سرما کے مُحرم میں سبیل کی بجائے گرما گرم چائے کی دیگ

یہ بہت پہلے ہمارے بچپن کا واقعہ ہے کہ ہم سردیوں کی چھٹیوں میں کراچی اپنی نانی کے گھر گئے ہوئے تھے اسی دوران دس محرم بھی آ گیا ۔ اس کے اگلے روز نانا شام کو اپنی دوکان سے واپس آئے تو انہوں نے گھر والوں کو ایک قصہ سنایا جو کہ وہ خود باہر سے سن کر آئے تھے ۔ ہم بھی وہیں موجود تھے اور جو سنا وہ ہمیں آج بھی یاد ہے اور آج ہی پہلی بار خیال آیا کہ اسے ھماری ویب قارئین کے ساتھ شیئر کیا جائے ۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ دس محرم والے روز لالو کھیت یعنی لیاقت آباد میں حسن نامی ایک شخص نے کچھ نیا کرتے ہوئے سردی کی وجہ سے سبیل کی بجائے چائے کی دیگ لگائی اور چائے تیار ہونے کے بعد وہیں چولھے کے پاس بیٹھ کر فاتحہ خوانی یعنی کہ ایصال ثواب کر دیا ۔ اس شخص نے اسی رات ایک خواب دیکھا جو کہ اس نے اگلے روز گھر والوں کے ساتھ ساتھ اہل محلہ سے بھی بیان کیا جس کا خاصا چرچا ہؤا لالو کھیت سے نکل کر حیدرآباد کالونی ہمارے نانا تک بھی پہنچا جہاں ان کی ٹیلرنگ شاپ تھی ۔

حسن کے بیان کے مطابق گذشتہ رات سیدنا حضرت امام حسین علیہ السلام اس کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ یار حسن! تم نے اتنی گرم چائے پلا دی کہ ہمارے تو ہونٹ ہی جل گئے ۔

اب یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس شخص نے واقعی سچ بیان کیا تھا یا ایسے ہی اپنے من سے گھڑ لیا تھا مگر ہمیں ایصال ثواب کے مؤثر اور برحق ہونے پر پورا یقین ہے ہمارے سامنے کئی مثالیں موجود ہیں ۔ اس وقت ہم خود اپنا ایک تجربہ تحریر کرتے ہیں ۔ جب ہم آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے تو ہمارے ہاں ایک بھائی پیدا ہؤا تھا مگر وہ چند ہی سانسیں لینے کے بعد دنیا سے رخصت ہو گیا وہ بہت خوبصورت تھا بچہ کیا تھا بس جیسے کوئی گلاب کا پھول تھا وہ ہم سے ملنے سے پہلے ہی بچھڑ گیا ہمارا تو رو رو کے بُرا حال تھا ۔ جب اسے غسل دیا جا رہا تھا تو ہم نے سارا وقت وہیں کھڑے ہو کر اسے دیکھا ۔ بہت دن تک ہماری بُری حالت رہی بےچاری امی کو اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی سنبھالنا پڑا ۔

تقریباً چھ ماہ بعد کی بات ہے کہ ہم نے بھائی کو خواب میں دیکھا وہ چھ ماہ کا ہی نظر آ رہا تھا کچی زمین پر فقط ایک میلا سا جانگیہ پہنے بیٹھا تھا ہم نے کہا مُنے! تم ایسے کیوں بیٹھے ہو کپڑے کیوں نہیں پہنے؟

اس نے جواب دیا کون سے کپڑے پہنوں تم نے مجھے دیئے ہیں کیا؟

ہم نے صبح کو اٹھ کر اپنا خواب امی کو سنایا ان بےچاری کا غم جیسے پھر سے تازہ ہو گیا ۔ خیر انہوں نے کچھ بزرگ خواتین سے اس بات کا ذکر کیا تو سب کی مشترکہ رائے یہ تھی کہ وہ تو ایک معصوم بچہ تھا اپنے رب کے پاس اپنی روزی پا رہا ہے وہ ہمارا محتاج نہیں ہے مگر اس خواب میں اس بات کا اشارہ دیا گیا ہے کہ اس کے نام پر کچھ نادار شیر خوار بچوں کی امداد کر دی جائے ۔ پھر امی نے بہت سارے بچکانہ کپڑے خود سلائی کئے اور ضرورتمند بچوں میں تقسیم کئے حسب توفیق انہیں دودھ کے پیسے بھی دیئے ۔

وہ ننھا پیارا سا بھائی پھر کبھی دوبارہ ہمیں نظر نہیں آیا مگر آج بھی وہ ہمیں بہت یاد آتا ہے وہ زندگی سے نکل گیا ہے دل سے نہیں نکلا ۔ (رعنا تبسم پاشا)

 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 230 Articles with 1856936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.