بے گناہ

آج پھر کلاس میں لیکچر کے دوران نازیہ کی نظر صبور پر پڑهی تو اس کو ہمیشہ کی طرح یہ احساس ہوا کہ صبور کسی پریشانی کا شکار ہے اور اس سے کچھ کہنا چاہتی ہے. نازیہ کو اس ڈگری کالج میں پروفیسر کے طور پر پڑهاتے ہوئے دو سال ہوئے تھے. بی اے کی اس نئے بیج میں صبور ایک نیا اضافہ تھا. وہ ایک خوبصورت اور زہین لڑکی تھی. نازیہ اپنی دیدہ زیب شخصیت اور نرم خوئی کی وجہ سے طالبات میں بہت دلعزیز تهی. وہ اپنے فارغ اوقات میں اکثر اپنی طالبات کو اضافی لیکچر یا رہنمائی دیتی.پچهلے تین ماہ سے وہ محسوس کر رہی تھی کہ جب بھی وہ تهرڈ ایئر کی اس کلاس کو پڑهاتے آتی تو اس کو صبور کی آنکھیں کچھ کہتی ہوئی محسوس ہوتیں مگر ہر دفعہ وہ اس کو اپنی غلط فہمی سمجھ کر سر جھٹک دیتی.

صبور بہت ہی خاموش طبع لڑکی تھی. بریک کے اوقات میں بھی نازیہ اس کو اکیلے بیٹھے ہی پاتی. ایک عجیب سی سوگواری اور اداسی کا امتزاج اس کی شخصیت میں نظر آتا تھا. بعض دفعہ نازیہ کو اس کی گہری نیلی آنکھیں آنسوؤں سے بهری محسوس ہوتیں مگر پھر ایسا لگتا کہ سمندر میں طوفان آنے سے پہلے ہی ٹهراو آگیا ہے.

آج جب نازیہ کالج جلدی پہنچی تو اس نے دیکھا کہ ہار سنگھار کے درخت کے نیچے ایک لڑکی زار و قطار رو رہی تھی. اس کے قدم خودبخود اس لڑکی کی طرف بڑھ گئے. اس نے آہستگی سے اس لڑکی کے کندھے پر هاته رکھا تو وہ لڑکی اچھل پڑی. نازیہ نے دیکھا کہ وہ صبور تهی. نازیہ اس کے پاس بیٹھ گئی اور نرمی سے بولی :
صبور! میں بہت عرصہ سے محسوس کر رہی ہوں کہ آپ کسی پریشانی کا شکار ہیں. آپ اگر مجھ سے شئر کریں تو شاید میں آپ کی مدد کرسکوں؟
صبور نے اپنی آنکھیں خشک کیں اور ہولے سے بولی :
"میری پریشانی میری زندگی میں ختم ہونے والی نہیں ہے. "
نازیہ اس کے لہجے کی یاسیت سے کانپ سی گئی. اس نے پرزور انداز میں صبور کو یقین دلایا کہ وہ اس کی مدد کریگی. صبور نے بے یقینی سے اس کو دیکھا اور کہا :
"میں اپنے گھر کی چار دیواری میں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوں. ............. ."
نازیہ اس کی بات سن کر بے اختیار ہی کهڑی ہوگئی اور غصے سے بولی :
"تمہیں یہ بات کہتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے. "

صبور آہستہ سے کهڑی ہوئی اور بولی میری ماں نے بھی مجھے یہی کہا تھا اور منہ پھیر کر چل پڑی. نازیہ کا دل اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر دہل گیا مگر اس نے اپنے آپ کو سمجھایا میں اپنے آپ کو کسی پرائے معاملے میں نہیں انوالو کرسکتی. یہ لڑکی اگر سچ بهی کہہ رہی ہے تو کون اس کی بات پر یقین کریگا کہ اس کی عزت کا محافظ ہی اس کی عزت کا لٹیرا ہے. اس کے جسم میں کپکپی سی طاری ہوئی مگر اس نے سر جھٹک دیا.
کالج کی چھٹی کہ وقت وہ اپنی گاڑی لے کر نکلی تو اس کی نظر صبور پر پڑی. ایک لمحے کے لیے وہ فٹ پاته پر تهی مگر اگلے لمحے وہ تیز رفتار ٹرک کے نیچے تهی. اس کو ایسے محسوس ہوا جیسے اس نے جان کر اپنا آپ ٹرک کے آگے کردیا تھا. نازیہ صدمے سے ساکت تهی اچانک اس کو صبور کی وہ آنسو بهری بے یقین آنکھیں یاد آگئیں جب اس نے اس کو ڈانٹا تھا. اس کو ادراک ہوا کہ وہ ہی فیصلے کا لمحہ تھا. آج وہ بحیثیت انسان اور ایک استاد کے ہار گئی تھی.

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 281202 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More