آج سے کئی سال پہلے ۳ دسمبر ۹۹۹۱ کو مشرف دور میں جب
جاوید اقبال نامی شخص نے لاہور میں ۰۰۱ بچوں کیساتھ جنسی تشدد کر کے انہیں
مار دیا تھا اسکی گرفتاری کے بعد مشرف نے ایک بہت اہم بات کہی تھی کہ محلے
میں کریلے گوشت بن جائے تو ورے محلے کو پتہ چل جاتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ
۰۰۱ بچوں کا قاتل ایک محلے میں رہ رہا ہو اور کسی کو خبر نہ ہو۔یہی حال
موجودہ کیس میں بھی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے ہے کہ عمران علی نامی شخص ایک غریب
محلے میں مستری بن کر مافیا گیری کرے اور کسی کو شک بھی نہ گزرے۔ یہ کوئی
چائینہ تھوڑی ہے جہاں ڈرائیور، ترکان اور صفائی والے تک سب کا بینک اکاوٗنٹ
ضروری ہے، یہ تو پاکستا ن ہے جہاں کوئی اکاوٗنٹ تب کھولتا ہے جب اسکی کسی
سرکاری یا نجی ادارے میں ملازمت لگتی ہے پھر وہ اپنا اکاوٗنٹ کھلواتا ہے
اور پہلی تنخواہ پہ باقاعدہ مبارک بادی دی جاتی ہے ۔ سارا محلہ جان جاتا ہے
لیکن ایک مستری کو اکاوٗنٹ کی بھلا کیا ضرورت اور ہے تو وہ ایک بہت ہی
مقبول اعلی پائے کا مستری ہو گا جسکے پاس کافی ٹھیکے بھی ہونگے اور ہوتے
ہوتے ۰۸ کے قریب ملکی اور غیر ملکی اکاوٗنٹس بھی بنا لیے ہونگے۔۔ یہ بات
خود میں ہی ایک بہت بڑا مذاق ہے اور ثابت کرتی ہے کہ یا تو محلے والے سب
ملے ہوئے ہیں یا پھر پاکستانی ہی نہیں ہیں کیونکہ پاکستانیوں کا زیادہ کا م
تو دوسروں کے کام سے ہوتا ہے۔ یہ تو تصویرکا محض ایک معاشرتی حصہ ہے۔پوری
کہانی سمجھنے کیلیئے کچھ بنیادی باتوں کا ذکر ضروری ہے۔
انٹرنیٹ کے تین بڑے حصے ہیں۔ ۱) surface netجو کہ ہم سب استعمال کرتے ہیں۔
اسکا حجم محض چار فیصد ہے۔اس میں روزمرہ کے سارے کام انجام ہوتے ہیں جیسے
فیس بک ، گوگل سرچنگ وغیرہ۔ ۲)ڈیپ ویب ۔ یہ وہ تمام سائٹس ہیں جو کہ عام
استعمال کیلیئے نہیں ہیں۔ ان میں بینک ریکارڈز، اکیڈیمک معلومات وغیرہ پائی
جاتی ہیں۔ ان تک رسائی اس وقت ممکن ہے جب ہم اس ادارے میں ملازمت کرتے ہوں
یا انکے پاس ورڈ ز اور یوزر آئی ڈیز ہمارے پاس ہوں۔ ۳) ڈارک ویب۔یہ انٹر
نیٹ کا سب گہرا حصہ ہے جہاں تک پہنچنا ناممکن ہے۔ یہ عجیب شیطانیت بھری
دنیا ہے یہاں تمام غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاروبار ہوتے ہیں۔ یہاں تک
رسائی کیلیئے کسی عام براوٗزر کا استعمال بے معنی ہیں۔ یہاں سب سے خطر ناک
کھیل ہومن آرگنز کی سمگلنگ کا ہے۔اور ان میں child pornography سب سے مقبول
ترین کاروبار ہے۔ پاکتسان میں اب تک اس نوعیت کے تین بڑے کیسس ہو چکے ہیں۔
جاوید اقبال مغل جس نے ایک ویڈیو گیم سنٹر بنایا ہوا تھا جم میں وہ بچوں کو
پھانس انہیں پیسے دے کر جنسی تشدد کر کے انکی لاشوں کو تیزاب میں جلا دیتا
تھا اور ویڈیو ز child pornographic والوں کو بیچ دیا کرتا تھا۔ اس نے اپنے
جرم کا کھل کر خود ہی اعتراف کیاتھا اور بعد میں اسے جیل میں زہر کھلا کر
مار دیا گیا تھا ۔ دوسرا واقعہ قصور میں چند اہم سیاسی شخصیات اور پولیس کی
ایماء پر ۶۰۰۲ سے ۵۱۰۲ تک ۰۰۳ بچوں کا جنسی تشدد ج کر کے انکی ویڈیوزفروخت
کر کے ہوتا رہا اور مجرم تا حال آزاد ہیں۔ تیسرا واقعہ حال ہی میں قصور میں
زینب کے اغوا، تشدد اور قتل کا ہے جسکے مرکزی ملزم کو نفسیاتی مریض اور
مستری بتا کر گرفتار تو کر لیا ہے لیکن اب اسے بھی جاوید اقبال کیطرح زہر
کھلا کر مار دیا جائے گا اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
یہ قوم دنیا کی ناسمجھ ترین لوگوں کی ایک ایسی قوم ہے جو نہ صرف بے وقوف ہے
بلکہ حد درجہ بھلکڑ بھی۔ یہ ظلم کو ثواب سمجھ کر سہتی ہے۔ آپ جب چاہیں انکے
دماغ سے پرانے زخم کرچ کر نئے ثبت کر سکتے ہیں۔ جب بھی ایسا کوئی کیس سامنے
آتا ہے تو مذہبی اور لبرلز کی تکرار سامنے آجاتی ہے اور پھر سوسائٹی کو
Frustrated کہہ کر مجرم کو نفسیاتی مریض بتا کر مار دیا جاتا ہے۔ جبکہ اصل
میں یہ ایک ملٹی ٹریلین کاروبار ہے۔ اسے امیر ترین لوگ شوقیہ چلاتے ہیں اور
غریب لوگ پیسے کی لالچ میں ڈارک ویب میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی
میں عمران علی نامی ملزم کے ایک اکاوٗنٹ سے ۰۰۰۶۱ Euro نکالے گئے، اب ظاہے
ہے ایک مستری یا نفسیاتی مریض اتنے پیسے اپنی پوری زندگی میں جمع نہین کر
سکتا۔ تو ثابت ہوا کہ یہ مجرم ایک کڑی ہے جس سے قصور کے باقی تین سو بچوں
کے قاتل ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نذیر صاحب سے درخواست ہے کہ وہ مجرم
کو پولیس کی پشت پناہی اور سیاسی اثر ورسوخ سے دور رکھیں اور اکاوٗنٹس کی
تفصیلات کیلیئے کمیٹیاں بنانے کے بجائے مجرم کو تفتیش کیلیئے خفیہ ایجینسیز
اور عسکری اداروں کے حوالے کریں کیونکہ پولیس اب قابل بھروسہ نہیں رہی۔
والدین اور اہل محلہ بھی یہ نکتہ سمجھیں کہ بدقسمتی سے ہمارا خاندانی نظام
جو کہ مشرقی روایات کی پہچان تھا اب مغربی دلدل میں پھنس چکا ہے اسلیئے
اپنے بچوں کو اس نظام کی اچھائیوں کیساتھ ساتھ برائیوں کی نشان دہی بھی
کروائیں، عمرہ ، حج ، عبادات سے زیادہ ضروری اپنے بچوں کی عزت کا تحفظ ہے۔
امین انصاری صاحب اور ایسے تمام والدین پہلے اپنے بچوں کی بہتر حفاظت کریں
اور جب سرخرو ہو جائیں اور مطمئن ہو جائیں تو رب کے دربار ماتھا ٹیکنے میں
کوئی حرج نہیں۔ اور آخ ر میں ہم عوام کہ جو کہ ہر سانحے پر دو دن کا سوگ
منا کر اگلے دن کسی نئی کہانی کی پیاس میں رہتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ ایسے
واقعات کو نفسیاتی رنگ دے کر معاشرے کی حبس زدگی پر بحث کرنے کے بجائے
معاملے کی حقیقت کو قبول کریں اور مجرم کی پھانسی سے زیادہ ضروری اسکی
تفتیش کو سمجھیں کیونکہ جب تک پس پشت لوگوں کی معلومات نہیں ہونگی تب تک اس
جرم کو روکنا ناممکن ہے۔ خداراہ اس شیطانی عمل میں جن لوگوں کا بھی نام آئے
انکے خلاف کھل کر آواز اٹھائیں تاکہ ہم ہمارے بچے اور ہمارا معاشرہ اس ڈارک
ویب کی شیطانیت سے نکل سکیں۔ |