کراچی میں دودھ کی قیمت 94روپے ہوگئی.. !!

بس اَب کو ئی ہمارے گھر نہ آئے اگرآتے تو...؟؟
ہمارے گھر چائے پینے کے خواہشمند مہمان دودھ اپنے ساتھ لائیں ...

اِس سے انکار نہیں کہ بیشک، مہمان اﷲ کی رحمت ہوتے ہیں مگر جس رفتار سے میرے مُلک میں حکمران مہنگا ئی کو بے لگام کررہے ہیں اِس کے بعد راقم الحرف اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ حکمرانوں نے میرے مُلک کے ہر فرد کو مہمان کی میزبانی کرنے اور گھر آنے والے مہمان کی شکل میں اﷲ کی رحمت کو روکنے کا انتظام مہنگا ئی کوبے لگام اور آزاد کرکے ڈھونڈنکالا ہے ۔

آج یہی وجہ ہے کہ راقم الحرف اپنے گھر کے مین گیٹ(دروازے) پر یہ نوٹس لگا نے پر مجبور ہوگیاہے کہ’’ برائے مہربانی یکم اپریل سے ہمارے گھر آنے والے اور چا ئے پینے کے خواہشمند دوست احباب اور مہمان دودھ اپنے ساتھ لائیں کیو ں کہ میرے شہرِ کراچی میں 85روپے فی کلو فروخت ہو نے والا دودھ یکدم سے 94روپے فی کلو ہوجا ئے گاراقم الحرف جس کی قلیل ماہانہ آمدنی ہے یہ اپنی قلیل آمدنی میں روزانہ دوست احباب اور اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع 94روپے کا ایک کلو دودھ خرید کر چائے بنا کر پیش کرنے کی سکت نہیں رکھتا ہے لہذا کو ئی برا نہ مانے اگر آپ اِس پر راضی ہیں تو ضرور آئیں ورنہ ہمیں اپنی مہمان نوازی سے باز رکھیں‘‘ اور اگر آپ کوہم پر ترس آجا ئے اور آپ کوہمارا یہ مشورہ پسند بھی آجا ئے تو ہمارے اِس نوٹس کو زیادہ سے زیادہ عام (شیئر)کریں اِس طرح نہ آپ کسی پر بوجھ بنیں گے اور نہ کوئی آپ سے پریشان ہوگا ‘‘ نوٹ: آپ بُرا نہ مانیں ہوسکے تو مُلک میں ہو نے والی بے لگام مہنگا ئی کی جس قدر مذمت کرسکتے ہیں تو کریں تاکہ ہمارے اقتدار کے حصول کے لئے بیقرار اور بے چین اِن آف شور کمپنیوں اور اقامے کے مالکان اور قومی خزا نہ بوروں میں بھربھر کر سوئس بینکوں میں جمع کرا نے والے حال و ماضی کے حکمرانوں اور سیاستدانوں سمیت اداروں میں کسی شیش ناگ کی طرح قابض بیوروکریٹس کو شرم آجائے اوروہ عوام کو مہنگا ئی کے پہاڑ تلے دبانے سے کچھ تو رکیں۔

یقینا یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ جس مُلک میں مہنگا ئی اور بھوک و افلاس سے بیزارپریشان والدین اپنی اولادوں کو برائے فروخت کا اشتہار لگاکرفروخت کریں مُلک کے چپے چپے پر خودکشی خودروپودے کی طرح بڑھ رہی ہو عوام میں عدم برداشت کا عنصر روزہ سورج نکلنے کے ساتھ پروان چڑھ رہاہو عوامی اپنے بنیادی حقوق اور بنیادی آسائش زندگی سے محروم ہورہے ہوں، مُلک میں طرح طرح کے بحران اور فتنے سر اُٹھارہے ہوں ایک اندازے کے مطابق مُلکی عدالتوں میں 18لاکھ زیرالتوا مقدمات پڑے ہوں کرپشن لوٹ مار اور اقرباپروری کا کینسر مُلکی ایوانوں سے لے کر قبرستان کے گورکن کی رگ رگ تک میں موجود ہواور جس مُلک میں محکمہ کرپشن تو ہومگر اِس محکمے کا اعلیٰ و ادنا اور اول تاآخر ہر فرد(اسٹاف)خود کرپشن کا دلدادہ اور ہر قسم کی کرپشن کا ماہرہوکرپشن کو پروان چڑھا نے میں اپنا حصہ ڈالے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ یہی لوگ معاشرے میں موجود کینسر کی طرح پھیلے ہوئے کرپٹ عناصر کو پکڑیں بھی خوداور پھر خود ہی اُسے پری بارگین کی اُوٹ سے رشوت لے کر چھوڑبھی دیں اور اِس پر یہ کہ حکمران، سیاستدان ، بیوروکریٹس اور اِن کے چیلے چپاٹے ہمنواء ہوکر ’’ ہماری پہچان ایمان، اتحادا ورتنظیم‘‘ والا راگ الاپتے رہیں سوچیں کوئی کرپٹ ادارہ اور کرپٹ شخص و گروہ مُلک میں فلاح و بہبود کے منصوبوں کو کرپشن سے پاک اور پانی سے لے کردودھ تک ملاوٹ سے پاک اشیاء کی فراہمی کو کیسے یقینی بناسکتاہے؟؟ جب دیدہ دانستہ مُلک میں حکمران، سیاستدان ، ادارے اورقانون مہنگائی کو بے لگام کرنے سے متعلق ایک پیچ پر ہوں تو لامحالہ مہنگائی کا طوفان بیچارے عوام کے وجود اور گھر کو ہی تباہی کا نشا نہ بنا ئے گااور بناتاہی رہے گا کیوں کہ جنہیں مہنگا ئی کو امر بیل کی طرح بڑھنے سے روکنا چاہئے وہ سب تو مہنگا ئی کو بے لگام کرکے غریبوں کو مہنگا ئی کے پیروں تلے کچلتا دیکھ کر خوش ہورہے ہیں اور قہقہ مار کر ہنس رہے ہیں۔

آج اِس سے انکار نہیں ہے کہ ہماری موجودہ حکومت نے پہلے سُکھ اور چین کی بانسری بجاتے ہوئے پہلے سے تنگ دست ، بھوکی پیاسی سے ایڑیاں رگڑتی عوام پربجٹ اورمتوقعہ الیکشن سے قبل ہی بالخصوص پوری قوم اور بالعموم کراچی کے باسیوں پر مہنگا ئی کا طوفان نازل کرنے کے منصوبے اور سامان بنارکھے ہیں جس کی ایک تازہ ترین مثال اُس وقت دیکھنے کو ملی جب پچھلے دِنوں سندھ ہا ئی کورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دورُکنی نیچ نے کراچی میں دودھ کی قیمت کا تعین کرنے سے متعلق درخواستیں نمٹاتے ہوئے نئی قیمت کا نوٹیفکیشن جاری کرتے کا حکم دے دیا ہے جبکہ ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی حکم صادر فرمایکم اپریل تک دودھ کی 85روپے فی کلو فروخت ہوگانئی قیمت کا اطلاق یکم اپریل کے بعد ہوگاحکام عمل درآمد یقینی بنا ئیں خبر ہے کہ عدالتِ عالیہ نے حکم نامہ میں قرار دیاہے دودھ کامعیار بھی پرکھا جا ئے گا یہ ذمہ داری میئر کراچی کی ہے‘‘۔

بہرکیف، آج جنہیں اعلان کرناتھا اُنہوں نے یکذمبشِ قلم دودھ کی قیمت میں دس روپے کا اضاضہ کردیاہے مگر اِن کے اِس اقدام سے دودھ فروش تو خوش ہو کر تھمال ڈال رہے ہیں مگر دودھ کا استعمال کرنے والا بیچارہ ایک غریب اِس طرح دودھ کی قیمت بڑھ سے مُرجھا کر مرسا گیاہے۔

سوچیں ،جس مُلک میں لوٹ کا بازار لگاہو اور جس مُلک میں دودھ کی قیمت یکمشت دس روپے بڑھا دی جا ئے تو اِس مُلک میں مہنگا ئی کا کیا عالم ہوگا اورجس مُلک میں ایک دودھ کی قیمت بڑھنے سے عوام دودھ والی چا ئے پینے سے محروم ہوجا ئیں تواِس مُلک میں تو سبزانقلاب کے بجا ئے سُرخ انقلاب ہی کے آنے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ بس حکمرانوں ظلم اتنا ہی کروجنتا غریب عوام برداشت کرسکیں اور ڈرواُس وقت سے کہ جب بھوک اور افلاس سے تنگ عوام بہک جا ئیں اور یہ اپنی حدِ برداشت سے باہر نکل جا ئیں اوراِن کارخ تمہارے محالات اور اِن کے ہاتھ تمہارے گریبانوں کی طرف ہوجائیں تب تمہیں معافی بھی نہیں ملے گی اُس وقت تم لاکھ اپنی صفائیاں بھی پیش کرناچاہوں گے توکو ئی تمہاری سُننے والا بھی نہیں ہوگا تب تمہارے وجود کو کو ئی غریبوں کے ہاتھوں ڈھا ئی فٹ زمین میں جا نے سے بھی نہیں رک سکے گا۔ (ختم شُد)
 

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971952 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.