آج ساجدہ بیگم کے خوشی کے مارے پاؤں زمین پر ٹک نہیں رہے
تھے. آج انہوں نے اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کا رشتہ ایک ہی گھر میں کیا
طے کر دیا تھا. زیادہ خوشی کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سمدھی ان کے رشتے کے
بهائی تهے اس طرح وہ نہ صرف ان کے رشتہ دار تھے بلکہ برادری بھی ایک تهی.
ساجدہ بیگم کے لئے ان کی برادری اللہ کا ایک انعام تهی. وہ ہمیشہ لوگوں میں
گردن اکڑا کر اپنی برادری کے حسبی نسبی ہونے کا ذکر فرماتیں بلکہ ان کے
مطابق ان کے آبا و اجداد کا تعلق ایک جید صحابی رضی تعالٰی عنہ سے تها .
آخر کار ان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے اپنی بڑی بہو کو فون ملایا جو کہ
برادری کی نہ ہونے کے باعث ان کی آنکھوں میں خار کی طرح کهٹکهتی تهی. ان کی
بہو نے ان کو خوشدلی سے مبارکباد دی مگر ہلکی زبان سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا
کہ یہ وٹے سٹے بعض دفعہ پریشانی کا موجب بهی بن جاتے ہیں جب کہ یہاں تو دو
کے بجائے ایک ہی گهر میں تین رشتے بیک وقت کئے جارہے ہیں. ان کی بہو ایک
پڑهی لکھی روشن خیال لڑکی تھی. اس لئے اس نے کوشش کی کہ وہ اپنی ساس کو اس
معاملے کی نزاکت کا احساس دلائے مگر اس کی ساس نے بڑی نخوت سے جواب دیا :
ہماری برادری کوئی ہلکی نہیں ہے. میرے سمدھی سعودی عرب میں سیٹ ہیں. میری
بیٹیاں بیاه کر سعودی عرب چلی جائنگی اور بہو گهر آجائے گی. تو پریشانی کی
کیا بات ہے؟ انهوں نے بہو کی بات پر توجہ دینے کے بجائے اس کو یہ سنایا کہ
ان کے باقی بچوں کو اپنی ہی برادری سے رشتہ مل گیا ہے اس لئے اب انهیں باہر
سے "گند" اٹھا کر لانے کی ضرورت نہیں پڑے گی. ان کی بڑی بہو یہ توہین آمیز
فقرے سن کر صبر کے گهونٹ پی کر خاموش ہوگئی. اس وقت ساجدہ بیگم اپنے آپ کو
فاتح محسوس کررہی تهیں.
انهوں نے شادیاں بڑے دهوم دهام سے کیں. شادی کے تقریبا ایک سال بعد ان کی
ایک بیٹی گهریلو ناچاقی اور اپنی تند مزاجی کے باعث طلاق کے کاغذات هاته
میں پکڑ کر گهر آگئی. ان کے اندر نفرت اور انا نے سر اٹھایا، انهوں نے اپنی
دوسری بیٹی کو بھی واپس آنے کا حکم دیا تاکہ وہ اپنی بہو کو بھی دهکے مار
کر گهر سے نکال سکیں. اس ایک سال میں ان کے بیٹے اور دوسری بیٹی کے گھر ایک
ایک بچہ ہو چکا تھا. مگر ساجدہ بیگم کو نفرت اور غصے کی آگ نے پاگل کیا ہوا
تھا. ان کی بہو اور دوسری بیٹی ان کے آگے ہاتھ پھیلا کر رحم کی بهیک مانگتی
رہیں مگر ان کی آنا ہارنا نہیں چاہتی تھی. وہ اس بات سے مکمل طور پر بے
پروا تهیں کہ ان کا بیٹا اور بیٹی اب خود بھی والدین بن گئے ہیں.
بیٹے کو انهوں نے رو کر دو باتیں کہیں :
بیٹا! بیویاں تو بہت مل جاتی ہیں مگر ماں صرف ایک ہوتی ہے. تجھ پر جنت حلال
نہیں ہوگئی اگر میں تیرے سے ناراض ہوگئی. "
بیٹے نے زرا پس و پیش کا مظاہرہ کیا تو انهوں نے منہ پر دوپٹہ رکھ کر زور
زور سے رونا شروع کردیا اور اس کو کہا :
"میں روز قیامت تجھے اپنا دودھ نہیں بخشونگی اگر تو نے میرا کہا نہ مانا."
چار و ناچار فرمانبردار بیٹے کو وہی قدم اٹھانا پڑا جس کے لئے ساجدہ بیگم
بے چین تهی.ان کے بہو کے جانے کی دیر تھی کہ ان کی دوسری بیٹی بھی لٹی پٹی
طلاق کے کاغذات ہاتھ میں لئے واپس آگئی.
یوں ایک غلط فیصلے اور ہٹ دھرمی، انا نے دو لوگوں کی طلاق کا تاوان چار
معصوم جانوں سے بھی لیا. کیا ایک گهر میں تین رشتے بیک وقت کرنا کوئی عقل
مندی ہے؟
ان وٹوں سٹوں میں اس حقیقت سے نظر کیوں چرا لی جاتی ہے کہ شادی بیاہ گڑیا
گڈے کا کهیل نہیں ہے. ایک گهر کے بگاڑ کا اثر بڑی آسانی سے دوسرے گهر تک
پہنچ جاتا ہے. کاش ہمارے بڑے تهوڑی سی وسیع الظرفی اور ٹھنڈے دماغ کا
مظاہرہ کریں تو بہت سے خانگی زندگی کے مسائل چٹکیوں میں حل ہوسکتے ہیں.
اللہ تعالٰی نے والدین کے بہت حقوق رکھے ہیں، لیکن ناجائز اطاعت کا حکم
نہیں دیا گیا ہے. اگر ماں باپ کی ضد کسی کی زندگی کا خراج مانگے تو ایسی
حکم عدولی کوئی گناہ نہیں ہے. |