اگر کوئی دیکھنا چاہے تو شام
میں جاری آگ اور خون کی ہولی کو دیکھ لے ۔شام وہ ملک جوجہاں 15 مارچ 2011
کو اس ہولناک کھیل کا آغاز ہوا۔اور اب سات سال مکمل ہونے کے باوجود نام
نہاد جمہوریت کے دیوتاؤ کو لاشوں کا انبار کا لگانے سے سکون نہیں ملا ۔۔شام
میں برپا قیامت نے اب تک پانچ لاکھ شامیوں کی جانیں لی ہیں جبکہ ایک کروڑ
تیس لاکھ لوگ کسمپرسی کی حالت میں ہیں جنہیں انسانی مدد کی اشد ضرروت ہے۔یہ
وہی پندرہ مارچ دوہزار گیار ہے جب شام میں جمہوری اصلاحات لانے کے لیے شامی
شہریوں نے دمشق اور حلب اور دیگر بڑے شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کا
انعقاد کیا۔شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا ردِعمل ان مظاہرین کے خلاف ایک
کڑا آپریشن کرنا تھا۔ اسی دوران ملک میں جہادی ملیشیاؤں نے بھی فروغ پایا
اور حکومتی ردعمل سخت تر ہوتا گیا۔
احتجاج ،دہائیاں ،آنسو ،خون ،مذمت ،بیانا ت اور لاشوں کی سیاست کب تک اور
کہاں تک؟ خطے میں موجود مختلف ممالک امریکہ اور روس سب نے اس جنگ میں اپنے
مفادات کے لیے کام جاری رکھا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے یہ جنگ انتہائی
پیچیدہ اور خطرناک ہو گئی ہے۔
بشارالاسد کی مطلق العنان حکومت کے خلاف شام کے عوام سات سالوں سے برسر
پیکار ہیں اور ہر ظلم برداشت کررہے ہیں۔جب حکومت مخالف تحریک نے زور پکڑاا
ور اس پر مظالم میں شدد آگئی تو اس لڑائی میں مظلوم شامی عوام کی مدد کے
لیے مختلف جہادی تنظموں اور گروہوں کے ارکان بھی شریک ہوگئے ،جس کے ساتھ ہی
بشاالاسد کی حکومت نے ظلم کی نئی داستانیں رقم کرنا شروع کردیں۔جلے ہوئے
جسم ،کٹی پھٹی لاشیں ،تصویروں اور ویڈیوز کی صورت دنیا کے سامنے آتی اور
انسانیت کے حامل ہر شخص کے دماغ میں ُچبھتی رہیں۔مخالفین سے اتنا بھیانک
سلوک ،بے خطا شہریوں پر اتنے ہولناک مظالم ،آخر دنیا کب تک بے حس بنی رہے
گی اور نظریں چراتی رہے گی۔
انسانیت کی بھیانک تصویر پیش کرتے شامی مسلمانوں کے درندہ صفت دشمن اپنے
نوکیلے ناخنوں سے لاشے نوچ لیتے ہیں ۔یہ کس جرم کی پاداش میں شامی مسلمانوں
کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔شام میں اس وقت دارالحکومت دمشق کے مشرق
میں واقعہ مضافاتی علاقے غوطہ میں شدید لڑائی جاری ہے۔غوطہ کا شمار اُن چند
علاقوں میں ہوتا ہے جہاں باغیوں کی اکثریت ہے اور اس علاقے کو سنہ 2013 سے
شامی افواج نے محصور کیا ہوا ہے اور گذشتہ ماہ فورسز نے مشرقی غوطہ کا
کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کیا تھا۔اگرچہ یہ علاقہ
باغی فورسز کے کنٹرول میں ہے تاہم وہاں سے عام شہریوں کے انخلا کے حوالے سے
مذاکرات میں تھوڑی بہت کامیاببی ہوئی ہے۔حکومتی فورسز نے تقریباً نصف علاقے
پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اس دوران ہونے والی کارروائیوں میں 900 سے
زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں۔کہاں ہے دنیا میں امن کے ٹھیکدار جو امن کے
ایسے عاشق ہیں کہ امن کے نام پر جنگ مسلط کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے کہاں
ہیں انسانی حقو ق کے نعرے لگانیوالے جو اس نعرے کی آڑ میں کسی ملک کو ہدف
بنالیں تو تجارتی پابندیوں سے فضائی حملوں تک سب کچھ کر گزرتے ہیں۔شام میں
جاری خانہ جنگی کو انسانی المیہ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر
برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے اپنے حالیہ بیان میں کہا’’شام کی خانہ
جنگی کے آغاز سے جو کچھ ہو رہا ہے، سخت شرمناک ہے، اس صورتحال کو روکنے میں
ناکامی دراصل عالمی ڈپلومیسی کی ناکامی ہے‘‘۔اور ایسے بیان ہر کچھ عرصے بعد
ان کی طرف سے سامنے آتے رہتے ہیں جو لفظوں کی ہیر پھیر کے سوا اور کچھ
نہیں۔
شامی حکومت کی حکمت عملی بڑی واضح ہے جس میں مشرقی غوطہ کو مختلف حصوں میں
تقسیم کرتے ہوئے یہاں موجود باغیوں کی حمایت اور رسد کے نیٹ ورک کو ختم
کرنا ہے اور حکومت کو اب بظاہر اس مقصد میں
کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔مشرقی غوطہ میں موجود باغیوں کا تعلق کسی ایک گروہ
سے نہیں بلکہ یہ کئی چھوٹے گروہ ہیں جن میں جہادی بھی شامل ہیں۔ یہ گروہ
آپس میں بھی لڑ رہے ہیں اور اس کا فائدہ شامی حکومت کو ہوا ہے۔علاقے میں سب
سے بڑا گروہ جیش الاسلام اور اس کا حریف گروہ فیلک الرحمان ہے۔فیلک الرحمان
ماضی میں جہادی گروہ حیات الشام کے ساتھ لڑتا رہا ہے جو کہ النصرہ فرنٹ کا
ایک دھڑا ہے۔
شام میں بربریت فتح یاب ہو رہی ہے کیونکہ جمہوری طاققتیں اس کا سامنا کرنے
سے ڈرتی ہیں۔اسد حکومت کے اتحادی روس اور ایراناپنی جارحانہ پالیسی پر ڈٹے
ہوئے ہیں۔شامی فوجی مشرقی غوطہ کا گھراؤکرتی ہے جس کے نتیجے میں پانچ سو سے
زائد افراد ہلاک ہوتے ہیں جن میں سے اکثریت عام شہرویوں کی ہوتی ہے۔شام میں
گھر گھر لاشے ہیں جگہ جگہ تباہی ہے لیکن دنیاکے طاقتوروں کو نہ خون میں
نہاتا امن نظر آتا ہے نہ انسانی حقوق کی بد ترین پامالی دکھائی دیتی ہے۔روس
نے ہمیشہ اسد حکومت کے اقدامات کا دفاع کیا حالانکہ شامی فوج نے کیمیائی
ہتھیار بھی استعمال کیے اور ہسپتالوں کو نشانہ بھی بنایا جو جنگی جرائم کے
زمرے میں آتا ہے۔55 لاکھ سے زائد شامی دیگر ملکوں میں پناہ گزین ہیں، جبکہ
60لاکھ داخلی نقل مکانی کا شکار ہیں۔
روح کانب اٹھتی ہے شامی مسلمانوں کی حالت دیکھ کر دل میں آتا ہے کہ خدا
کوئی وسیلہ بنادے اور میں اپنے بھائیوں بہنوں کی مدد کے لیے شام پہنچ جاوں
۔میں وہاں نہیں ہوں لیکن میرا قلم لکھتا رے گا ۔ہر اس ظلم کے خلاف جو
انسانیت پر ہوگا جب تک سینے میں دل دھڑک رہا ۔سانسوں کی روانی باقی ہے
،میرا قلم ظلم کے خلاف لکھتا رہے گا ۔بشارالاسد کی حمایت کرنیوالے امن کے
امین،اپنی اس بے رحمی اور منافقت کے لاکھ جواز پیش کریں ،خدا کی عدالت میں
انھیں اسی بے دردی سے کچلا جائے گا جو ظلم آج انسانیت پر وہ کر رہے ہیں اور
اس کا جواب انھیں دینا ہوگا۔شام کی سرزمین ان سات سالوں میں خون سے نہا کر
اور بھیانک تباہی سے گزر کر ہماری دنیا کے تضادات ،منافقت اور بے حسی کا
پردہ چاکررہی ہے۔یہ کسی فرقے کی جنگ نہیں،یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان
معرکہ ہے ،غاصب و جابر حکمراں اور عوام کے درمیان لڑائی ہے،جس میں نہتے
شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا اور سفاکی کی نئی کہانیاں رقم کی جارہی ہیں
۔بشارالاسد کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم میں کوئی اس کا ساتھ دے رہا ہے
۔کوئی مذمت کی رسم ادا کررہا ہے اورکوئی چب چاپ خون بہتے اور جسم جلتے دیکھ
رہا ہے۔یوں اس ظلم میں سب شریک ہیں۔
بشار الاسد،خمینائی اورر پوتن خانہ جنگی کا خاتمہ فوجی طریقے سے کرنا چاہتے
ہیں جو کسی صورت ممکن نہیں۔اقوامِ متحدہ اور مغربی ممالک کو جلد ازجلد شام
کے مسئلے کا سنجیدگی سے حل نکالنا ہوگا ۔ورنہ شام میں ہر روز قیامت مچتی
رہے گی ،جنازے اٹھائے جاتے رہیں گے اور بستیاں کی بستیاں تباہ ہوتی رہیں ۔ |