گزشتہ ہفتے بی بی سی کے ساتھ خصوصی انٹرویومیں جنرل جان
نکولسن نے کہا ''کہ انہوں نے روسیوں کی جانب سے غیر مستحکم کرنے والی
سرگرمیاں دیکھی ہیں۔ہمارے پاس طالبان کی جانب سے لکھی جانے والی ایسی
کہانیاں موجود ہیں جو میڈیا میں شائع ہوئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ دشمن
نے ان کی مالی مدد کی۔ ہمیں افغان حکومت نے وہ ہتھیاردیے ہیں جو روسیوں نے
طالبان کو فراہم کیے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے اس میں روسی ملوث ہیں لیکن روس کا
طالبان کے ساتھ براہ راست تعلق ایک نئی چیز ہے۔ روس نے تاجکستان کے ساتھ
افغان سرحد پر مشقوں کاایک سلسلہ شروع کیا ہے۔امریکی جنرل کے بقول یہ
انسداد دہشتگردی کی مشقیں ہیں لیکن ہم روسی پیٹرن پہلے دیکھ چکے ہیں،وہ بڑے
پیمانے پرساز وسامان لے جاتے ہیں اورپھراس میں سے کچھ سامان پیچھے رہ
جاتاہے۔یہ ہتھیار اوردوسراسامان سرحد کے ذریعے سمگل کیا جاتا ہے اور پھر
طالبان کو فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ روس طالبان کو کتنی مدد
فراہم کر رہا ہے۔ طالبان کوفراہم کیے جانے والے ہتھیاروں میں رات کے
اندھیرے میں دیکھنے والی عینکیں، میڈیم اور ہیوی مشین گنز کے علاوہ چھوٹے
ہتھیار بھی شامل ہیں اوریہ ہتھیارافغان افواج او نیٹو کے مشیروں کے خلاف
استعمال ہونے کاامکان ہے۔روس اورطالبان نے علیحدہ علیحدہ بیانات میں
افغانستان میں امریکی افواج کے سربراہ کے اس بیان کو غلط قرار دیا ہے۔
طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے کسی بھی ملک سے مدد نہیں لی
ہے۔دوسری جانب روس نے طالبان کو ہتھیار اور مالی امداد فراہم کرنے کی تردید
کی ہے تاہم اس نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ اس نے شدت پسند گروپ کے ساتھ
مذاکرات کیے ہیں''۔
دراصل امریکی قیادت افغانستان میں بری طرح پھنس چکی ہے اوراب وہ ایسے
خلفشارمیں مبتلاہیں کہ انہیں اب خودسمجھ میں نہیں آرہاکہ وہ کیاحکمت عملی
اختیارکریں جس سے وہ اپنی عزت محفوظ رکھ سکیں اوراپنے باوقارطریقے سے اپنی
فوجیوں کاانخلاء کرسکیں۔معاشی بوجھ بھی کم ہوجائے اوران کی سیاسی چالیں بھی
کامیابی سے ہمکنارہوجائیں جبکہ حالات امریکا کو جس مقام پرلے آئے ہیں یہاں
اس کی تمام خواہشات پوری ہوہی نہیں سکتیں۔ ان خواہشات کی تکمیل کی کاوشیں
اس وقت رنگ لاسکتی تھیں جب پاکستان امریکاکے ساتھ خلوصِ دل کے ساتھ چل
رہاتھا جب پاکستان کی مسلح افواج نے پاکستان میں دہشتگردوں کے خلاف ''ضربِ
عضب''شروع کیاتھا،اس وقت امریکاپاکستان کوبھرپورامداد اور تعاون فراہم
کرتاتوممکن ہے اس کے منطقی انجام کی صورت میں امریکی خواہشات پوری ہوجاتیں
لیکن امریکی قیادت نے نہ صرف یہاں سے بھاگ جانے والے دہشتگردوں کوافغانستان
داخل ہوتے وقت جان بوجھ کرآنکھیں بندکرلیں بلکہ بنیادی اورسنگین غلطی یہ کی
کہ پاکستان کے ازلی اوربدترین دشمن بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھالیں اوراس
کوافغانستان میں بھرپورمداخلت کااختیاربھی دے دیااورپاکستان پردہشتگردوں کی
معاونت کاالزام عائدکرکے بلیک میل کرنے کی سازش شروع کردی اورساتھ ہی بھارت
کواس خطے کاتھانیداربنانے کیلئے عملی اقدامات شروع کردیئے اوراس معاملے میں
پاکستان کودبانے کی کوششیں شروع کردیں جبکہ دنیاجانتی ہے کہ پاکستانی سیاسی
وعسکری قیادت اورعوام اپنا سب کچھ قربان کردیں گے لیکن متعصب بھارتی بنئے
کی بالادست کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے اوردنیاکی جو بھی قوت
ایساکرنے کی کوشش یاسازش کرے گی وہ خواہ کتنی ہی بڑی قوت کیوں نہ ہوپاکستان
اس سے دشمنی مول لینے سے لمحہ بھرکیلئے نہ توتاخیراور نہ ہی گھبرائے
گاکیونکہ پاکستان کی مسلح افواج کواپنے اللہ اوراس کی عطاکردہ قوت،مہارت
اورصلاحیتوں پربھرپورایمان واعتقادہے۔
امریکی قیادت نے یہی غلطی یہاں کردی تھی جس بناء پرٹرمپ کواپنی افغان
پالیسی میں مکمل طورپرناکامی نظرآرہی ہے اوراب حالت یہ ہوگئی ہےکہ ٹرمپ
کمبل چھوڑنے کی کوشش کررہاہے لیکن اب کمبل نہیں چھوڑرہالہنداوہ نئی جنگی
چالوں پرعمل کرکے نجات حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکا نے
پاکستان کے ساتھ مذاکرات پہلے انتہائی اہم اقدام کرتے ہوئے طالبان کمانڈر
ملافضل اللہ،عبدالولی اورمنگل باغ کے سروں کی قیمت مقررکردی ہے۔یہ تینوں
کالعدم تحریک طالبان کے بڑے عہدیدارہیں۔یہ اعلان پاک امریکاتعلقات سے چند
گھنٹے قبل کیاگیا۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)کے کمانڈرعبدالولی
اور منگل باغ کے سرکی قیمت تین ملین ڈالرجبکہ ملافضل اللہ کے سرکی قیمت
پانچ ملین ڈالر مقررکی گئی ہے۔امریکاکی جانب سے خیر سگالی کایہ اقدام پاک
امریکا تعلقات استوارکرنے میں خوش آئندقراردیاجارہاہے لیکن جہاں تک پاکستان
سے ان مفروردہشتگردوں کاتعلق ہے یہ سب افغانستان میں مقیم ہیں اوروہیں بیٹھ
کر بھارتی ''را''کی مددسے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی کاروائیاں ترتیب
دیتے اورکنٹرول دیتے ہیں۔ان کے بارے میں پاکستان نے ابتداء ہی سے افغانستان
کی کٹھ پتلی حکومت کوٹھوس اورمصدقہ شواہدکے ساتھ مطلع کرچکاہےکہ یہ تمام
دہشتگردافغانستان کے کنٹرکے علاقے میں آزادانہ طورپرمقیم ہیں اورپاکستان ان
کی گرفتاری کامطالبہ کرتاچلاآ رہاہے لیکن امریکااپنی افواج کی موجودگی
کےباوجودکسی بھی قسم کی کاروائی کرنے سے گریزکررہاہے۔
اس ضمن میں ایک بارافغان فورسزنے دنیاکے دکھاوے کیلئے معمولی سی ادھوری
کاروائی کی تھی لیکن آج تک ان دہشتگردوں کواپنی ہرقسم کی کاروائیوں کیلئے
فری ہینڈملاہواہے۔اس دوران ملافضل اللہ نے پاکستان میں کئی دہشتگردانہ
کاروائیاں کیں جن کووہی سے کنٹرول کیاگیااوران تمام واقعات کی ذمہ داری بھی
قبول کی جبکہ امریکاان کاروائیوں میں پاکستان کی مددکرنے یاافغانستان میں
کوئی کاروائی کرنے کی بجائے پاکستان پرحقانی نیٹ ورک کے پاکستان میں مفروضہ
ٹھکانوں کے خلاف کاروائی کامطالبہ کرتارہاجبکہ پاکستان کی دہشتگرد ی کے نام
پردی جانے امدادبھی روک لی اوردیگرہرقسم کی معاونت سے ہاتھ کھینچناشروع
کردیا۔ٹرمپ کے خیال میں پاکستان بھی دیگرعرب اورچھوٹی ریاستوں کی طرح ایک
ریاست ہے جوامریکاجیسی سپرطاقت کی ایک دہمکی سے سرجھلاکراس کے تابع ہوجائے
گی ۔بس یہی غلط فہمی ٹرمپ کی تمام پالیسیوں پرپانی پھیرگئی جس کاتذکرہ
امریکی فوکس نیوزنے بھی اپنے پروگرام میں کیاکہ ''ٹرمپ نے پرانی پالیسی کو
مدنظررکھتے ہوئے یہ غلطی کی اوراس نے جنرل باجوہ کوسمجھنے میں فاش غلطی کی''۔
اگرٹرمپ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے افغانستان سمیت اس خطے کے مسلمانوں کی
تاریخ پڑھ لیتاتواسے یہ معلوم ہوجاتاکہ افغان قوم وہ قوم ہے جس پرکوئی
غیرملکی طاقت جم کر حکومت نہیں کرسکی اورنہ ہی افغان اپنی سرزمین پرکسی
غیرکے قدم برداشت کرتے ہیں اورجہاں تک برصغیرکے مسلمانوں کاتعلق ہے تویہ وہ
قوم ہے جوباہرسے آکربھارت پرفاتح ہوئی اوراس پرصدیوں تک حکمران رہی۔یہ درست
ہے کہ حکمرانی کے دورچند قائدین عیاشیوں میں ڈوب کراپنے اقتدارسے ہاتھ
دھوبیٹھے اورچندانگریزسازش کے ذریعے سے ان سے اقتدار چھین کرقابض ہوگئے
لیکن ٹرمپ کویہ بھی سوچنا چاہئے کہ پھراسی قوم کے غریب اورنہتے عوام نے اس
قابض حکمران انگریزکویہاں سے نکلنے پرمجبوربھی کر دیاتھااور اس سے آزادی
بھی حاصل کی تھی۔
اگرٹرمپ یہ تاریخ پڑھ لیتاتوکبھی یہ حماقتیں نہ کرتاجووہ کرتارہاہے اور خاص
طورپر پاکستان پربھارت کوکبھی بھی ترجیح نہ دیتابلکہ جوبھی کرناتھاوہ
پاکستان کے ساتھ مل کرمنصوبہ بندی کرتاتواب تک کامیابی کے دہانے پرپہنچ
چکاہوتالیکن ٹرمپ نے حماقت یہ کی کہ لڑنے کیلئے پاکستان کوجھونک دیا
اورامدادومہربانیاں نچھاورکرنے کیلئے پاکستان کے ازلی دشمن اورمسلمانوں کے
قصاب مودی کومنتخب کرلیاجبکہ امریکاکواس کابخوبی علم ہے کہ پاکستان سب کچھ
برداشت کرسکتاہے لیکن خطے میں بھارت کی بالادستی قائم نہیں ہونے دے گابلکہ
اب تواس وقت تک دوستی کے بھی سب امکانات خارج ازامکان ہیں جب تک بھارت
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں پرظلم وستم کاخاتمہ اوران کاحق
خودارادیت نہیں دیتا ۔
اب جبکہ امریکی قیادت کویہ نظرآرہاہے کہ وہ افغانستان میں بری طرح پھنس چکی
ہے جس کی سے نجات اب ممکن نہیں تووہ ایک طرف پاکستان کی سات کمپنیوں
پرپابندی لگا کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کوایک مرتبہ پھرنشانے پر لے
لیاگیا ہے جس کے بعدپاکستان نے امریکاکواس آگ کے کھیل سے کھیلنے کو سیاسی
دباؤپرمتنبہ بھی کردیاہے اوردوسری طرف پاکستان سے محبت نہیں بلکہ فلرٹ کرتے
ہوئے ٹی ٹی پی کے ملافضل اللہ اورمنگل باغ کے سروں کی قیمت مقررکرکے دوستی
کاجھانسہ دے رہاہے کہ جس طرح امریکانے پاکستان کے دشمنوں کے خلاف اقدامات
کئے ہیں،پاکستان بھی اس کے جواب میں افغان طالبان کے خلاف عسکری کاروائی
کرکے امریکاکے قیام کویقینی بنائے تاکہ امریکا مستقبل میں افغانستان کواپنے
مستقل فوجی اڈے کے طورپراستعمال کرتے ہوئے اس خطے میں اپنی بالادستی
کویقینی بناسکے جبکہ امریکاکو اس بات کاعلم ہے کہ طالبان اس وقت افغانستان
کے 60 فیصد علاقے پرقابض ہیں اوردن بدن ان کی طاقت میں اضافہ
ہوتاجارہاہے۔اب یہ ٹرمپ پرمنحصر ہے کہ وہ یاتوبھارت پر پوراانحصارکرتے ہوئے
امریکی دولت اوروقت ضائع کرنے کے باوجوداسی طرح ذلیل وخوارہوتارہے
یاپھرزمینی حقائق اوراپنی غلط پالیسیوں کوتسلیم کرے کہ طالبان نے اگرامریکا
اوراس کے اتحادیوں کی بے پناہ طاقت کے غرورکو خاک چٹائی ہے تووہ پھربھارت
کوکس طرح افغانستان میں رہنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔کیاامریکایہ بھول گیاکہ
طالبان کے دورِحکومت میں ملاعمر نے تمام ہندوؤں کوایک مخصوص لباس پہننے
کاحکم دیتے ہوئے افغانستان میں ہرقسم کے بتوں کوپاش پاش کرکے ایک واضح
پیغام دیاتھاکہ بت پرستوں کو برداشت نہیں کیاجاسکتا۔
یہ درست ہے کہ مکارہندوجہاں جاتاہے وہاں اپنی ثقافت کے ذریعے سے قابض ہونے
کی سازش کرتاہے جس کیلئے بھارتی نیم عریاں اورسفلی جذبات بھڑکانے والی
فلمیں اور ڈرامے نئی نسل کوورغلانے میں کسی حدتک کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن وہ
قوم کے معماروں کونہیں بہکا سکتے،اس طرح بھارتی قیادت کسی بھی سازش سے کم
ازکم افغانستان کی حدتک کامیاب نہیں ہوسکتی اوریہاں امریکا کو منہ کی کھانی
پڑے گی۔ امریکا پاکستان کو کئی مرتبہ دھوکہ دے چکاہے اور پاکستانی سیاسی
وعسکری قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام بھی اب امریکاکے دہرے کردارکوجان
چکے ہیں کہ 1971 ء کی جنگ میں امریکی بحری بیڑہ کا دھوکہ دراصل بھارتی سازش
کوکامیاب کرنامقصودتھا ۔خطے میں اس وقت پاکستان اورچین دوستی کے ایسے رشتے
میں منسلک ہوچکے ہیں جس کی بناء پرسی پیک جیساعظیم الشان منصوبہ بھی پایہ
تکمیل کوپہنچ رہاہے جس سے پاکستان کی نہ صرف معاشی بلکہ عسکری قوت میں بھی
اضافہ ہوگااس لئے اب کوئی لالچ یاسازش پاکستان کوچین سے دورکرنے میں کامیاب
نہیں ہوسکتی اور دوسری طرف خطے میں پاکستان،روس اورچین کابھی ایک مضبوط
بلاک تشکیل پاچکاہے ۔پاکستان نے مسلسل امریکی دھوکے سے یہ سبق سیکھاہے کہ
بجائے ہزاروں میل دور بیٹھے ناقابل یقین امریکاکی بجائے اپنے پڑوسیوں سے
مضبوط تعلقات رکھناپاکستانی بقاء کیلئے زیادہ ضروری ہے جومشکل وقت میں آپ
کا ساتھ بھی دے سکیں۔
بہرحال اب بھی امریکانے اپنے مفادات کیلئے ملاعمراورمنگل باغ کے سروں کی
قیمت لگاکرپاکستان کولالی پاپ دینے کی کوشش کی ہے وگرنہ امریکاکو افغانستان
میں ان دہشتگردوں کے ٹھکانوں کابخوبی علم ہے۔امریکی ڈرون سارے افغانستان
میں مٹرگشت کرتے رہتے ہیں اوربلونشان ہیلی کاپٹربھی داعش کے علاقوں میں
جاکرپراسرارسرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں ۔اگرامریکی قیادت اپنے اس اقدام پر
سنجیدہ ہوتے توسروں کی قیمت مقرر کرنے کی بجائے ان دہشتگردوں کواپنانشانہ
بناسکتی ہے یابراہِ راست اپنی افواج کے ذریعے حملہ کرکے ان کوختم کرکے
پاکستان سے مزیدکسی اقدام کیلئےبات کرتی۔یادرہے کہ اب پاکستان کی عسکری
قیادت جس نے دہشتگردی کوختم کرنے کیلئے لازوال قربانیوں کی ایک تاریخ رقم
کی ہے ،وہ اب مزیدکسی دھوکے میں نہیں آئے گی اوراس حوالے سے ساری پاکستانی
قوم اپنی بہادرسپاہ کے ساتھ ہے۔ |