قرآن کریم کی بعض آیات اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ
روز حشر ہر انسان انہی اعمال کے ساتھ اٹھایا جائے گا جن کے ساتھ وہ دنیا سے
رخصت ہوا ۔کہیں بھی دنیاوی مقام و مرتبہ یا کم مائیگی و بے حیثیتی کا تذکرہ
نہیں جو اسے مادی دنیا میں حاصل ہوئی۔ بلکہ یہ وہ اخلاقی حیثیت ہے کہ جس پر
قائم رہ کر اس نے دنیا میں زندگی گزاری اور اسی پر دفتر عمل تمام ہوا ۔اس
سے ثابت ہوا کہ انسان کا اخلاق و کردار ہی اہم ہے، باقی سبھی کچھ بے معنی
اور فانی ہے۔ جبکہ سیرت و کردارہی جاودانی ہے کہ اگر اخلاق و کردار اچھا
ہوگا تو مر کر بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا جبکہ بد اخلاق اپنی طبعی
موت سے پہلے ہی دلوں سے اتر جاتا ہے ۔اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کی اچھائی
دراصل ایمان کی پختگی اور خدا خوفی کا ثمر ہے ۔جو انسان کو قلبی اطمینان کے
ساتھ بن مانگے عوام الناس میں وہ مقام عطا کرتاہے جو کہ اولیاء اور صوفیا
کو حاصل ہو تا ہے ۔ قرآن و حدیث میں اخلاق و کردار کی اہمیت پر اس قدر زور
دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ؐ نے تو اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا :
’’بعثت لا اتمم مکارم الاخلاق ‘‘ یعنی میں (رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم )مکارم
اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں ۔اورارشاد باری تعالیٰ ہے : وانک
لعلی خلق العظیم ‘‘ بے شک آپؐ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں (یعنی
آداب قرآنی سے مزین اور اخلاق الہیہ سے متصف ہیں )۔اﷲ تبارک و تعالیٰ نے
آخر الزماں حضرت محمدمصطفی ؐ کی ذات اقدس کو تمام مسلمانوں کے لیے قابل
تقلید نمونہ قرار دیا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ
حسنہ (بے شک رسول اﷲ ؐ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے ) ۔ہمارے نبی ؐ
اخلا ق کے اعلیٰ معیار پر تھے ۔اخلاق دراصل زندگی کے طریقے ،سلیقے اور
قرینے کا نام ہے اور اسی کی تعلیم و تربیت درحقیقت دین حقیقی کا مقصود ہے ،یعنی
انسان کو ایسی آگہی کا عطا ہونا ہے کہ وہ مقصد حیات سے روشناس ہو کر اپنی
زندگی کے لیے ایسی راہیں متعین کرے جو کہ اسے دنیا و آخرت میں سرفرازی دیں
اور خسارے سے بچا سکیں ۔ہمیں زندگی کا وہی سلیقہ او ر قرینہ مطلوب ہے جو کہ
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ؐ کے ذریعے ہمیں سکھایا ہے ۔نبی اکرم
ؐ نے جہاں اخلاق حسنہ کو عروج و کمال پر پہنچایا وہاں اخلاق سیۂ اور شنیعہ
کی قباحتوں سے بھی آگاہ کیا کہ زمانہ جاہلیت سے پھیلی ہوئی بد اخلاقیوں اور
جاہلانہ رسوم :کفر ،خیانت ، کذب ۔ٖتفاخر ،غیبت ،تمسخر ، عیب جوئی ،بہتان
تراشی ،بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا وغیرہ کا مکمل خاتمہ ہوگیا کہ دنیا نے
دیکھا ۔۔۔
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلٹ دی بس اک آن میں اس کی
کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج ِ بلا کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر سے ادھر پھر گیا
رخ ہوا کا
لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ آج جبکہ ہم شعورو آگاہی رکھتے ہیں ، دینی
علوم سے بہرہ ور ہیں ، دنیاوی ضرورتوں اور حدود و قیود سے واقف ہیں پھر بھی
ہم بد اخلاقی کی طرف تیزی سے راغب ہو رہے ہیں ۔وہ تمام بد اخلاقیاں جو کہ
قوموں کی تباہی اور عذاب الہی کا سبب بنیں وہ آج ہمارے معاشرے میں سرایت کر
چکی ہیں ۔مقام افسوس تو یہ ہے کہ جنھیں ان کی سر کوبی کرنا تھی ،ان برائیوں
کا سد باب کرنا تھا وہ ہی سر عام ان کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اس میں فخر
محسوس کر رہے ہیں ۔ اس افرا تفری ، بے حیائی ، فحاشی اور بد کلامی کے اٹھتے
ہوئے بادلوں کا خدشہ مفکر پاکستان کو پہلے سے ہی تھا جو کہ آج کا بھیانک سچ
بن چکا ہے جو کہ حصول وطن کا مقصد ہی دھندلا کر رہا ہے ۔علامہ مرحوم نے سچ
کہا تھا کہ !
گزر گیا اب وہ دور ساقی ۔۔۔۔کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں مہ خانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہر کوئی بادہ خوار ہوگا !
بے شک اب برائی اور بے حیائی کا عام طور پر بول بالا ہے اور جو جتنا زیادہ
بد اخلاق اور بے حیا ہے وہ اتنا ہی زیادہ عزت و نام والا بنتاہے اور یہی
کامیابی کا معیارٹھہرا ہے لیکن کیا موت سے کسی کو راہ فرار ہے ؟یہی تو
مسئلہ ہے کہ خوف الہی ختم ہوچکا ہے ۔
کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ شریف خاندان پر کرپشن ثابت ہوچکی ہے ؟ نیکسول
اور نیلسن کی اصل مالکہ بھی مریم بی بی نکلی ہیں اور دیگر کے ثبوت بھی
وقتاً فوقتاً پیش کئے جا تے ہیں مختصراً کرپشن بھی ہوئی ، اقربا پروری بھی
کی گئی ، وفاداروں کو بھی نوازا گیا ،عہدوں کی بندر بانٹ بھی کی گئی ، اکثر
قلم کاروں اور میڈیا ہاؤسزکو بھی زرخرید بنایا گیا کہ وہ عوام کو تشہیری
منصوبوں میں الجھائے رکھیں۔ عوامی فلاح و بہبود اور گڈ گورننس کی مد میں
کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ۔صحت و تعلیم سوالیہ نشان بن گیا ، ناقص
خوراک اور گدلا پانی عام آدمی کا مقدر بنا ، موسم گرما میں بجلی کی لوڈ
شیڈنگ اور سرما میں گیس کی لوڈشیڈنگ نے عوام الناس کو کرب و احتجاج میں
مبتلا کئے رکھا ، تہواروں پر مہنگائی کے بوجھ تلے دب کرایک غریب موت کو گلے
لگانے پر بھی مجبور ہوا مگر نہ زنجیر عدل ہلی ، نہ ہی ایوان لرزے ،بلکہ کہا
گیا کہ دال اگر مہنگی ہے تو عوام مرغی کھا لیں ،لوگ اگر سیلاب سے مرتے ہیں
تو یہ تو اﷲ کی کرنی ہے اور امداد کو بھی سیاسی وابستگیوں سے مشروط کر دیا
گیا ،آکسیجن سیلینڈر نہ ہونے سے بچے مرے تو نوٹس پر اکتفا کیا گیا بلکہ
مزید 40 ہسپتال بنانے کا بیان داغ دیا گیا آنکھوں میں آنسو لیکر حالانکہ
عوام چیخ رہے تھے کہ ادویات غائب ہیں ،مشینیں خراب ہیں ، مریض بے حال ہیں
،بستروں کا فقدان ہے اور ڈاکٹر بے زار ہیں مگر کسی کے کانوں پر جون تک نہیں
رینگی ۔ بلکہ نعرہ تھا :
دیپ جس کا محلات میں ہی جلے ۔۔چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
اور جب اﷲ کی پکڑ میں آئے تو ایسے میں چاہیے تھا کہ حکمران جماعت اور شریف
خاندان عجز و انکساری اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتا مگرقوانین بدلنے کا
عندیہ دے دیااور ختم نبوت قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جسارت کر ڈالی وہ
معاملہ ابھی سماجی ، سیاسی اور دینی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ 70 سالہ نظام
کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا گیا ہے بہتر تو ہوتا کہ اپنے پینتیس سال کو
مائنس کر لیتے مگر میاں صاحب نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سالوں کو
بھی قابل بغاوت سمجھا ۔ریاستی بغاوت نے میاں صاحب کو متنازع شخصیت بنا دیا
ہے کہ میاں نواز شریف کی امام کعبہ سے ملنے کی خواہش کو امام کعبہ نے یہ
کہہ کر ٹھکر دیا کہ میں کسی متنازع شخصیت سے ملنا نہیں چاہتا ۔
قارئین کرام !مہذب ملکوں میں جب صدور اور وزرائے اعظم پر کرپشن کا الزام
لگتا ہے تو ثابت ہونے سے پہلے وہ لوگ مستعفی ہوجاتے ہیں کیونکہ عزت تو نام
و شہرت سے زیادہ اہم ہوتی ہے مگر پاکستان کے حکمرانوں نے عدلیہ اور ریاستی
قوانین کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے یہی وجہ ہے
بین الاقوامی میڈیا بھی اچھے لفظوں میں ذکر نہیں کر رہا مگر حکمران جماعت
کی دیدہ دلیریاں اور ہرزہ سرائیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں ۔عمران خان کی شادی
پر وزراء نے جس قسم کے الفاظ اور تضحیکی الفاظ استعمال کئے اور میڈیا نے
نشر کئے وہ نا قابل بیان ہیں چونکہ ان کی مذمت نہیں کی گئی بریں وجہ مزید
حوصلہ بڑھ چکا ہے کہ اب بد اخلاقیوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے کہ
اخلاقیات کا جنازہ اس شان سے نکل رہا ہے کہ اب تو مردوں سے عورتیں بھی
پیچھے نہیں ہیں کہ بی بی مریم نے بھی خان صاحب کو للکارتے ہوئے کہا : ’’ تم
کہتے ہو کہ تم بکتے نہیں جھکتے نہیں حالانکہ تم نہ جھکتے ہو ، نہ بکتے ہو
بلکہ سیدھا لیٹ جاتے ہو ‘‘۔اور لاڈلہ کہہ کر اداروں کو مسلسل تنقید کا
نشانہ بنانا تو جیسے وطیرہ بن چکا ہے ان حالات میں اعلیٰ عدلیہ اور افواج
پاکستان کی خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے ؟
ڈگریوں سے اخلاقیات آتیں تو پاکستان میں ان پڑھوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے
ایسے میں اخلاقیات کا مفہوم ہی بدل جاتا ۔بے شک جاہلیت تعلیم نہ ہونے کو
نہیں بلکہ عقل و شعور کے فقدان کا دوسرا نام ہے اسی لیے نبی کریم ؐ کی بعثت
سے پہلے زمانے کو’’ زمانہ جاہلیت‘‘ کہا جاتا ہے ۔چنا نچہ بد اخلاقیاں
جاہلیت کی نشانیاں ہیں جس میں نہ صرف ملک و قوم کا وقار مجروح ہوتا ہے بلکہ
دنیا و آخرت بھی برباد ہوجاتی ہے لیکن یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ عام آدمی
بد اخلاقی کرتا ہے تو اس کا اثر انفرادی ہوگا اگر لیڈر بد اخلاقی کا مرتکب
ہوتا ہے تو اس سے پورا معاشرہ متاثر ہوگا ۔ہمارے پاس توسیرت النبیؐ اور
خلفائے راشدین کی زیست سے زریں مثالیں موجود ہیں جیسا کہ حضرت عمر ؓ جب
خلافت اسلامیہ پر فائز ہوئے تو اعلان فرما دیا کہ میری جو بات قابل اعتراض
ہو اس پر مجھے سر عام ٹوک دیا جائے اور یہاں تو عوامی حالات اور لیڈران کے
اعمال و کردار پورا دن الیکٹرانک ،سوشل اور پرنٹ میڈیا پر کھول کر بیان
کرتے ہیں مگر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق لکھنے والوں پر گرفت ہوتی
ہے اور اپنی غلطیوں ، ناکامیوں ، جھوٹ اور بد دیانتیوں پر ڈھٹائی اختیار کی
جاتی ہے۔
ایسے ابتر حالات کو دیکھتے ہوئے عوام الناس میں عدم برداشت اور نفرت کا در
آنا ایک فطری عمل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے خواجہ احسن پر جوتا پھینکا گیا ،
پھر خواجہ آصف پر ورکرز کنوینشن میں خطاب کے دوران منہ پر سیاہی پھینک دی
گئی اور پھر سابق وزیراعظم نواز شریف پر جوتا پھینک دیا گیا ۔ مسلم لیگ کے
حامیوں اور درباریوں نے اسے پی ٹی آئی سازش قرار دیا مگر ملزم نے اعتراف
کیاکہ سیاہی پھینکنے کی وجہ ختم نبوت قانون سازی ہے اور جوتا پھینکنے والے
کے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہ وہ دینی جماعت سے منسلک طالب علم ہے ۔
اختلاف رائے اپنی جگہ مگر جوتا اور سیاہی پھینکنا غیر اخلاقی افعال ہیں اور
کسی طور بھی مناسب نہیں ہے ۔لیکن ایک انفرادی عمل کو سیاسی پارٹی سے منسوب
کرنا بھی قابل مذمت ہے بلکہ افسوسناک تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف پر جوتا
پھینکے جانے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد عمران خان پر جوتا پھینکنے کی سازش سامنے
آگئی اور مسلسل ایسی کوششیں کی جارہی ہے ۔جماعتوں کو اپنے طرز عمل اور رویے
کو بدلنا چاہیے ۔تشدد کے راستے سے بچنا چاہیے کہ یہ دور حکومت بذات خود
سوالیہ نشان ہے ۔۔! ایسے میں کسی بھی قسم کی نادانی زہر قاتل ہو سکتی ہے
کیونکہ میاں نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے بعد جس ڈھٹائی اور جوش سے ملزم
نے ہاتھ بلند کئے تھے اس سے صاف ظاہر تھا کہ اسے نتائج کی پرواہ نہیں ہے
لیکن اس واقعہ کے بعد مریم بی بی نے جیسے راولپنڈی سوشل میڈیا کنوینشن سے
خطاب کے دوران اپوزیشن جماعتوں پر الزامات کی بوچھاڑ کی اور ترازو دکھا کر
اداروں پر للکار کی ، عوام کو بہکایا اور اکسایا وہ بھی افسوسناک ہے ۔ اس
لیے اپنے اخلاق و کردار پر نظر ڈالیں اور اب بھی وقت ہے کہ سنبھل جائیں ۔
|