ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ دماغوں کی
کمی نہیں، یہاں ایک سے ایک ذہین موجود ہے، ایک سے ایک منصوبہ ساز اسے اللہ
تعالیٰ نے عطا کیا ہواہے، بے تحاشا انسانی وسائل سے اسے اللہ تعالیٰ نے
نوازا ہوا ہے اور اگر یہ سب انسانی وسائل درست طریقے سے استعمال ہو جائیں
تو ہم اگر چند سالوں میں سُپر پاور نہیں بن سکتے تو کم از کم ان کے چنگل سے
تو نکل سکتے ہیں لیکن دوسری طرف ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں خلوص
نہیں۔ حب الوطنی کے دعوے تو بہت ہیں عملی طور پر یہ جنس نایاب ہوتی جا رہی
ہے یوں تو ہر شعبہء زندگی اس بیماری سے بُری طرح متاثر ہے لیکن چونکہ سب سے
زیادہ کسی بھی معاشرے کے رہنماؤں کا رویہ اور عمل اُس معاشرے پر اثر انداز
ہوتا ہے لہٰذا ہمارے رہنما اور اہلیانِ سیاست کا طرز عمل ہمارے ملک اور
معاشرے کو جس بُری طرح متاثر کر رہا ہے وہی ہے جو ہمیں آگے بڑھنے سے روک
رہا ہے ۔ کیونکہ یہی لوگ ہیں جو ملک کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن جس طرح
ان میں رشوت، بدعنوانی اور کرپشن کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں وہ عام آدمی
کی سمجھ سے بھی بالاتر ہیں۔ آف شور کمپنی کا نام بھی ایک عام آدمی کے لیے
قابل فہم نہ تھا لیکن ہمارے محترم سیاست دان اس میدان کے ماہر کھلاڑی نکلے
اور ان تجربہ کار لوگوں کے نام کئی کئی آف شور کمپنیاں نکل آئیں۔ تختِ
حکومت پر براجمان محمدنواز شریف اور اہلخانہ کی سولہ ایسی کمپنیوں کے تذکرے
ہونے لگے۔ یہ خاندان ایک انتہائی عام سے بزنس سے چل کر دو بڑی بڑی کمپنیوں
کا مالک کیسے بنا، اتفاق گروپ اور شریف گروپ میں 42 انڈسٹریل یونٹس کیسے ان
کی ملکیت بنے جن میں شوگرملز اور سٹیل ملز جیسی اہم اور کماؤ صنعتیں شامل
ہیں۔ حدیبیہ پیپر ملز میں اس خاندان نے اپنا کالا دھن سفید کیا، جعلی ناموں
کے اکاونٹس سے اُس وقت پیسے نکال کر اس مِل میں ڈالے گئے جب ایٹمی دھماکوں
کے بعد یہ اکاونٹس فریز کیے گئے تھے یعنی ہر ہر طریقے سے پیسے بنائے اور
بڑھائے گئے۔ سترہ سال پہلے رجسٹر ہونے والے اس کیس کا فیصلہ حکومت میں آتے
ہی 2014 میں اپنے حق میں کروایا گیا یہ عدلیہ کا وہ کارنامہ ہے جس پر شریف
خاندان اس سے خوش ہے اور جب فیصلے اس کے خلاف یا حقیقت پر مبنی آرہے ہیں تو
عدلیہ سے بڑا مجرم کوئی نہیں۔ یہی رویہ فوج کے خلاف بھی رکھا جاتا ہے جب یہ
سارے فوج کی نرسری میں پھل پھول رہے تھے تو فوج عظیم تھی لیکن جب فوج نے
جمہوری اقدار کی حقیقی حفاظت شروع کی تو اس خاندان کا فوج سے وہ اختلاف
شروع ہوا اور وہ زبان استعمال ہونے لگی جو دشمن فوج کے خلاف ہوتی ہے یا جو
دشمن ملک ہماری فوج کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ اس رویے کے خلاف تو اب
پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں چوہدری نثار نے اس طرزِعمل کے
خلاف پچھلے دنوں اپنی پریس کانفرنس میں حکمران خاندان خاص کر محمد نواز
شریف پر شدید نکتہ چینی کی اور کہا کہ وہ قومی اداروں سے تصادم کر رہے ہیں
جس سے انہیں احتراز کرنا چاہیے۔ اگر یہ خاندان اپنی دولت جائز ذرائع سے
بناتا، پاکستان میں لگاتا اور ٹیکس دیتا تو پھر بھی قابل قبول تھا اور کسی
کو اعتراز نہ ہوتا لیکن ان کی سٹیل ملیں سعودی عرب اور شوگر ملز کینیا اور
آف شور کمپنیاں پانامہ میں ہوں اور وہ بھی پاکستان کے قانونی تقاضوں کو
پورا کیے بغیر ہوں تو پھر احتجاج اور شکوہ شکایت بالکل بجا ہے۔ یہاں اپنا
پیسہ عوام پر تو کیا خرچ ہو عوام کا پیسہ مبینہ طور پر رائیونڈ کے محلات
بنانے پر خرچ ہوتا ہے اگر وہاں تک سڑک بنتی ہے تو کسی پس ماندہ آبادی تک
کیوں نہیں بنتی پُر تعیش رائیونڈ تو صرف ایک خاندان کی رہائش گاہ ہے۔
آشیانہ سکیم اگر ایمانداری سے مکمل ہوتی تو ہزاروں لوگوں کو سہولت ہوتی اور
سستی ہوتی لیکن اس میں بھی اپنی جیب گرم کی گئی اور اپنے من پسند لوگوں کی
بھی کی گئی، من پسند بھی وہ لوگ ہیں جو ان کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں احد
چیمہ کو اگر کا عہدہ دیا گیا تو عطاالحق قاسمی پی ٹی وی کے چیر مین بنے
،سعید احمد نیشنل بینک کے صدر، صدیق الفاروق بھی گھر کا بندہ ہے لہٰذا
متروکہ اوقاف بورڈ کے چیئر مین لگ گئے، فہرست لمبی ہے لہٰذا تفصیل میں نہیں
جاؤں گی لیکن خلاصہ یہ ہے کہ یہ سارے پسندیدہ اور وفادار لوگ ہیں اور حقِ
وفاداری خوب نبھاتے ہیں لہٰذا خوب پاتے ہیں۔ کرپشن، پسندیدگی اور دادودہش
کی یہ ساری کہانی اس ایک خاندان تک محدود نہیں اگر ملک کی بادشاہت کے حقدار
یہ ہیں تو ان کے ساتھ کچھ حصہ دار اور بھی ہیں بس بات اتنی سی ہے کہ اِن کی
باریاں لگتی ہیں آج ایک تو کل دوسرا دہائیوں سے یہ چند خاندان نسل در نسل
اس ملک اور قوم کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک نابغہ
روزگار شخصیت ضرورہوں گے لیکن کیا یہ خوبیاں ضروری ہیں کہ نسل در نسل منتقل
ہوں مزے کی بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے
نواسے اور حاکم علی زرداری کے پوتے بھی کیا نابغہ روزگار ہیں اور سونے پر
سہاگہ کہ اعتزاز احسن اورخورشید شاہ یعنی اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے
میدان کے ماہر کھلاڑی ہاتھ باندھے اپنے بیٹوں کی عمروں سے بھی کم کے اس
لڑکے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی کچی ذہنیت کے فیصلوں کی تائید میں
سرہلارہے ہوتے ہیں اور بعد میں اس کے ناپختہ فیصلوں اور حرکات کے لیے
توجیہات تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ شاید وجہ یہی ہے کہ سوئس بینکوں میں ان کے
اکاونٹس میں وہ رقم نہیں جو ان کے اس نو جوان ’’لیڈر‘‘ کے اکاونٹ میں ہیں۔
یہی حال مریم نواز کے سامنے کھڑے سر خیلوں کا ہوتا ہے یعنی زور ذہانت کا
نہیں پانامہ کی آف شور کمپنیوں اور سرے محلوں کا چلتا ہے۔ یہاں بھی میں
چوہدری نثار کو کریڈٹ دوگی کہ اُنہوں نے مریم نواز کی لیڈری ماننے سے انکار
کر دیا اُنہیں ضرور اپنی اور مریم نواز کی عمروں اور تجربے کا خیال آیا ہو
گا۔ اب ذرا باقی دوصوبوں میں آئیے بلوچستان میں تو بس آپ کا سردار اور نواب
ہونا کافی ہے ہاں فضل الر حمٰن صاحب نے بھی اپنی چالوں اور حیلوں سے اپنا
کچھ نہ کچھ زور بنا کر رکھا ہوتا ہے اور ان کا سب سے آزمودہ حربہ بس حکومت
کے ساتھ رہنا ہے اس کی ہر کرپشن پر اُسے سپورٹ کرنا ہے مجھے اپنے لہجے کی
تلخی کا احساس ہے لیکن مجھے اپنے ملک کی قسمت پر بھی رونا آتا ہے اگر یہ سب
لوگ اتنے ذہین اور فطین ہیں کہ اپنی بنا کر رکھ سکیں تو ملک و قوم کے لیے
کیوں کچھ نہیں کیا جاتا۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی خود کو درمیانے درجے
کے لوگوں کی جماعتیں کہتے ہیں لیکن یہ درمیانہ درجہ بھی عوام کی سوچ سے بہت
بلند تر ہے سراج الحق صاحب اتحاد میں کسی اور کے ہیں، سینٹر کسی اور کے
ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں کیسے؟ کیا وہ اتنے ہی مقبول ہیں خدا کی پناہ قوم
کے ساتھ نظریاتی سیاست کے نام پر بھونڈے مذاق کی انتہا ہے۔ ایم کیو ایم بھی
جب اپنے مسائل سے نکلے گی تو پھر اللہ تعالیٰ خیر کرے۔ خیبر پختونخوا میں
تبدیلی کے نعرے لگانے والے عمران خان کی کرپشن بھی اپنی منفرد طرز کی ہے
میں ان کی ذاتی زندگی پر نہیں جاوءں گی ہاں یہ ضرور یاد دہانی کراؤں گی کہ
لیڈر کی ذاتی زندگی نہیں ہوتی لہٰذا اُسے اُس پر تبصرہ سننے کے لیے ہر وقت
تیار رہنا چاہیے میں یہاں یہ ضرور یاد کراؤں گی کہ یہاں بھی ہر چیز بندر
بانٹ کے اُصول پر ہے عہدے مرضی پر تقسیم کیے جا رہے ہیں احتساب کمشن بغیر
سربراہ کے چل رہا ہے شاید کوئی ’’ مرضی‘‘ کا نہیں مل رہا۔ اقرباء پروری نے
تبدیلی کے نعرے کی دھجیاں اڑا دی ہیں شہروں کی چند سڑکوں کے علاوہ حالات
مخدوش ہیں نظر کرم صرف پشاور اور شاید ایک آدھ اور بڑے شہر پر ہے صحت اور
تعلیم میں کچھ ہی اقدامات کو کافی سمجھ لیا گیا اور انہیں بھی آگے نہیں
بڑھایا گیا۔ یہ تو تھے صرف چند اہلیان سیاست اور چند خاندان جن کا میں نے
تذ کرہ کیا ہے ورنہ یہاں چھوٹا لیڈر ہو یا بڑا سب ایک ہی راستے پر گامزن
ہیں یہ ملک اگر چل رہا ہے تو دعاؤں کا ہی اثر ہے۔ مجھے یہ ڈر اور خوف نہیں
خدانخواستہ یہ کل کو نہیں رہے گا یہ قائم رہے گا انشاء اللہ لیکن کیا اس کے
جسم ناتواں میں اتنا زور اور دم خم ہوگا کہ ان بد نیت اور مفاد پرستوں کے
لگائے زخم سہہ سکے ۔ خدا را اس زمین پر رحم کیجئے اپنے بزرگوں کی اس امانت
کی حفاظت کیجئے آپ کی آنے والی نسلیں اپنے ہاتھ پیر مار کر اپنے لیے کچھ کر
ہی لیں گی کما ہی لیں گی، سات پشتوں کی دولت کی فکر مت کیجئے یہ ملک خود
ایک دولت ہے اس کی قدر کیجئے اس کے احسانات کا بدلہ اتاریے اللہ تعالیٰ آپ
کے خلوص کے بدلے خود آپ کونوازے گا۔ |