یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا، اس سے قبل بھی اپنے
حکمران اپنے ہی زیر نگین علاقے میں رونما ہونے والی بدعنوانیوں اور
کمزوریوں کا رونا روتے رہے ہیں۔ اپنی حکمرانی کے تحت چلنے والے اداروں کی
خامیاں یوں بیان کرتے ہیں، کہ باتوں پر اپوزیشن لیڈر کا گمان ہوتا ہے، یا
یوں جانئے کہ اگر نام کے بغیر بیانات کو تحریری شکل دی جائے تو کوئی اندازہ
نہیں لگا سکتا کہ یہ اپوزیشن لیڈر کا بیان ہے یا پھر خود وزیراعظم نے یہ
فرمان جاری کیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو اگرچہ وزارتِ عظمیٰ حادثاتی طور پر
ہی ملی۔ جب میاں نواز شریف کو عدالتِ عظمیٰ نے نااہل قرار دے دیا تو پارٹی
مالکان کو فکر لاحق ہوئی کہ آخر کسے اپنا گدی نشین بنایا جائے۔ فکر اس لئے
کہ انہوں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ مسلم لیگ ن کی کامیابی کی صورت میں ان
کے علاوہ بھی کوئی آدمی آگے آسکتا ہے۔ ایسے میں بہت سے پارٹی رہنما شاہد
خاقان سے نامور، بہتر اور معروف تھے، مگر میاں صاحبان کا اپنا میرٹ ہے، اس
پر ہر کوئی پورا نہیں اترسکتا۔ بہت غوروخوض کے بعد انہوں نے شاہد عباسی کو
نامزد کیا، ظاہر ہے اکثریت کے بل بوتے پر کامیابی یقینی تھی۔ شروع میں تو
عباسی صاحب کافی پریشانی میں تھے، کہ کوئی بھی پالیسی بیان دینے سے قبل
انہیں سوچنا پڑتا تھا کہ میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں، کہیں صاحب ناراض ہی
نہ ہوجائیں، ان کی رضا نہ جانے کیا ہوگی؟ تاہم آہستہ آہستہ کچھ خود اعتمادی
آتی گئی، کچھ میاں صاحب کے پالیسی بیان اور موڈ ماحول کو دیکھ کر جواب بنتے
گئے۔
چیئرمین سینیٹ کا معاملہ تو پرانا ہوتا جارہا تھا، نہ جانے اتنے دن گزرنے
کے بعد وزیراعظم کیسے غصے میں آگئے؟ شکست وغیرہ دل سے قبول نہ بھی ہو تو
صبر سا آہی جاتا ہے، اگر صبر نہ بھی آئے تو وقت گزر ہی جاتا ہے۔ مگر
وزیراعظم عباسی نے جو اعتراضات چیئرمین سینیٹ پر کئے ہیں، وہ قابلِ غور ہیں،
ان پر عمل بلکہ ایکشن کی ضرورت ہے۔ ان کے الزامات نظر انداز کرنے کے لائق
نہیں، مثلاً یہ کہ اس مقصد کے لئے ووٹ خریدے گئے۔ اگر ووٹ خریدے گئے ، تو
کس نے خریدے؟ کتنے میں خریدے؟ بکاؤ مال کون بنا؟ ان سوالوں کا جواب حاصل
کرنا حکومت کا فرض ہے، حکومت کے پاس ’’ذرائع ‘‘ ہیں، حکومت کے پاس وسائل
ہیں، ایجنسیاں ہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ حکومت صرف الزامات پر ہی اکتفا کرنا
چاہتی ہے۔ جس روز سینیٹ کا الیکشن ہوا، شور مچ گیا کہ پنجاب اسمبلی سے
چوہدری سرور کیسے کامیاب ہوگئے، وہ جواب دیں کہ انہوں نے کیسے ووٹ خریدے؟
جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ممبران نے میڈیا میں شور مچایا کہ فروخت ہونے
والے ان ارکان کو پکڑا جائے، ان کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے نکالا جائے،
ان کا احتساب کیا جائے۔ مگر جس سے مطالبہ تھا ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی،
وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ کیوں ہوتے کہ ان کی اپنی صفوں میں مشاہد حسین سید
جیسے دانشور پہلی ترجیح پر کامیاب ہو رہے تھے۔ یہی کچھ تحریک انصاف کے ساتھ
خیبر میں ہوا، کہ اُن کے لیڈر نے بیان جاری کیا کہ چار چار کروڑ میں ممبرانِ
اسمبلی فروخت ہوئے۔ تحقیق کون کرے گا؟
عام لوگ تو ایوانِ بالا کے معزز ممبران کے انتخاب کے موقع پر خرید وفروخت
جیسے الزامات سے پریشان تھے، کہ مقننہ کا اعلیٰ ترین ادارہ گھوڑا منڈی بنا
ہوا ہے،(2015ء کے سینیٹ کے الیکشن میں بھی یہی کچھ ہوا تھا) مگر اب تو عوام
کے ساتھ تمام پارٹیوں کے قائدین بھی یہی الزام لگا رہے ہیں۔ اور تو اور اب
تو وزیراعظم پاکستان بھی اپنے دل کی بات زبان پر لے آئے ہیں، اس الیکشن کو
پاکستان کی بے عزتی قرار دیا ہے، غیر متفقہ اور جانبدار چیئرمین لانے کا
مشور ہ دیا ہے، لوگوں کے بے نقاب ہونے کی بات کی ہے، زرداری کے منڈی لگانے
کا انکشاف کیا ہے۔ ویسے جمہوریت میں اکثریت کا نمائندہ سامنے آتا ہے یا
متفقہ امیدوار؟ جناب! اگر یہ سب کچھ ہوا ہے، (زبانِ خلق بھی یہی ہے) تو
خریداروں کوکون پکڑے گا؟ بِکنے والے گھوڑوں کی نکیل کون تھامے گا؟ تحقیق
کون کرے گا؟ جناب یہ کام ہر پارٹی نے کیا ہے،(معمولی استثنا کے ساتھ)
تقریباً ہر پارٹی کے لوگ ہی اس خرید وفروخت میں شامل ہیں ، الیکشن کمیشن کا
فرض ہے کہ وہ اس دھاندلی کا سدِباب کرے، حکومتیں خود معاملات کو شفاف بنانے
کے لئے تحقیقات کریں، الزام لگا کر گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنا اور کارروائیاں
ڈال کر معاملات کو دبانا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ |