۲۵فروری ۲۰۱۸ کو میرٹھ کے اندرراشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے
سب سے بڑے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے (جس میں ایک لاکھ سے کچھ زیادہ لوگ تھے
) بھاگوت جی نے کہا’’ ہر ہندو میرا بھائی ہے۔ ہندوستان میں کسی کے کھان پان
کی عادت ، خدا کی عبادت طریقہ ،فلسفہ ، زبان اور تہذیب مختلف ہوسکتا ہے
لیکن وہ سب ہندو ہیں‘‘۔ یہ حماقت مسلمان تو دور لنگایت، بودھ ، جین اور
سکھوں کے گلے سے بھی نہیں اترتی مگر بھاگوت جی کا اصرار ہے کہ ’’بہت سارے
ہندو ایسے ہیں جن کو اپنے ہندو ہونے کا شعور نہیں ہے‘‘۔ اب سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ ۹۰ سالوں کی جدوجہد اور جوڑ توڑ سے سنگھ پریوار اقتدار پر تو
قابض ہوگیا لیکن ہندووں کے اندر ان کے ہندو ہونے کا شعور پیدا نہیں کرسکا ۔
پریوار کے باہر والوں سے اخوت تو محبت کا رشتہ استوار کرنا تو دور خود اپنے
خاندان کو ٹوٹ پھوٹ سے نہیں بچا سکا۔ کیا اس سے بھی بڑی کوئی ناکامی ہوسکتی
ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر سنگھ پریوار نے کرناٹک کے بجائے جہاں کی تقریباً
۱۷ فیصد آبادی ہندو دھرم سے بغاوت کررہی ہے اتر پردیش کے اندر اپنے شکتی
پردرشن کا فیصلہ کیوں کیا؟ جو سنگھی طریقہ کار سے واقف وہ جانتے ہیں کہ
مذکورہ اجتماع کے دو ہفتے بعد گورکھپور اور پھولپور میں ووٹنگ ہونی تھی۔
آرایس ایس بھی وزیراعلیٰ کی مانند بیجاخوداعتما دی کا شکار تھا جس کا
برملا اعتراف یوگی جی نے ذرائع ابلاغ میں کردیا۔ انتخابی نتائج اگر حسب
توقع آجاتے تو اس کامیابی کا سہرا سنگھ کے سر باندھ دیا جاتا اور کہا جاتا
کہ اس اجتماع سے نکل ہزاروں سنگھ سیوک گورکھپور اور پھولپور میں پھیل گئے
جس کے نتیجے میں یہ چمتکار ہوگیا لیکن چونکہ وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں
ہوسکا اس لیے بڑی سہولت سے اجتماع اور انتخابی نتائج کو بہت جلد بھلا دیا
گیا۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ اقتدار کے باوجود لنگایت جیسا تعلیم یافتہ طبقہ ہندو
دھرم سے اپنا ناطہ توڑنے پر مصر کیوں ہے؟ میرٹھ میں یوگی سرکار کےہوتے ہوئے
والمیکی سماج کے لوگ آرایس ایس کا بینر کیوں پھاڑ دیتے ہیں ؟ اس سوال کا
جوابسنگھی ذہنیت کے پروردہ متن میں پوشیدہ ہے ۔ بینر پر لکھا تھا ’’ہندو
دھرم کا وقار جس طرح وششٹجیسے براہمن، کرشن جیسےشتری، ہرش جیسے ویشیہ اور
تکارام جیسے شودر نے بلند کیا اسی طرح والمیکی، چوکھامیلا اور روی داس جیسے
اچھوتوں نے بھی کیا ہے‘‘۔ اس جملے میں ذات پات کی تقسیم کو بڑے فخر کے ساتھ
نام نام لے کر بیان کیا گیا ہے اور شودروں سے بھی گئے گزرے اچھوتوں تک کی
مثالیں پیش کی گئی ہیں ۔ کاش یہ بے حس لوگ جانتے کہ ببانگ دہل والمیکی ،
چوکھے مل اور روی داس کو اچھوت کہنے سے ان کے ماننے والوں پر کیا گذری ہوگی؟
یہی وہ زہریلا تیر ہے جس نے ۸۰۰ سال قبل ایک براہمن وزیر سنت باساوناّ کو
ہندو مذہب سے بغاوت پر مجبور کیا تھا مگر سنگھ پریوار اس کو اپنے قلب و ذہن
سے نکالنے پر راضی نہیں ہے۔ اسی کے سبب اس کے سارے نعرے کھوکھلے ہوجاتے ہیں
۔ بھاگوت جب گوہاٹی میں کہتے ہیں چونکہ ہندوتوا نے زبان ، مذہب ، رسوم و
رواج کے اختلاف کےباوجود ہندوستان کو متحد کررکھا ہے اس لیے ہندوستان ہندو
راشٹر ہے تو لوگوں کو ہنسی آجاتی ہے ۔ ان خوبصورت الفاظ کی آڑ میں سنگھ
پریوار ظلم و جبر کی جڑ ذات پات کے فرق کو پروان چڑھاتا ہے ۔
بارہویں صدی عیسوی میں عظیم فلسفی سنت باسوناّ نے سماج دبے کچلے لوگوں کو
نسلی امتیاز کے چنگل سے چھڑانے کی خاطرلنگایت نام کی انقلابی تحریک برپا کی
اور منوواد سے بغاوت کردی ۔ شرک و بت پرستی سے پاک یہ ایک مؤحدانہ مذہب کی
بنیاد پر اعلان کردیا کہ سارے لنگایت مساوی ہیں ۔ اس نئےدین کے اندر جب
ہندووں میں سےویر شیوا نامی طبقہ کے لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے اپنی قدیم
رسوم و رواج کو نہیں چھوڑا۔ وہیں سے خلط مبحث کا آغاز ہوا۔ پروفیسر ایم
ایم کالبرگی جو خود باسواناّ کے پیروکار تھے نے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا
تھا سنت کی تعلیمات کو بھلادینے سے اس دین کا تشخص مجروح ہوگیا۔ اس دھرم کو
ہندو مت میں ضم کرنے کی مذموم کوشش کرنے والوں نے پروفیسر کالبرگی کا
وحشیانہ طریقہ سے قتل کردیالیکن تحریک نہیں رکی ۔ لنگایت سماج کی تقریباً
۳۰۰۰ عبادتگاہوں اور سیکڑوں اسکولوں و کالجوں کے اندر اپنی منفرد شناخت
قائم کرنے کا خیال زور پکڑتا گیا۔ پرفیسر کالبرگی کے قاتلوں کو علم نیںد
تھا کہ بھاگوت جی کے بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ ویسے موہن
بھاگوت اپنے بھائی کا قصاص لینے کے لیے میدان میں اترتے تو ان کی غلط فہمی
دور ہوتی مگر وہ تو قاتلوں کی پشت پناہی کرتے رہے جس سے بھائی بندی کی قلعی
کھل گئی۔
لنگایت مذہب ۱۸۷۱ کی رائے شماری تک علٰحیدہ دھرم شمار کیا جاتا تھا لیکن
۱۸۸۱ میں اسے بلاجواز ہندو مذہب کے تحت ایک ذات بنادیا گیا۔ انگریزوں کی
جہالت کا فائدہ اٹھا کر براہمنوں نے وطن عزیز میں جو گل کھلائے ان میں سے
یہ بھی ایک کارنامہ ہے۔ ۱۹۳۰ تک ویر شیوا لنگایت سماج کا ایک حصہ تھے مگر
آگے چل لنگایت سماج کوپوری طرح نگلنے کی خاطر اس کوویرشیوا لنگایتکے نام
سے موسوم کیا گیا ۔ اس سازش کے خلاف لنگایت رہنماوں نے ۱۹۴۱ میں اپنا تشخص
بحال کرنے کی خاطرمہاسبھا کا انعقاد کیا مگر اس کو بھی ویرشیوا مہاسبھا کے
نام دےدیا گیا ۔ ان سازشوں کے باوجود ہندو اکثریت سے خود کو الگ کر کے
اقلیت کا درجہ حاصل کرنے کی یہ تحریک ۷۰ سال تک جاری رہی ۔ ذات پات کا ظلم
کس قدر شدید ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نظام
جمہوری میں جہاں اقتدار کی باگ ڈور اکثریت کے ہاتھ میں ہوتی ہے ایک طبقہ
خود اکثریت کا حصہ بنانے کے بجائے اقلیت کہلانے کو ترجیح دیتاہے ۔ اس اقدام
میں اقلیت کا رونا رونے والے مسلم رہنماوں کے لیے درسِ عبرت ہے۔
کانگریس اس تحریک کی حامی رہی لیکن۲۰۱۳ میں بی جے پی سے الگ ہونے کے بعد
بی ایس یدورپاّ نے بھی اس کی حمایت کردی تھی ۔ جولائی ۲۰۱۷ میں لنگایت
سماج کےرہنماوں نے ایک لاکھ دستخط کے ساتھ وزیراعلیٰ سے ملاقات کی اور ان
کے علٰحیدہ مذہب کو تسلیم کرنے کامطالبہ کیا اور اصرار کیا کہ انہیں
ویرشیوا لنگایت کے بجائے صرف لنگایت کے نام سے پکارا جائے۔ وزیراعلیٰ
کرناٹک نے یہ معاملہ ناگ موہن داس کی سربراہی میں ۷رکنی ماہرین کی ٹیم کے
حوالے کردیا۔ اس پر ویرشیوا کے ماننے والوں نے بھی اپنے آپ کو باسواناّ
بھکت قرار دے کر الگ مذہبی تشخص کا مطالبہ کیا ۔ یہ کنفیوزن پیدا کرنے کی
آخری کوشش تھی جو ناکام رہی ۔ ماہرین نے رائے دی کہ لنگایت الگ مذہب ضرور
ہے لیکن ویر شیوا نہیں ہے۔ ویرشیوا کو لنگایت مذہب کا ایک حصہ تسلیم کیا
جاسکتا ہے۔سرکاری تجویز کی اس شق کے سبب کرناٹک کے کالبرگی شہر میں فساد
ہوگیا ۔ خیر اب صورتحال یہ ہے کہ سدھاّ رمیانے مرکزی حکومت کے سامنے لنگایت
سماج ہندووں سے الگ مذہب تسلیم کرنے کاٹیڑھا سوال رکھ دیا ہے۔
راجیوگاندھی نے لنگایت وزیراعلیٰ ویریندرپاٹل کو اچانک برخواست کردیا تھا ۔
اس فیصلے بددل لنگایت ناراض ہوکر جنتادل سے ہوتے ہوئے بی جے پی میں چلے گئے
لیکن اب اگرمرکزی حکومت اس تجویز کو منظور کرلے تو کامیابی کا سہرا کانگریس
کے سر بندھے گااور مسترد کردے تو ناراضگی بی جے پی کے سر چلی جائیگی۔ بی جے
پی کو اس کا اندازہ ہے اس لیے امیت شاہ اس تحریک کو کانگریس کی سازش قرار
دیتے ہیں ۔ بی جے پی جنرل سکریٹری اور کرناٹک کے نگراں پی مرلی دھر راو نے
کانگریس پر برطانوی روایت’ بانٹو اور حکومت کرو‘ کی حکمت عملی اختیار کرنے
کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس آگ سے کھیل رہی ہے۔مرلی دھر
نے سوال کیا کہ یہ کام الیکشن سے عین پہلے کیوں کیا جارہا ہے ۔ چار سال قبل
کیوں نہیں کیا گیا؟ لیکن بی جے پی بھی تو الیکشن سے عین پہلے انکاونٹر سے
لے کر فسادات تک کردیتی ہے۔ وہ باغ جلانے کے لیے ہوتا ہے یاپھول کھلانے کی
خاطر کیا جاتا ہے؟
بی جے پی والے جو چاہے شور مچائیں لیکن ٹمکور میں واقع لنگایت سماج سب سے
قدیم سداّ گنگا مٹھ نے حکومت کے فیصلے کی تائید کردی ہے۔ اس مٹھ کے ۱۱۰
سالہ سربراہ شیوکمار سوامی کو کئی لنگایت چلتا پھرتا دیوتا سمجھتے ہیں۔ ان
کی غیر معمولی تعلیمی خدمات کے پیش نظر کرناٹک کی بی جے پی نے ابھی گزشتہ
سال انہیں بھارت رتن کے اعزاز سے نوازنے کی سفارش کی تھی۔ ان کے نائب سداّ
لنگا سوامی بھی اس اجتماعی فیصلے کی مرکزی توثیق کے منتظر ہیں۔ وہ ہندو مت
میں پھوٹ کی دلیل کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں ہم ہندومت کے ذات پات اور
تفریق و امتیاز میں یقین نہیں رکھتے ۔ ان کے خیال میں سرکار کے اس فیصلےسے
ہندو دھرم تباہ نہیں ہوگا۔ لنگایت سماج کے ان مذہبی پیشواوں کو موہن بھاگوت
نے اس تحریک سے باز رہنے کی تلقین کی تھی ۔ اس کے جواب میں ماتھر مہادیوی
نے کہا تھا ہمیں روکنے کے بجائے بھاگوت اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے
وزیراعظم سے فیصلے کی جلدازجلد توثیق کرائیں۔
یہ بات کس کے خواب و خیال میں نہیں تھی کہ جب ہندو ہردیہ سمراٹ خود اپنے بل
بوتے پر ہندوستان کا اقتدار سنبھالے گا اس دھرم میں اس قدر بڑی بغاوت ہو
جائےگی ۔ کرناٹک اسمبلی کی تجویز کے سامنے پردھان سیوک کی انگلیاں
تھرتھرانے لگیں گی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ اسے تسلیم کرلیا جائے
یا رد کردیا جائے۔ ۱۹۵۵ کے اندر ہندو نکاح کا قانون اور ۱۹۵۶ہندو وراثت
کا قانون لنگایت، بودھ ، جین اور سکھوں پر نافذ کردیا گیا۔ سب سے پہلے
سکھوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور ۱۹۶۳ میں اپنی الگ حیثیت منوائی
۔بودھوں کواپنا تشخص منوانے میں مزید ۳۰ سال لگے اور ۱۹۹۳ میں وہ بھی اپنے
آپ کو ہندو مت سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ۲۱ سال کی مزید جدوجہد کے
بعد جین سماج کو جان چھڑانے میں کامیابی ملی ۔ کانگریس کی مرکزی حکومت نے
جانے سے قبل یہ کام کردیا ۔ اتفاق سے یہ کارِ خیرکرناٹک کے رہنے والے
کےرحمٰن خان نےاقلیتی امور کے وزیر کی حیثیت سے انجام دیا ۔ کانگریس نے
کرناٹک میں پھر وہی کردیا۔ اس کے بعد اگر وہ انتخاب ہار بھی جائے تببھی نام
روشن رہے گا۔
کرناٹک کی سدھاّ رمیاّ حکومت نے جاتے جاتے گوری لنکیش کے قاتل کو گرفتار
کرنے کا کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔ اتفاق سے گوری لنکیش بھی لنگایت تھیں
اور منفرد مذہبی تشخص کی حامی تھیں۔ ان کا قاتل ہندو یواسینا کا ۳۷ سالہ کے
ٹی نوین کمار سناتن سنستھا کا بھی رکن ہے۔ اسی بدنامِ زمانہ تنظیم پر
کالبرگی اور دیگر دانشوروں کے قتل کا الزام ہے ۔ ہندو یوا سینا کا نوین
کمار گوری لنکیش کے قتل سے مطمئن نہیں ہوا۔ اب وہ ہندو توا کے ایک اور ناقد
صحافی بھگوان کے قتل کا منصوبہ بنارہا تھا ۔ اس کے لیے اسلحہ مہیا کرلیا
گیا تھا۔ بھگوان کے نقل و حرکت کی نگرانی شروع ہوگئی تھی۔ کسی اور صوبے سے
شارپ شوٹر آنے ہی والے تھے۔ پولس کادعویٰ ہے کہ اگر یہ بروقت گرفتاری نہ
ہوتی تو زعفرانی دہشت گرد ہفتے بھر کے اندر ایک اور ناحق قتل کردیتے۔ یہ
سارا ہنگامہ شری شری روی شنکر کے شہر بنگلورو میں برپا ہے مگر وہ کبھی
لکھنو تو کبھی کشمیر میں مسلمان مظلوموں کو زندہ رہنے کا فن سیکھا رہے ہیں۔
یہی کام اگر وہ اپنے ہندو انتہاپسندوں پر بنگلورو کے اندر کریں تو خود ان
کے اپنے ہم مذہب لوگوں کی قتل و غارتگری رک جائےلیکن ممکن ہے خود اپنی موت
کا خوف ا نہیں باز رکھ رہا ہو ۔ مرنے سے ڈرنے والا کیا جانے کہ زندگی کیا
ہے اور اس کو گزارنے کا فن کون سا ہے؟
کرناٹک میں صرف بائیں بازو کے دانشور زعفرانی دہشت گردی کا شکار نہیں ہیں
بلکہ شری رام سینے کا بانی پرمود متھلک کی جان کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔اس
کا کہنا ہے کہ میں اپنے کانگریسی اور اشتراکی دشمنوں سے واقف ہوں مگر مجھے
ہمارے اپنے لوگوں سے اندیشہ ہے اس لیے کہ وہ پشت زنی میں ماہر ہیں ۔ توگڑیا
کے ساتھ جو ہوا وہ میرے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ آرایس ایس کے رہنما منگیش
بھینڈے مجھے پسند نہیں کرتے اور انہیں سابق وزیر اعلیٰ جگدیش شیطار اور رکن
پارلیمان پرہلاد جوشی کی حمایت حاصل ہے ۔ یہ لوگ میری مقبولت سے خار کھاتے
ہیں اور مجھے شمالی کرناٹک میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ غلام ذہنیت کے حامل
لوگ ہیں اس لیے میں نے تنظیم چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔کاش کی موہن جی انہیں
بتائیں کہ ہندوتوا ہمیں مل جل کر رہنا سکھاتا ہے اس لیے اپنے ہندو بھائیوں
کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے۔
پرمود کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے ۴۰ سال سنگھ میں برباد کردیئے۔
اُس جیسے اور بھی کئی زندگی سے بیزار لوگ ہیں جو ہیں اور کچھ کرنا نہیں
چاہتے ۔ متھلک نے سوال کیا کہ آریس ایس ہندو اتحاد کا دعویٰ کرتی ہے لیکن
جو خود اپنے ہی لوگوں کو ناپسند کرتے ہوں وہ اتحاد کیوں کر قائم کرسکتے ہیں
؟ہندوستان میں رہنے والے سارے لوگوں کو ہندو بناکر متحد کرنے کا دعویٰ
کرنےوالے موہن جی کو یہ بتانا ہوگا کہ پرمود متھلک جیسا آدمی جس کو سنگھ
کا نظریہ وراثت میں ملا ۔ جس نے ایمرجنسی کے بعد اپنی زندگی سنگھ کے لیے
وقف کردی۔ جس کو بجرنگ دل قائم کرنے کا مشورہ خود اشوک سنگھل نے دیا اور وہ
ان کی توقعات پر پورا اترا۔ اسی بجرنگ دل کے سہارے سنگھ نے کرناٹک میں قدم
جمائے اور بی جے پی اقتدار پر فائز ہوسکی آخر وہ اس قدر بددل کیوں ہوگیا
کہ اس نے سنگھ کو لات ماردی ۔ اپنے پریوار کے لوگوں کو متحد رکھنے میں
ناکام ہونے والا ہندوتوا کا نظریہ دیگر مذاہب اور نظریات کے حامل شہریوں
میں اتحاد کیسے پیدا کرسکتا ہے؟ وہ لنگایت سماج کے لوگوں کو ہندو مت چھوڑنے
سے کیسے منع کرسکتے ہیں؟
دسمبر ۲۰۱۷ میں موہن بھاگوت نے اگرتلہ میں ایک انقلابی بیان دیاتھا کہ
’’ہندوستان میں مسلمان بھی ہندو ہے‘‘۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ ہندو مت اور
ہندوتوا دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ دو مختلف چیزیں ہیں
تو ان دونوں کےماننے والے بھی مختلف ہونے چاہییں۔ دونوں کےپیروکار ایک کیسے
ہوگئے؟ ہندو مت ہندوستان کا ایک قدیم مذہب ہے اور ہندوتوا سنگھ پریوار کا
ایک سیاسی نعرہ ہے اس لیے بہت سارے سمجھدار سناتنی ہندو بھی ہندوتوا کو
نہیں مانتے لیکن اس سے آگے بڑھ کر کرناٹک کا لنگایت سماج تو اپنے گلے سے
ہندو مت کا طوق بھی نکال پھینکنا چاہتا ہے۔ وہ لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں
کہ ’ہم ہندو نہیں ہیں‘ لیکن آرایس ایس کے سرسنگھ چالک کو یہ بات سنائی
نہیں دیتی ۔ مشیت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں چار سال قبل یہ بات کون سوچ سکتا
تھا کہ ’گھر واپسی ‘ کے ساتھ اقتدار سنبھالنے والی بی جے پی سرکار ’گھر سے
واپسی‘ کے ساتھ اقتدار سے سبکدوش ہوگی۔ کون جانے کہ ایسا ہوگا بھی نہیں ؟
لیکن اگر یہ پھر سے منتخب ہوگئی تو ہندو سماج کے اندرسے نہ جانے کس کو کس
کو باہر نکال کر جائے گی؟ |