حکومت کی طرف سے وقتاً فوقتاً پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ
کر دیا جاتا ہے۔ نیا سال شروع ہونے کے بعد سے اب تک وزارت پیٹرولیم
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو بار اضافہ کرچکی ہے۔ پہلے یکم جنوری کو
حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 4 روپے 6 پیسے فی لیٹر، ڈیزل کی قیمت میں 3
روپے 96 پیسے فی لیٹر، لائٹ اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 6 روپے 25 پیسے فی لیٹر،
جب کہ مٹی کے تیل میں 6 روپے 79 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔ اس کے بعد یکم
فروری کو بھی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور
پیٹرول کی فی لیٹرقیمت میں 2 روپے 98 پیسے، ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں پانچ
روپے92 پیسے، مٹی کے تیل کی قیمت پانچ روپے94پیسے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل کی
فی لیٹرقیمت میں پانچ روپے 93 پیسے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد پیٹرول کی قیمت
84 روپے51 پیسے فی لیٹر ہوگی، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 64 روپے 30 پیسے، ہائی
اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 95 روپے 83 پیسے جب کہ مٹی کے تیل کی قیمت70 روپے 26
پیسے فی لیٹر ہوگئی۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے اور مقامی
منڈی میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تین سال
کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ ڈیزل کی قیمت نومبر 2014 سے اب تک فی لیٹر
100 روپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
اضافے کے بعد ملک بھر میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات تمام اشیاء کی قیمتوں پر
پڑتے ہیں اور ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت وقتاً فوقتاً
پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ ستمبر 2017ء سے فروری 2018ء تک
گزشتہ چھ ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات میں 70 روپے سے 85 روپے فی لٹر تک
تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں بھی مسلسل اضافہ
ہو رہا ہے۔ وزارت خزانہ نے عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
کمی کے باوجود پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کو اگست 2017ء میں تقریباً 70 روپے
فی لٹر پر برقرار رکھا۔ اگست 2017ء میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)
نے اگست کے مہینے کے لیے پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب
3.67 روپے اور 5.07 روپے فی لٹر کم کرنے کی سفارش کی تھی، لیکن حکومت نے
عوام کو فائدہ دینے کی بجائے قیمتوں کو برقرار رکھا۔
اگرچہ عالمی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمتیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن حکام ٹیکس
کی شرح جو خطے میں سب سے بلند ہے، میں کمی کر کے نرخوں کو برقرار رکھ سکتے
ہیں۔17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے نرخ کی بجائے اس وقت حکومت ہائی سپیڈ ڈیزل
پر 31 فیصد جی ایس ٹی اور دیگر پٹرولیم مصنوعات بشمول پٹرول، مٹی کے تیل
اور ایل ڈی او پر 17 فیصد جی ایس ٹی وصول کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت پٹرولیم
مصنوعات پر 7 اقسام کے ٹیکس وصول کرتی ہے، اس سلسلے میں سرکاری دستاویزات
سے حاصل معلومات کے مطابق پیٹرول پر 34.24روپے، ڈیزل پر40.74روپے، لائٹ
ڈیزل پر 9.9 روپے اور مٹی کے تیل پر 13.86 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جاتا
ہے۔ دستاویز ات کے مطابق ڈیزل کی ایکس ریفائنری قیمت 55 روپے 9 پیسے ہے، جب
کہ اِس وقت صارفین کے لیے ڈیزل کی قیمت 95 روپے 83 پیسے مقرر ہے۔ اس طرح فی
لیٹر ڈیزل پر حکومت صارفین سے 40 روپے 74 پیسے ٹیکسز وصول کررہی ہے، یعنی
ڈیزل کے ہر لیٹر پر عوام سے 74 فیصد ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ لائٹ ڈیزل کی
ایکس ریفائنری قیمت 54 روپے 40 پیسے ہے، جب کہ اِس وقت صارفین کے لیے لائٹ
ڈیزل کی قیمت 64 روپے30 پیسے مقرر ہے۔ اس طرح فی لیٹر لائٹ ڈیزل پر حکومت
صارفین سے 9 روپے9 پیسے ٹیکسز وصول کررہی ہے۔ پیٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت
50 روپے 27 پیسے فی لیٹر ہے، جب کہ صارفین کے لیے پیٹرول کی موجودہ قیمت 84
روپے 51 پیسے ہے۔ اس طرح ایک لیٹر پیٹرول پر حکومتی ٹیکسزکی شرح 34 روپے 24
پیسے فی لیٹر ہے۔ یعنی پیٹرول کی مد میں بھی حکومت اس کی اصل قیمت پر 68
فیصد ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ دستاویزات کے مطابق مٹی کے تیل کی ایکس ریفائنری
قیمت 56 روپے 4 پیسے ہے، جب کہ اِس وقت صارفین کے لیے مٹی کے تیل کی قیمت
70 روپے 26 پیسے مقرر ہے۔ اس طرح مٹی کے تیل پر حکومت صارفین سے 13 روپے 86
پیسے ٹیکس وصول کررہی ہے۔ دستاویزات کے مطابق حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر
کسٹم ڈیوٹی، ان لینڈ فریٹ مارجن، او ایم سی ز مارجن، ڈیلروں کا کمیشن،
پیٹرولیم نیوی اور جی ایس ٹی ٹیکسز وصول کرتی ہے۔ حکومت کی جانب سے پیٹرول
پر 34.24روپے، ڈیزل پر 40.74روپے، لائٹ ڈیزل پر 9.9 روپے اور مٹی کے تیل پر
13.86روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے جو لوگ ٹیکس دے
رہے ہیں، ان پر ہی مختلف قسم کے ٹیکسز کا بوجھ ڈالنا کسی طور بھی ٹھیک نہیں
ہے، حکومت کو ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا چاہیے، تاکہ نئے لوگوں کو ٹیکس دائرے
میں لایا جائے اور موجودہ ٹیکس دہندگان کے بوجھ میں کمی کی جائے، تاکہ ٹیکس
دہندگان کی حوصلہ افزائی ہو اور نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں داخل ہو سکیں۔ اس وقت
آبادی کا تین فیصد حصہ موجودہ سیلز ٹیکس کی شرح میں حصہ ڈال رہا ہے، جو کہ
قطعاً ناکافی ہے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے، ٹیکس بیس کو نہ بڑھایا جائے۔ جو
دے رہے ہیں ان کی گردن کو مزید دبایا جا رہا ہے۔ جو سراسر ناانصافی
ہے۔پیٹرولیم مصنوعات پر عاید ٹیکسز کو ختم کرکے اس کی اصل قیمت پر صارفین
تک پہنچانا چاہیے۔
موجودہ حکومت نے اپنے دور اقتدار میں صرف تیل مصنوعات کی قیمتوں میں رد
وبدل کرکے 300 ارب روپے سے زاید کی رقم غریبوں کی جیبوں سے نکال لی ہے۔
حکومت ہر ماہ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں نظر ثانی اور قیمتوں کا رجحان
عام آدمی کو ریلیف دینے کی بجائے ان میں اضافہ کیا اور اس کا بوجھ عام آدمی
پر پڑا۔ موجودہ حکومت نے 18 دفعہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔
توانائی کے شعبے کو بہتر بنانے کے حکومت کے تمام دعووں کے باوجود، اس شعبے
میں بہت کم بہتری آئی ہے اور اس وجہ سے لوڈشیڈنگ اور تیل کی مصنوعات کی
قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے قومی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ پٹرولیم کی
قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے نقصانات جی ڈی پی کا اہم حصہ کھا رہے ہیں اور
قومی معیشت خسارے کا شکار ہے۔ جس سے قومی معیشت کو سالانہ 15 ارب سے زاید
کا نقصان ہو رہا ہے۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں تبدیلی کی وجہ سے حکومت ہر
مہینے صارفین اور مینوفیکچررز کو مزید مسائل میں سے دوچار کر رہی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے معیشت
کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ حکومت صنعت اور صارفین کے فائدہ کے لیے بجلی اور
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرنے میں کوئی اہم اقدمات نہیں کر رہی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ایک ایسا عنصر ہے جو تمام اشیاء کی قیمتوں میں
اضافے اور پیداوار کی لاگت میں اضافے کا بڑا ذریعہ ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کے
دا موں میں ہو نے والا اضافہ براہ راست عوام کو متاثر کرتا ہے۔ ایک زنجیر
کی طرح، یکے بعد دیگرے پیٹرول کی قیمتوں کے اضافے سے پہلے نقل و حمل کے
ذرائع یعنی کار، بس، موٹر سائیکل وغیرہ پر اثر پڑتا ہے۔ بسوں کے اور
ٹیکسیوں کے کرائے میں اضافہ ہوتا ہے، پھر مال بردار گاڑیوں کے کرائے بڑھتے
ہیں جس سے بازار میں گھریلو ضروریات، پھل سبزی وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ
اور اس طرح جنگل کی آگ کی طرح ہر چیز مہنگائی کی لپیٹ میں گھر جاتی ہے۔
پاکستان میں حکومت کسی کی بھی ہو سزا عوام کو ہی ملتی ہے۔عوام ابھی سے
مایوسی اور بے بسی کا شکار ہیں، کیونکہ مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا
ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں 5سالہ منصوبہ بندی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ معیشت کو
حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اشیائے
ضرور یہ کی قیمتیں سارا سال بڑھتی رہتی ہیں اور ان میں پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتیں بھی شامل ہیں۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت پٹرولیم
مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ صارفین پر کم ڈال رہی ہے، تاہم وہ اس
حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ فی لیٹر پٹرول کی اصل قیمت پر اس سے دگنے ٹیکس
اور ڈیوٹیاں عاید ہیں، جن کی وجہ سے عام آدمی شدید متاثر ہو رہا ہے۔ دوسال
قبل عالمی منڈی میں پیٹرول مصنوعات کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح پر رہیں،
تاہم اس کے فوائد براہ راست پاکستانی صارفین کو حکومت نے منتقل نہیں کیے،
نہ ہی ناروا ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی طرف توجہ دی گئی۔ وزیر اعظم کو چاہیے
کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو اعتدال پر لائیں اور ہرماہ بعد اضافے
کے رجحان کو ختم کریں۔ ورنہ ان اقدامات کی وجہ سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے
عوام میں مزید نفرت پیدا ہوگی۔ جس کا اثر عام انتخابات میں مرکز میں
برسراقتدار جماعت کے ووٹوں پر پڑے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اپنے
اقتدار کے آخری برس عوام کو ریلیف دیتی، ان کو مہنگائی سے بچانے کے لیے
اصلاحاتی پروگرام لاتی۔ پٹرولیم نرخوں میں اضافہ کا لامحالہ اثر ضروریات
زندگی کی اشیاء پر پڑتا ہے، جو پہلے ہی عوام کی دسترس سے دور ہو چکی ہیں۔
اب حکومت کے اس اقدام سے عوام کا غضبناک ہونا ایک فطری عمل ہے، اس لیے
حکومت کو الیکشن میں ان کے جوابی ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ |