یہ کیسا مذاق ہے

اپریل فول دیگر واہیات اور جاہلانہ روایات کی طرح ایک رسم بن رہی ہے۔ جس کا انسانی یا اسلامی ثقافت، تہذیب و تمدن، رسوم و روایات، معاشرت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک فیشن ہے، جس نے کئی گھر اجاڑ دیئے۔ کئی لوگ سادگی میں اپنی دولت ہی نہیں بلکہ زندگی سے بھی محروم ہوئے۔سوشل میڈیا کے اس دور میں کم لوگ ہوں گے جو اس سے بے خبر ہوں۔ اس کے پس منظر سے زیادہ لوگ با خبر ہیں۔ یہ لاعلمی اس شخص کی طرح ہے جو دیار غیر میں چلا جائے اور وہ وہاں کی زبان نہ سمجھتا ہو اور اس سے مخاطب لوگ واہیات الفاظ کے استعمال سے اس کا مذاق اڑائیں۔ جس پر وہ محظوظ ہوتا رہے۔مذاق جو کسی کی تضحیک، دل آزاری، ہلاکت، نقصان، شرمندگی یا پشیمانی کا باعث بنے، اس کو شر سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ تہذیب کے دائرہ میں رہ کر مذاق، جس سے کسی کو زرا بھر نقصان نہ پہنچے، کی ممانعت نہیں۔

اسپین میں کبھی اسلام کا غلبہ تھا۔ آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ آج تقریباً پونے پانچ کروڑ آبادی والے اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی صرف دس لاکھ ہے۔ یہ بھی تارکین وطن ہیں۔ جو مراکش، شام، لبنان، عراق سے یہاں آ کر بسے ہیں۔ چند ہزار بنگلہ دیشی، بھارتی اور پاکستانی مسلمان بھی یہاں آباد ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں کی زیادہ تر آبادی جنوبی اندلس میں ہے۔ انہوں نے یہاں مسلم سنٹرز قائم کئے ہیں جہاں یورپ، کنیڈا اور امریکہ سے بھی مسلمان آ کر اسلام کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسپین اور اندلس کبھی اسلام کے مرکز اور گہوارے تھے۔ عظیم مسلم جرنیل طارق بن زیاد نے یہاں آ کر اسلام کا پرچم لہرایا ۔ لیکن جب اسپین پر عیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کیاتو عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ دوم نے یہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ بالآخر مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک قائم کرنے اور وہاں مسلمانوں کو بسانے کا اعلان کیا۔ مسلمانوں کو بحری جہازوں پر سوار کیا گیا۔ اور بیچ سمندر انہیں ڈبو دیا گیا۔ یہ 1808سے18013تک کے واقعات ہیں۔ کہتے ہیں جس دن مسلمانوں کو سمندر میں غرق کیا گیا، اس دن یکم اپریل تھا۔

جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا تو مسلمانوں کا اتنا خون بہا یا گیا کہ فاتح فوج کے گھوڑوں کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوبی تھیں جب قابض افواج کو یقین ہوگیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی مسلمان زندہ نہیں بچا ہے تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرما روا کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کیساتھ واپس مراکش چلا جائے جہاں سے اسکے آباؤ اجداد آئے تھے،قابض افواج غرناطہکے قریب ایک پہاڑی پر اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی ۔جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسے اور وہاں صلیبیں ڈال لیں اور عیسائی نام رکھ لئے،اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا مگر اب بھی عیسائیوں کویقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ چھپ کر اور اپنی شناخت چھپا کر زندہ ہیں اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی ترکیبیں سوچی جانے لگیں۔ اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہوجائیں تاکہ انہیں ان ممالک بھیج دیا جائے جہاں وہ جانا چاہیں۔ میدانوں میں خیمے نصب کردیئے گئے جہاز آکر بندرگاہ پر لنگرانداز ہوتے رہے، مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا گیا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا جب مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ سب غرناطہ میں اکٹھے ہونا شروع ہوگئے یکم اپریل کادن تھا ۔عیسائی حکمران اپنے محلات میں جشن منانے لگے،جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز وہاں سے چلے دیئے، ان مسلمانوں میں بوڑھے، جوان، خواتین، بچے اور مریض سبتھے جب جہاز سمندر کے عین وسط میں پہنچے توانہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا اور یوں مسلمان سمندر میں ابدی نیند سوگئے۔اس کے بعد اسپین میں خوب جشن منایا گیا کہ کس طرح اپنے دشمنوں کو بیوقوف بنایا۔پھر یہ دن اسپین کی سرحدوں سے نکل کر پورے یورپ میں فتح کا عظیم دن بن گیا اوراسے فرسٹ اپریل فول کا نام دیدیا گیا یعنی یکم اپریل کے بیوقوف۔ اسپین کے مسلمانوں کے ساتھ جو دھوکہ ہوا، اسی طرز کا دھوکہ نصف صدی قبل کشمیر کے مسلمانوں سے کیا۔ جموں و کشمیر کے ان مسلمانوں کو جو پاکستان میں رہنا چاہتے تھے، گاڑیوں میں بھرا گیا۔ انہیں پاکستان پہنچانے کا وعدہ بھارتی حکمرانوں اور ان کے پروردہ ڈوگرہ نے کیا۔ اور جموں سے سیالکوٹ لاتے ہوئے راستے میں انہیں زبح کیا گیا، ان کو گولیاں مار دی گئیں۔ لڑکیوں کو اغوا کیا گیا بچوں کو ترشول (ہندؤں کا برچھی نما ہتھیار)اور نیزوں ، تلواروں پر اچھالا گیا۔ انگریز صحافی تصدیق کرتے ہیں کہ جموں اور اس کے گرد ونواح میں اڑھائی لاکھ مسلمان نومبر1947کے پہلے ہفتہ میں شہید کئے گئے۔ایسا ہی اسپین میں ہوا۔

ستم ظریفی ہے کہ یکم اپریل کو مسلمانوں کو بے وقوف بنانے، ان کا قتل عام کرنے کا جشن آج مسلمان بھی منا رہے ہیں۔ اور اس جشن کو ایک تہوار اور مقدس دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن بعض لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ مذاق اڑاتے ہیں۔ دھوکہ دیتے ہیں۔ ایسے جھوٹ بھی بولے جاتے ہیں کہ جن سے لوگوں کا جانی و مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ یہ سب مغرب پرستی ہے۔ فیشن کے پیچھے آنکھیں بند کر کے دوڑنا ہے۔ بالکل اس ننگے بادشاہ کی طرح جس کو اسکے مشیروں نے ایک ایسا لباس پہنا کر سر عام گھمایا جس کا کوئی وجود نہ تھا۔ اسے بے لباس کیا گیا۔ ایک خیالی لباس کی حقیقت ایک بچے نے بیان کی۔ وہ ہجوم میں بادشاہ کے ننگے ہونا کا اعلان کر رہا تھا۔بعض مغربی روایات ہمارے لئے نقصان ہی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ ہم اپنے اسلاف کے سنہری اقوال کو ترک کر کے ایسے کاموں پر توجہ دیتے ہیں جو ہماری تذلیل کا باعث بنتے ہیں۔ کوئی اسے فیشن کا نام دیتا ہے اور کوئی روشن خیالی کا۔ یہ سب بیہودگی ہے۔ سچائی، ایک دوسرے کی عزت و تکریم، امانت و دیانت بہت اہم ہے۔ ان کا بھی کوئی ایک دن نہیں بلکہ یہ ہر لمحہ مد نظر رہیں تو ہمارا معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔ یہ سب لعنتیں، یہ وبائیں، یہ مصنوعیت کا دور دورہ سب خطرناک ہے۔ اپریل فول پر پابندی کا مطالبہ ہی کافی نہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا نہیں۔ اس کے لئے ہر فرد کی زمہ داری ہے۔ اگر زمہ دار شہری کا ثبوت دیا جائے تو ہر مثبت کام کیا جا سکتا ہے۔ کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر یہ کام ہو سکتا ہے۔ اساتذہ ہی نہیں بلکہ والدین بھی بچوں میں آگاہی پیدا کر سکتے ہیں۔ احسن طریقے سے زہن سازی ہو سکتی ہے۔ طاقت، دباؤ کا استعمال زہن کو بدل نہیں سکتا۔ دباؤکے بجائے دلیل کار آمد ثابت ہوتی ہے۔جھوٹ دھوکہ ، مکر و فریب ، کسی کی دل آزاری ، کسی کا مذاق اڑانا۔ یہ سب انتہائی نا پسندیدہ افعال ہیں۔ جھوٹ بدترین بات ہے۔ اس لئے قرآن پاک میں بھی اس کی ممانعت کی گئی ہے۔جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ہو۔ لعنت اﷲ علی الکٰذبین۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555632 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More