مصنف : محسن خان
مبصر : ڈاکٹرم۔ق سلیم
رشحات محسن کی پہلی کاپی میرے حوالے کرتے ہوئے اس پرلکھ دیاگیاکہ پہلی کاپی
آپ کوپیش کرتے ہوئے مجھے خوشی اور فخر محسوس ہورہا ہے ۔ 192صفحات کی اس
کتاب کا انتساب ماں کے نام ہے ۔یہ صحیح خراج ہے۔ رشحات دراصل رشحہ کی جمع
ہے جس کے معنی ٹپکن ‘پانی کا ٹپکنا‘ بوند‘رس ‘پسینہ وغیرہ کے ہیں۔
کتاب کی ابتداء ڈاکٹرسیدفضل اﷲ مکرم اسوسی ایٹ پروفیسر اورینٹل اردو پی جی
کالج کے پیش رس سے ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’محسن خان ابھی طالب علم ہیں ۔ چوں کہ مطالعہ اور مشاہدہ تحریر میں جان
ڈال دیتاہے ۔اس لیے قلمکار کو بہت زیادہ مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
دوسرا مضمون صدربزم کہکشاں (محبوب نگر) حلیم بابر کا ہے ۔حلیم بابر نہ صرف
شاعر ہیں بلکہ ہرموضوع پرمراسلے لکھنے میں کمال حاصل ہے ۔وہ لکھتے ہیں۔
’’دورِحاضر میں اردو جن مرحلوں سے گذررہی ہے وہ سب پرعیاں ہے۔ناانصافیوں
اورمحرومیوں کا شکار ہوچکی ہے ۔اس کے چاہنے والوں کی بتدریج کمی ہوتی جارہی
ہے ۔بزرگ قلمکار‘شاعر وادیب یکے بعددیگر رخصت ہوتے جارہے ہیں اوریہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ اب جواں سال قلمکار وں اوراردو کے چاہنے والے کم ہوتے جارہے
ہیں ایسے ہی نامساعد حالات میں ایک نوجوان بلند عزائم واعلیٰ صلاحیتوں
کولیے اٹھتا ہے اور بڑی ہی عظمت واحترام سے اُردوکا دامن تھامتا ہے‘‘
تیسرا مضمون ‘محسن ِدکن کی پیش رفت ڈاکٹر عزیز سہیل کا ہے۔ وہ بھی ایک
نوجوان اورادیب شاعر ہیں۔ اورادبی دنیا میں تیزی کے ساتھ ابھررہے ہیں ۔ان
کاخیال ہے:
’’رشحات محسن ‘‘کے مطالعہ سے محسن خان کی طالب علم کے طور پر کوشش کا انداز
ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے پیش نظر اپنے مضامین کو قلم
بند کیا ہے ۔کہیں کہیں پر وہ اپنے آپ کوایک سماجی جہد کار کے طور پر پیش
کرتے ہیں ۔بہرحال محسن خان جیسے نوجوان قلمکاروں کو دیکھ کر اردو کے مستقبل
کا اندازہ ہوتا ہے کہ یقین پختہ ہوتا ہے کہ ہماری یہ زبان کبھی ختم نہیں
ہوگی۔‘‘
چوتھا مضمون کچھ محسن خان اور رشحات محسن کے بارے میں سید معظم رازؔ کا ہے
جورؤف خلش کے فرزند ہیں ۔مضمون 27فروری2018کولکھاگیا او رقابل غور بات یہ
ہے کہ 2017کی شائع کتاب میں شائع ہوا۔ یا توکتاب کی سنہ اشاعت غلط ہے یا
مضمون نگاری کی تاریخ ۔اس بات کاخیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ سوشیل میڈیا
کے دوست ہیں۔ توبہت ساری معلومات اس سے مل جاتی ہیں۔ مضمون میں جن اشعار کو
پیش کیاگیا ہے اس سے کیابتانا مقصود ہے؟۔ اچھا مضمون ہے۔ جس میں مضمون نگار
نے اپنی تفصیل پیش کردی۔ اس سے معلومات میں اضافہ ہوا۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انسان، پڑھتا ہے تو لکھتا بھی ہے اور سنتا
ہے تو بولتا بھی ہے ۔دوسروں کو سننے اور پڑھنے کے علاوہ کچھ سیکھنے کے
دوران پیدا شدہ ذاتی تجربات و مشاہدات بھی گذرتے وقت کے ساتھ انسان کی
تحریری و تقریر کی صلاحیتوں کو اس کے تخلیقی اظہار کے تئیں پختگی عطا کرتے
ہیں۔ یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ محسن خان،تحریری صلاحیت کے ساتھ تقریر کی
خوبیوں سے بھی کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں۔‘‘
حرف چند کے تحت صاحب کتاب نے شکریہ کا خوشگوار فریضہ ادا کیا ہے اوریہ بھی
لکھا ہے کہ ’’اردوکے طالب علم کی یہ ادنیٰ سی کوشش ہے آگے ابھی بہت کچھ
پڑھنا اورسیکھنا ہے۔
کتاب کا نام’’رشحات محسن‘‘ ہے ۔رشحات دراصل رشحہ کی جمع ہے۔ جو عربی اسم
مذکرہے جس کے معنی ٹپکن‘پانی کاٹپکنا‘بونداوررس کے ہے ۔عموماً رشحات قلم
لکھاجاتا ہے۔ اوریہ بات سمجھ میں بھی آسکتی ہے۔ محسن نے بوند بوند ‘رس جمع
کیا اورا سکو رشحات محسن کی شکل میں پیش کیا۔ کیونکہ ان کی پہلی
کتاب’’حیدرآباد کے مسلم ڈگری کالجس میں میڈیا سے آگاہی‘‘2014ادب سے ہٹ
کرتھی اور صحافت سے اس کا تعلق تھا مگراس کتاب کے مضامین ادبی ‘ سماجی
‘معاشرتی ‘عوامی اور صحافتی مواد لئے ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی نام مناسب
نہیں ہے۔ کیونکہ محسن دکن کہاجاچکا تواس کاپاس اورلحاظ رہے۔
مضامین کی ترتیب صحیح نہیں ہے جیسے اردوصحافت کے بعد ’’عصرحاضر کی
حیدرآبادی خواتین مضمون نگاری‘‘جبکہ اس کے بعدمیڈیا بطورانڈسٹری ‘ ریالیٹی
شز کی حقیقت‘سوشیل نیٹ ورک کے دوپہلو یکجاہونا چاہئے۔
نوجوان قلمکار ہے اوران کی ٹیم میں بھی کوئی پختہ کار نہیں ہے جو مشورہ دے۔
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
ابتداء ہے۔ اوراچھی ابتداء ہے۔ صحافت اورادب کا امتزاج اس بھی ہے۔ جہاں
معاشرہ کی برائیوں کے ساتھ سما ج میں ہونے والے واقعات کوقلمبندکیاگیاہے۔
اردو کے مستقبل میں سوشیل میڈیا کا رول (واٹس اپ) کے حوالے سے دوستوں کا
ذکر تفصیل سے ہے اوراس کا استعمال ۔اس طرح آج کے حادثات پراسپورٹس بائیک
اورحادثات اچھا مضمون ہے۔ سوشیل نیٹ ورکنگ کے دوپہلو ‘ میڈیا بطورانڈسٹری
‘نوجوان نسل کے لئے راہ نما کاکام کرتے ہیں۔ دیگرمضامین بھی اچھے ہیں۔ زبان
وبیان کاخیال رکھنا چاہئے ۔کیونکہ ابھی ریسرچ میں ہے اس لئے میں مبارکباد
دیتا ہوں کہ کئی لٹریچر کے ڈاکٹر قلم نہیں پکڑسکتے مگرکم عمری میں قلم تھام
کروہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ خدا کرے زور قلم اورزیادہ۔
میں یہی مشورہ دوں گا کہ مطالعہ وسیع کرواورپھر قلم اٹھاؤاس وقت قلم سے
شاہکار نکلیں گے۔ اس کتاب کو مکان مصنف سے حاصل کرسکتے ہیں۔ مزید تفصیلات
کے لیے مصنف کتاب محسن خان سے فون نمبر09397994441یا ای میل
[email protected]پرربط پیدا کیاجاسکتا ہے۔
٭٭٭
|