اپنے بنیادی حقوق اوراپنی جائززادی کی جنگ لڑنے والاکوئی
ایک نوجوان بھی شہادت کارتبہ پا لے تواسے دعائیں دیتے ہوئے اوراپنی عقیدت
کااظہار کرتے ہوئے ہم اپنے آپ سے بھی بیگانے ہوجاتے ہیں۔اس کی عظمت
پراپناسب کچھ قربان کردینے کوجی چاہتاہے اور ہمارے مقتدرسیاسی رہنماء بھی
عوام میں اپنا قدبڑھانے کیلئے مختلف تقریبات میں اس کاتذکرہ کرنے سے نہیں
چوکتے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ نہ صرف دھیماپڑ جاتا ہے بلکہ
یادرفتگاں کا ایک حصہ بن کرکسی فائل کی نذرہو جاتاہے مگرجہاں ایک دویا
چارپانچ نہیں بلکہ تھوک کے حساب سے جانیں نچھاور کی جارہی ہوںاوران شہداء
کودفن کرنے کیلئے قبرستان بھی کم پڑجاتے ہوں توانہیں آسودۂ خاک کرنے کیلئے
نئی اجتماعی قبریں بناناپڑتی ہوں توہرباضمیرانسان بھی بالآخرچیخ اٹھتاہے۔
کشمیرجنت نظیرمیں گاہے گاہے اجتماعی قبریں دریافت ہوتی رہتی ہیں جوبھارت کی
سفاک فوج کے بہیمانہ مظالم کی یادیں تازہ کرتی رہتی ہیں بلکہ اب توعالمی
پریس میں بھی ان کا تذکرہ خوفناک الفاظ میں شروع ہوگیاہے۔حال ہی میں وہاں
ایک بارپھردوہزارسے زائداجتماعی قبریں برآمدہوئی ہیں۔یہ وہ حریت پسند
کشمیری نوجوان ہیں جنہیں بھارتی قابض فوجی اغواء کرکے کہیں دورجنگل میں
لیجاکرفرضی جھڑپ میں شہیدکرکے دفن کرادیتے ہیں اورخوداس ''کارنامے''پر
ترقیاں اور تمغے حاصل کرتے رہتے ہیں۔اس طرح وادیٔ جنت نظیرکے سینے پرایک
اور ''اجتماعی قبر''تعمیرہوجاتی ہے۔جن ماؤں کے یہ لختِ جگر''لاپتہ'' کرکے
مستقل غم واندوہ کاسامان بنائے جاتے ہیں،وہ اپنے بھائی،اپنے شوہریا قریبی
رشتہ دارکوساتھ لیکرپولیس تھانوں اورفوجی کیمپوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں
لیکن سالہاسال تک انہیں اس بات کی خبرنہیں ہوپاتی کہ وہ زندہ بھی ہیں یااس
دنیاسے رخصت ہو چکے (کردیئے گئے)ہیں۔ اس سے بڑاظلم اورکیاہو گاکہ اب
ہرخاندان میں کوئی نہ کوئی اس طرح لاپتہ ہے اورگویاپوراکشمیراپنی آنکھوں
میں یاس اورامیدکے ساتھ زندہ درگور کر دیا گیاہے ۔ اب اس ظالمانہ صورتحال
میں ان گھروں میں باقی نوجوان بھی فرط انتقام میں جاری شہادت گاہ میں سج
دھج سے اترجاتے ہیں۔
بوسنیااورکوسووکی طرح مقبوضہ کشمیرمیں بھی جگہ جگہ اجتماعی قبریں موجودہیں
جن کاگاہے بگاہے انکشاف ہوتارہتاہے ۔ بھارتی فورسزکی جانب سے اب تک ۱۲ہزارنوجوان
نام نہادسرچ آپریشن کے دوران گھروں،دفاتریادیگر مقامات سے آتے جاتے راستوں
سے اغواء کرلئے گئے جن کاآج تک کوئی سراغ نہیں لگایاجاسکااوراس امرکاپختہ
یقین ظاہرکیاجارہاہے کہ یہ سب لوگ اجتماعی قبروں میں دفن کئے جاچکے
ہیں۔کشمیریوں کی جانب سے بارہایہ مطالبہ کیاگیا ہے کہ ان اجتماعی قبروں میں
مدفون شہداء کاڈی این اے ٹیسٹ کیاجائے تاکہ پتہ چل سکے کہ یہاں کن کشمیریوں
کودفن کیا گیاہے۔
بھارت کے ظلم وستم نے کشمیریوں کی زندگی میں زہربھردیاہے اورآج وہاں سب ے
زیادہ خواتین اوربچے متاثرہیں۔ درحقیقت تحریک آزادی کوکچلنے کیلئے بھارت نے
کشمیری خواتین پرظلم وستم کوجنگی حربے اورہتھیاروں کے طورپر استعما ل
کیاہے۔انہیں مردوں کے سامنے ٹارچر کیاجاتاہے، ان کی عصمت دری کی جاتی ہے
تاکہ کشمیری مردمجبورہوکر خاموش ہو جائیں لیکن کشمیری خواتین کی عزیمت کی
داددینی پڑتی ہے کہ وہ ہرقسم کے ظلم وستم کے سامنے ابھی تک سینہ
سپرہیںاورمردوں کے شانہ بشانہ ان کوجہاداورحصول آزادی کی جدوجہد پرآمادہ
کرتی رہتی ہیں اوران میں کسی قسم کی کمزوری اوراضمحلال پیدانہیں ہونے
دیا۔اگرچہ آج مقبوضہ کشمیرکی خواتین مصائب کا شکارہیں ۔طویل غلامی نے ان پر
گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ گھرکے سربراہ یا کمانے والے فردکے متاثر ہونے سے
پوراگھرانامشکلات کاشکارہوجاتاہے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی
ہیں۔مقبوضہ کشمیرکی دگرگوں حالات پر مرتب کی گئی حالیہ رپورٹوں سے پتہ
چلتاہے کہ مقبوضہ کشمیرباشندے ان پریشانیوں سے ذہنی دباؤ کاشکارہورہے
ہیں۔نتیجتاً خواتین سب سے زیادہ ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ان حالات
میں کشمیری سول سوسائٹی کشمیری خواتین کے مسائل کومہم کے طورپراجاگر کرنا
شروع کیاہے ایسی ہی ایک کوشش"ہاف وڈّوہاف وائف'' نامی رپورٹ میں کی گئی
ہے۔یہ ایسی رپورٹ ہے جوکشمیرکی بیواؤں ، کنواریوں اورشادی شدہ خواتین
کےمسائل پر بحث کرتی ہے۔اس رپوٹ میں صرف عومی خواتین سے رائے لی گئی ہے۔
کسی بھی مقامی،قومی یابین الاقوامی شہرت کے سیاست دان سے رائے نہیں لی گئی۔
یہ رپورٹ"ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈی ایپیرڈسنز"نے مرتب کی ہے جوجموں
وکشمیرکولیشن آف سوسائٹی کاممبرہے۔
ہارورڈیونیورسٹی فیلونے اس میں خصوصی مددکی ہے ۔اس میں ''ہاف وڈّوہاف
وائف''کی اصطلاح ان کواتین کیلئے استعمال کی گئی ہے جن کے شوہر خفیہ
ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ ہوچکے ہیں اورابھی تک ان کے بارے میں حتمی
طورپرنہیں کہا جاسکتاکہ وہ زندہ بھی ہیں یاماردیئے گئے ہیں۔لاپتہ کشمیریوں
کی مائیں بہنیں اوربیویاں ایک ہمہ گیرسیاسی تنظیم اے پی ڈی پی کے تحت منظم
ہورہی ہیں تاکہ امن وانصاف کیلئے جدوجہدکرسکیں۔
اس تنظیم نے مقبوضہ کشمیرمیں کئی مقامات پراجتماعی قبروں کی نشاندہی کی
ہیں۔یہ تنظیم اپنی مددآپ کے تحت کام کرتی ہے۔وہ خواتین جوشوہروں کی گمشدگی
کے برسہابرس گزرنے کے بعدبھی ان کی پنشن حاصل نہیں کرسکتیں (کیونکہ وہ ڈیتھ
سرٹفکیٹ پیش نہیں کرسکتیں)ان کے معاملات عدالتوں میں اٹھائے ہیں۔اسی طرح
ایسی خواتین کی دوبارہ شادی یامعاش کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دی
ہے۔رپورٹ میں مختلف خواتین کے حالات کاحوالہ بھی دیاگیا ۔ مثال کے
طورپرسرینگرکی زارانے بتایاکہ نومبر۲۰۱۰ء میں وہ شوہرکی گمشدگی کے آٹھ برس
انتظارکے بعدپولیس اسٹیشن جاپہنچی اورفریادکی کہ اسے صرف ایک مرتبہ اس کے
شوہرسے ملادیاجائے ۔اگروہ زندہ ہے توصرف اسے دکھاہی دیں اوراگروہ مرچکاہے
تواس کی قبرکاہی پتہ بتادیں۔میں جب بھی کسی پولیس اسٹیشن گئی یافوج کے
اہلکارکے پاس فریادلیکر پہنچی تواس نے میری جانب بھوکی نگاہوں سے ہی
دیکھاگویامیں ان کیلئے ترنوالۂ ہوں یا شائدمیں اسے بتانے آئی ہوں کہ
میراشوہرپچھلے آٹھ سال سے لاپتہ ہے۔آئی جی کاروّئی قدرے مشفقانہ محسو س
ہواتھا،وہ بولا:کل اس کے کپڑے لے آنا ، ملاقات کرادوں گا اور اس کل کے آنے
میں پوراسال بیت گیا۔جب میں نے اسے یاددلایاتووہ دہاڑتے ہوئے بولا:میں اسے
کہاں سے لاؤں؟آسمان سے؟
سرینگرسے ایک اورلاپتہ کشمیری کی نیم بیوہ رینہ بتاتی ہے:میں نے اپنی تمام
پونجی اورسارااثاثہ اپنے لاپتہ شوہرکی تلاش میں لگادیا۔ہمیں دلاسے دینے
والے ایک شخص نے آدھی رات کوہمارے گھرکے چکرلگانے شروع کردیئے۔وہ اصرار
کرنے لگاکہ وہ میری سولہ سالہ بیٹی سے بات کرے گا۔تب میں نے قبول کرلیاکہ
اب اس معاملہ کاباب بندہوچکاہے، میں شوہرکے بعدبیٹی کوکھونے کا خطرہ مول
نہیں لے سکتی۔پاکالن کی روبینہ اپنے شوہرکی گمشدگی کے بعداپنی مشکلات کاحل
چاہتی ہے:ہرکوئی ہماری داستان سننے آجاتاہے۔میں نے آٹھ برس قبل شوہرکے
کھوجانے پراپنی بیٹیوں کی پرورش کی ،اب مجھے پرسہ نہیں بلکہ اپنی بیٹیوں
کیلئے ملازمت درکارہے۔میں تنہارہ کربھی اپنی بیٹیوں کوتعلیم کے زیورسے
آراستہ کیاتاکہ یہ اپنی زندگی گزارنے کیلئے کماکر کھاسکیں،ہمیں بھیک نہیں
ملازمت چاہئے لیکن ہوس کے پجاری ملازمت دلانے کی جوقیمت مانگتے ہیں وہ زبان
پرنہیں لا سکتی۔
سرینگرسے گل کہتی ہیں:سرینگرکی سڑکوں پرآپ کوبرقع پہنے بھیک مانگتی خواتین
نظرآئیں گی۔انہوں نے مذہبی حکم کی خاطربرقع نہیں پہنا ،ان میں کتنی ہی نیم
بیوہ خواتین ہیں جوپہچانےجانے کے خوف سے برقع پہن کرنکلتی ہیں،وہ مجبور
ہیں،مانگیں نہ تواپنے بچوں کی کفالت کیسے کریں۔کتنی ہی خواتین کو سسرال کے
طعنے سننے پڑتے ہیں کہ کہ ان کی نحوست کی وجہ سے بیٹاکھوگیا۔ کپواڑہ کے
قصبے لولاب کی ثمینہ کہتی ہیں:میں سارادن سڑکوں پربھیک مانگتی ہوں اورشام
کوپڑوس میں برتن دھوتی ہوں،تب کہیں اس قابل ہوتی ہوں کہ مکان کاکرایہ
اداکرسکوں۔میں نے اپنے مالک مکان تک کونہیں بتایاکہ میراشوہرلاپتہ ہے۔میں
اسے ہمیشہ یہی کہتی ہوں کہ وہ جموں میں ملازمت کرتاہے۔ |