سفید خون (سچی کہانی)

استاد محترم P.hd کرنے کے بعد کئی سال دیا رغیر ہی میں مقیم رہے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔گاؤں سے چلے۔شہر میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ نوکری بھی کرتے رہے ۔ اپنے خرچ کے علاوہ وہ کچھ نا کچھ بچا کر والدین کو بھی بھیجتے رہے۔ایم ایس سی کی اورپھر سکالر شپ پر باہر چلے گئے۔وہاں بھی پڑھائی کے ساتھ نوکری جاری رہی، تاکہ والدین کو پیسے بھیجے جا سکیں اور اپنا خرچ بھی چلتا رہے۔ کئی سال بعد ایک دفعہ پاکستان واپس آئے اور والدین کی خواہش پر شادی کرکے بیگم کو ساتھ لیااور واپس چلے گئے۔ بہنوں کی شادیوں اور گھر کے حالات بہتر کرنے کے چکر میں ایک عرصہ وہیں پیسے اکٹھے کرتے گزر گیا۔ بہنیں بیاہی گئیں ۔گھر کی حالت قدرے بہتر ہو گئی ۔ اب وہ مطمن تھے۔اس دوران چھوٹے بھائی نے ایم ایس سی کر لی۔ روز اس کا خط ملنا، کبھی کبھار فون آ جانا۔اسے گلا تھا اچھے نمبر حاصل کرنے اور کوشش کے باوجو د اسے کہیں نوکری نہیں مل رہی تھی ۔وہ لکھتاکہ آپ دیار غیر میں بیٹھے ہیں۔ یہاں سفارش کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا۔ آپ ہوتے تو آپ کی سفارش سے پتہ نہیں کیا ہوجاتا۔ اپنا فرض جانتے ہوئے بوڑھے ماں باپ نے اس بے روزگار بیٹے کی بھی شادی کر دی۔ پہلے وہ صرف ماں باپ کو خرچ بھیجتے تھے اب بھائی کو بھی گزارا الاؤنس دینا پڑتا تھا۔بھائی کی وجہ سے ماں باپ بھی پریشان تھے۔اور ان سب کی وجہ سے استاد محترم بھی پریشان رہتے۔باپ فوت ہوا تو وہ سب چھوڑ چھاڑ کر واپس پاکستان آگئے۔

جمع پونجی خرچ کرکے انہوں نے لاہور میں ایک مکان خرید لیا۔ والدہ اور بھائی کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔اب پتہ چلا کہ اچھے نمبر تو کیا بھائی تھرڈ ڈویژن میں بمشکل پاس ہوا ہے۔ اتنے کم نمبروں کے ساتھ نوکری کا حصول ممکن ہی نہیں تھا۔استاد محترم کے مشورہ پر وہ پچھلے برآمدے میں بیٹھ کر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگا۔ کافی بچے آنے لگے یوں اس کا معاشی مسئلہ کسی حد تک ٹھیک ہو گیا،کافی بڑا گھر تھا۔ پانچ چھ کمرے نیچے اور اتنے ہی اوپر تھے۔اوپر دو کمرے بھائی کے پاس تھے ۔باقی ان کے اپنے بچوں کے پاس۔اس دوران بہت سی اچھی ملازمتوں کی پیشکش ہوتی رہی مگر جب تک ماں زندہ تھی انہوں نے کبھی کوئی توجہ نہیں دی۔ ماں کے فوت ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ملازمت کر لی او ر گھر کے کچھ حصے کو چھوڑ کر جس میں بھائی رہتا تھا بقیہ بند کیا اور بچوں سمیت اسلام آباد منتقل ہو گئے۔کبھی کبھار لاہور آنا ۔ اپنے گھر پر مقیم رہنا اور واپس چلے جانا۔بھائی نے ایک دو کمرے اور بھی استعمال کرنے شروع کر دئیے تھے لیکن انہوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ کم از کم بھائی کی موجودگی میں گھر محفوظ تھا۔کسی قبضہ گروپ کا گھر پر ناجائز قبضہ کر لینے کا ڈر تو نہیں تھا۔

اگلے بیس سال وہ اسلام آباد میں مقیم رہے۔ اس دوران بچے ایک ایک کرکے پڑھنے کے لئے باہر جاتے رہے اور پڑھنے کے بعد وہیں رہنے لگے۔ریٹائر ہوئے تو میاں بیوی بہت اکیلے تھے۔ سب بچوں نے باہر کے ملکوں میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی اور اب بضد تھے کہ وہ بھی ان کے پاس آ جائیں۔فطرت کا عجیب اصول ہے۔ میاں بیوی اک عمر اکٹھی گزارتے ہیں مگر اک وقت ایسا آتا ہے جب موت کسی ایک کو دوسرے سے چھین لیتی ہے۔بیوی کی اچانک موت کے بعداستاد محترم بہت اکیلے ہونے کے سبب مجبوری میں بیرون ملک اپنے بچوں کے پاس چلے گئے۔بچے بہت پیار کرنے والے اور فرمانبردار تھے ۔مصروفیت کے باوجود باپ کو بہت وقت دیتے مگر کوئی حلقہ احباب نے ہونے کے سبب استاد محترم ہمیشہ اداس رہتے۔ بڑی مشکل سے تین سال گزار کر وہ پاکستان لوٹ آئے۔ انہیں پتہ تھا کہ لاہور میں ان کا اپنا گھر ہے ۔جس میں ان کا چھوٹا بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مقیم ہے ۔ جو انہیں عزت اور احترام کے ساتھ رکھے گا۔اس کے بچوں کی موجودگی میں دل بھی بہلا رہے گا اور پھر بہت سے ملنے والوں کے آنے جانے سے وقت بہتر گزر جائے گا۔

لاہور پہنچ کر انہیں احساس ہوا کہ چیزیں کافی بدل گئی ہیں۔بھائی پورے گھر پر قابض تھا۔ بڑی ناگواری سے انہیں اپنے ہی گھر میں ایک چھوٹا سا کمرہ خالی کر کے دیا گیا۔ بچوں کو بھی ان کی آمد اچھی نہیں لگی تھا اس لئے سب کھنچے کھنچے نظر آتے تھے۔بھابھی کھانا اس طرح دیتی کہ صاف نظر آتا کہ پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔بھائی کبھی بات کر لیتا مگر گھر کے دوسرے افراد پاس سے نظر بچا کر گزر جاتے۔انہوں نے کچھ دن تو برداشت کیا۔ پھر عملی طور پر بھائی سے سرسری سلام دعا کے علاوہ خود کو پوری طرح لا تعلق کر لیا۔ صبح کو گھر سے نکلتے ۔ گھرکے ارد گرد سارا علاقہ کمرشل ایریا بن چکا تھا۔ ساتھ ہی دکانیں تھیں۔ کھانے کی ہر چیز میسر تھی۔ وہ کسی چھوٹے سے ہوٹل میں ناشتہ کرتے اور پھر وقت گزارنے کے لئے کسی نہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں چلے جاتے۔ یوں بہت سے شاگردوں سے ان کا رابطہ ہو گیا۔ ہر شام کچھ شاگرد ان کے پاس بیٹھے اور پوری طرح خدمت کیلئے تیار ہوتے۔یوں دو تین سال انہوں نے گزار لئے۔

بڑھاپا سب سے بڑی بیماری ہے۔ ان کی طبیعت کچھ مضمحل رہنے لگی تو بچے ضد کرنے لگے کہ وہ واپس ان کے پاس آجائیں۔بچے خود بھی آنا چاہتے تھے مگر وہ روک دیتے انہیں کیا بتاتے کہ بھائی ان کے مکان پر قابض ہے اور اب بچوں کے ٹھہرنے کی کوئی جگہ ان کے اپنے گھر میں بھی نہیں تھی۔دوستوں اور شاگردوں کے مشورے پر انہوں نے ایک بار پھر پاکستان سے دور بچوں کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا۔انہی دوستوں اور شاگردوں کے مشورے پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جانے سے پہلے مکان کو بیچ دیا جائے۔ انہیں بھائی کا بھی خیال تھا۔ سب نے کہا کہ یہ مکان کمرشل جگہ پر واقع ہے کروڑوں روپے اس کی ملکیت ہے۔ بھائی پر مہربانی کرنا ہے تو اسے کسی عام آبادی میں پانچ مرلے کا گھر خرید دیں۔ یہ بات انہیں پسند آئی۔علاقے کے پراپرٹی ڈیلر سے بات کی۔گھر کی قیمت آٹھ کروڑ سے زیادہ مل رہی تھی اور قریبی آبادی میں پانچ مرلے کا صاف ستھرا گھرساٹھ ستر لاکھ میں آسانی سے دستیاب تھا۔ پٹواری سے فروخت کے لئے فرد ملکیت درکار تھی۔چنانچہ پٹواری سے رابطہ کیا گیا۔ مگر یہ کیا۔

پٹواری نے کہا کہ آپ کے نام تو کوئی مکان نہیں۔ یہ مکان تو آپ دس سال ہوئے اپنے بھائی کو بیچ چکے ہیں۔مگر میں نے تو نہیں بیچا۔ پٹواری کہنے لگا نہیں بیچا تو دس سال کہاں تھے۔ پٹواری ہنس دیا اور کہنے لگا ، آج کل سارے سگے رشتے اسی طرح کے ہیں ہر خون سفید ہو چکا۔ اب غم کرنے کا کوئی فاعدہ نہیں ۔آپ بچوں کے پاس جانا چاہتے ہیں سب بھول کر چلے جائیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ بھائی کے خلاف فراڈ کا پرچہ درج کروائیں۔ تگڑے گواہ تیار کریں اور پھر دس سال انتظار کریں ۔اگر آپ زندہ رہے تو امید ہے دس سال میں فیصلہ ہو ہی جائے گا۔ڈاکٹر صاحب انتہائی بوجھل قدموں سے گھر واپس آئے۔ لگتا تھا ان سے چلا نہیں جا رہا۔ بار بار کہتے، یہ میرا چھوٹا بھائی ہے اور میں نے اسے بیٹوں کی طرح پالا ہے ۔ اس مکان کے لئے اس نے مجھ سے فراڈ کیا، مجھ سے کھنچا کھنچا رہا۔ مجھ سے اچھے انداز میں پیش نہیں آیا۔ وہ رویہ صحیح رکھتا تو میں یہ مکان ویسے ہی اسے دے دیتا۔اب میں اس کے خلاف مقدمہ کروں کس قدر باعث شرم ہے۔گھر آ کر انہوں نے نہ بھائی سے بات کی نہ اس کے خلاف کوئی قدم اٹھایا۔ بس گم سم سے ہو گئے۔اگلے دو دن بہت سے شاگرد ان سے ملنے جاتے رہے لیکن وہ بات بہت کم کرتے بس دیکھتے رہتے۔تیسرے دن شاگرد ان سے ملنے دوپہر کے قریب وہاں پہنچے توان کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور وہ اندر سو رہے تھے ، ہلایا تو پتہ چلا کہ وہ بھائی کی بے رخی کا صدمہ برداشت نہ کرنے کے سبب دنیا چھوڑ چکے تھے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501484 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More