نظریہِ باجوہ کی دل دوز آوازیں ․․․․

 18 ویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق کے دور کے بنائے گئے اس قانون ’’صدر کے اسمبلی توڑنے ‘‘کے اختیار کو نواز شریف نے 13 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دورمیں ختم کرا دیا تھا۔ مگر پرویز مشرف نے جمہوری حکومت پر شب خون مارنے کے بعد صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیار کو 17ویں ترمیم کرا کے ایک مرتبہ پھر بحال کرا دیا تھا۔جس کے تحت ملک پر کبھی بھی کوئی طالع آزما آکر ملک کے آئینی نظام کو اُتھل پُتھل کر کے اپنے مذموم مقاصد کی آسانی کے ساتھ تکمیل کرسکتا تھا۔ جس کوپاکستان کی قومی اسمبلی نے قانو ن سازی کر کے ایک مرتبہ پھر 8،اپریل 2010 کو ختم کر دیا ۔ اس ترمیم کے تحت صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دیدیا گیا،مشرف کے 17وین ترمیم کے لیگل فریم ورک آرڈر کا خاتمہ کر دیا گیا اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم یا وزیرِ اعلیٰ کے بننے کی پابندی بھی ختم کر دی گئی۔جوڈیشل کونسل کو سُپیریر ججوں کے نام کو حتمی شکل دینے کا اختیار دے کر پارلیمنٹری کمیشن کو اس کی منظوری کا اختیار دے دیا گیا اور چیف الیکشن کمیشن کا تقرر اپوزیشن رہنماء کی مشاورت سے کیئے جانے کا بھی طریقہ اپنانے کہاگیا،اس کے علاوہ ہر بچے کو16سال کی عمر تک تعلیم کی مفت سہولتیں فراہم کی جانے کی نوید فراہم کی گئی۔

آج بعض طاقت کے ایونوں سے آئینِ پاکستان کی بار بار قبریں کھودی جا رہی ہیں اور وہ ہی لوگ جمہوریت کی پاس داری کے دعوے بھی چیخ چیخ کرکر رہے ہیں جو اس کی اینٹیں جڑوں سے نکال نکال کر پھینک رہے ہیں۔گذشتہ61 برسوں سے بار باراس کے آئینوں کے ساتھ کھلوڑ کا ایک تسلسُل جاری ہے۔کبھی جسٹس منیر کا ڈرامہ اسٹیج ہوتا ہے تو ملک کی باگ ڈور فوجی قوت کے ہاتھوں میں سونپ دی جاتی ہے۔کبھی عدالتوں نے نظریہِ ضرورت کا سہار لیکرڈکٹیٹرکے اقتدار کو دوام بخش دینے میں اپنی مکمل مدد و حمایت فراہم کی۔کبھی پرویز مشرف افتخار چوہدری فامولے سے مقتدر بن جاتا ہے ۔کبھی وہ ہی افتخار چوہدری اپنی جمہوری حِس جگا کر سیاست کے میدان کا شہسوار بننے کا فامولہ استعمال کر کے مشرف کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے تو سیاسی قوتیں بھی اس کا بھر پور ساتھ دیتی دکھائی دیتی ہیں۔

اس دھرتی پرشروع سے ہی کرییٹیڈ فارمولوں کی برسات ہوتی رہی ہے اور یہ سب طاقت کے ایونوں کی چُسنی سے خوراک حاصل کرکے امر ہوتے رہے ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وطنِ عزیز کسی بیانئے یا ڈاکٹرائن کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ملک کی جمہوریت اور نظام کی گاڑی کو صرف آئین کی قوت سے ہی چلایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں تمام ملکی اداروں کو ایگزیکٹیو کا حکم ماننے کا پابند ہونا چاہئے۔مگر ہمارے ہاں گنگا کا رُخ اُلٹی جانب ہوچکا ہے۔اس ملک کے بعض سیول اور عسکری ادارے اگزیکٹیو کے زیرِ اثر رہنے کو اپنی توہین تصور کرتے ہیں۔اور وزیرِ اعظم کو کو پاٹے خاں سمجھتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ سربراہ مملکت کو آج دست بدستہ سیول اداروں کے سامنے ہاتھ باندھنے پڑ رہے ہیں،جو نظام اور مملکت دونوں کی ہی نفی ہے۔ملک کے تمام ہی ادارے حکومتِ وقت کے ماتحت کام کرنے کے پابند ہیں۔اور اس کی خلاف ورزی پر آئین نے ان کے لئے سزا کا ایک نظام بھی فراہم کیا ہوا ہے۔مگر آج ہر ادارا شُتر بے مہار دکھائی دیتا ہے۔

چند دنوں کی ہی بات ہے کہ ملک میں انتخابات کا انعقاد ہو چاہتا ہے۔ان انتخابات میں مداخلت کے نمایاں اشارے پائے جاتے ہیں۔اگر خوش قسمتی سے آنے والے انتخابات وقت پر ہوگئے تو غنیمت جاننا ۔مگر یہاں پر بھی سینٹ انتخابات کا سا جھرلُو چلنے کو ہے۔ بعض مبصرین کا گمان ہے کہ کچھ ادروں کے کرتا دھرتا اس موڈ میں نہیں ہیں کہ ن لیگ الیکشن میں سب کا صفایا کر دے ،اور ان کے اشاروں کے منتظر سیاست دان دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں۔کہیں کہیں سے انتخابات میں تاخیر کی باتیں بھی زیرِ لب کہی جا رہی ہیں۔تو کہیں نگراں حکومت کے دورانیئے کی توسیع کی باتیں ہو رہی ہیں۔جو دونوں ہی باتیں آئین سے ماورا ہیں۔کیونکہ آئین بر وقت مقررہ مدت میں انتخابات کرانے کا مطالبہ ا کر کے عبوری حکومت کو بھی اس کی مدتِ معینہ سے زیادہ دن دینے کی بات نہیں کرتا ہے۔ ان دونوں باتوں سے انحرا ف آئین کی کھلی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن کے ذریعے 18 ویں ترمیم کو حدف بنایا جا رہا ہے ۔اس ترمیم نے ایک جانب جمہوریت مخالفوں کو اقتدار پر شب خون مارنے سے روکا ہواہے، تو دوسری جانب بعض اداروں میں بیٹھے لوگ اس ترمیم کے پاس ہواجانے کا دکھ ضرور محسوس کر رہے ہیں۔یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اس ملک پر قریباََ 31 سال ڈنڈے کا راج رہا ہے۔ جس میں آئینِ پاکستان اور انسانی حقوق کی جی بھر کر پامالی کی جاتی رہی ہے اور کوئی اس پر سوال کرتا تو نتائج کا بھی خود ہی ذمہ دار ٹہرتا۔ بعض نا عاقبت اندیش سیاست دان اس حولے سے یہ کہتے بھی سُنے جاتے رہے ہیں کہ ’’اگر ہمیں دس بار بھی موقع ملا تو ہم دس بار ان کو اقتدار میں لائیں گے۔مگر اس کے باوجود ان لوگوں اور اداروں کے منہ پر جمہوریت کا ہی نام رہتا ہے۔عام خیال یہ ہے کہ آج پاکستان کی جگ ہنسائی میں ہمارے ادارے بھی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

ستمبر 2017کو سینٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ارکان نے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی تو آرمی چیف نے ان ارکان سے 18وین آئینی ترمیم پر اپنے بعض تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بقول ایک سینئر تجزیہ نگار کے ’’شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا‘‘تجزیہ نگار کا یہ بھی کہنا ہے کہ 18 وین ترمیم کے بارے میں یہ تحفظات نئے نہیں ہیں2010میں اس ترمیم کو منظوری سے روکنے کے لئے ایسی بہت سی باتیں کی گئیں لیکن پارلیمنٹ نے یہ ترمیم منظور کرلی۔اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس وقت اس ترمیم کے حق میں پاکستان کی تمام ہی بڑی اور اہم سیاسی جماعتیں متفق تھیں۔در حقیقت یہ ترمیم پاکستان کی کمزور جمہوریت کے لئے ایک چٹان بن گئی ہے۔جس نے چھوٹے صوبوں کے احساسِ محرومی کے خاتمے کی بنیاد فراہم کر دی ہے۔ باجوہ نظریہ یا باجوہ ڈاکٹرائین کی دل دوزصدائیں، صدا بصہرا
 

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.