بالغ نظر لیڈرذوالفقار علی بھٹو

بھٹو صاحب ایک سچے، سلجھے ہوئے پُراعتماد شخصیت کے مالک تھے۔اُن کی سوچ مستقبل کے امکانات کا احاطہ کررہی تھی۔وہ عوام کے بیچ میں رہنے والے آدمی تھے کیوں کہ وطن کے نظام کی بنیاد عوام کے اتحاد پر ہوتی ہے اور یہی اتحاد اور اخوت، وطن کی ترقی کا اصل سرچشمہ ہے۔

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں۔۔۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

کسی بھی معاشرے میں زندہ لوگوں کی اکثریت بہت کم ہوتی ہے۔ اکثر لیڈر تو موجود ہوتے ہیں مگر اُن کی سوچ کا دائرہ صرف اور صرف اردگرد کے موجودہ حالات پر مرکوز رہتا ہے۔ مگر بعض بالغ نظر لیڈر مستقبل کی پیش بینی بھی کرتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ صحیح ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح قائد عوام اور بابائے آئین پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے آج سے پچاس سال قبل اپنی بالغ نظری اور وژن کی بنیاد پر ایسی پیشگوئیاں کردی تھیں جو آج من وعن سچ ثابت ہورہی ہیں۔

بھٹو صاحب ایک سچے، سلجھے ہوئے پُراعتماد شخصیت کے مالک تھے۔اُن کی سوچ مستقبل کے امکانات کا احاطہ کررہی تھی۔وہ عوام کے بیچ میں رہنے والے آدمی تھے کیوں کہ وطن کے نظام کی بنیاد عوام کے اتحاد پر ہوتی ہے اور یہی اتحاد اور اخوت، وطن کی ترقی کا اصل سرچشمہ ہے۔وہ عوام کے ذہنی شعور کے بارے میں کہتے ہیں”جب تک ملک کے عوام اپنے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ نہیں کرتے، ہماری مشکلات کا خاتمہ محال ہے۔ موجودہ جمود کو محض ہتھکنڈوں سے نہیں توڑا جاسکتا۔ آگے کی جانب کوئی قدم پچھلی غلطیوں کے بوجھ سے آزاد ہوکر ہی اُٹھ سکتا ہے...آزادیِ ضمیر کے اس دور میں عوام کی دانش مندی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان نے حکومت اور دستور کے خاصے تجربے کردیکھے ہیں۔ اپنی اجتماعی ذہانت کے بل پر، جسے پچھلے بیس سال سے تجربے نے مزید پختگی عطا کردی ہے، ہمارے عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں“۔

بھٹو صاحب جمہوریت کے لیے کہتے ہیں ” ایسے جمہوری اختیار کا دور دورہ ہونا چاہیے جس میں پوری آبادی نہ صرف شریک ہو بلکہ اس بات کا احساس رکھے کہ اُسے اختیار حاصل ہے اور اس پر فخر کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بنیادی حقوق کو بحال کیا جائے اور پاکستان کی عوام کو ایک ایسا مساویانہ معاشرے کے لیے اُبھارا جائے جو لوگوں کی ضروریات کا کفیل ہو اور اُن کے زیر اثر ہو۔ تمام تر طاقت عوام کو منتقل ہوجانی چاہیے۔ یہ صرف جمہوریت کے ذریعے ہوسکتا ہے۔’ جمہوریت ہماری سیاست ہے‘ کے اصول کے پیچھے یہی حقیقت کارفرما ہے“۔

پاکستان میں عوام کے سیاسی حقوق کے بارے میں بھٹو صاحب نے جو تصویر پیش کی ہے وہ بھی ملاحظہ ہو”پاکستان کا اتحاد اُس وقت بروئے عمل آئے گاجب عوام کو اُن کے سیاسی حقوق جن میں اقتصادی مساوات بھی شامل ہے، دے دیئے جائیں گے۔ لُوٹ کھسوٹ جتنی زیادہ ہوگی قومی اتحاد اتنا ہی محال ہوتا چلا جائے گا۔ جتنی جلدی لُوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہوگا اتنی جلدی اتحاد کی فضا پیدا ہوجائے گی۔پاکستان کے وہ شان دار عوام جن کی پُشت پر ایک بھرپور اور قابل فخر تاریخی ورثہ ہے۔ ماضی کی طرح دوبارہ متحد ہوجائیں گے۔ شرط یہ ہے کہ ان کے حقوق بحال کردیئے جائیں“۔

خارجہ پالیسی کے حوالے سے چین کے بارے میں بھٹو صاحب کے جو نظریات تھے ملاحظہ ہوں”عوامی جمہوریہ چین وہ واحد ملک ہے جسے پاکستان کی اصل ضروریات سے ہمدردی ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں اس ملک کے مفادات پاکستان کے مفادات سے ہم آہنگ ہیں۔ یہ خالصتاً مشترکہ مفادات کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو وہ واحد عظیم طاقت جس کے مقصدی مفادات پاکستان سے موافقت رکھتے ہیں اور وہ واحد ملک جو پاکستان کی مدد کرنے کے قابل ہے عوامی جمہوریہ چین ہے“۔

آج پاک چین اقتصادی راہداری کی باتیں زوروں پر ہیں اور چین کے ساتھ تجارتی معاہدے ہورہے ہیں اور یہ راہداری آئندہ دنیا کے اقتصادی حب کی شکل اختیار کرلے گی۔ بھٹوصاحب بھی اس بارے میں مستقبل کی طرف دیکھ رہے تھے وہ کہتے ہیں کہ ”چین ایک ایسی عظیم طاقت ہے جس کی قوت میں دن دونا اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ایک ایشیائی ملک ہے اور پاکستان کا قریبی ہمسایہ۔لازم ہے کہ ایشیاءمیں چین کا اثربڑھتا چلا جائے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کے مفادات پاکستان سے ہم آہنگ ہیں اور جو پاکستان کو ہر شعبہ حیات میں روزافزوں امداد دیتا رہے گا، جب کہ امریکی امداد روز بروز گھٹتی چلی جائے گی“۔آج دیکھ لیں ہمیں امریکہ اپنی شرائط پر امداد دیتا ہے اور جو امداد دیتا تھا وہ بھی اب کم ہوتی جارہی ہے۔ ایک بالغ نظر لیڈر کی سوچ کہاں تک ہوتی ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے ہی اس بات کا اظہار کردیا کہ امریکہ پاکستان کا دوست نہیں ہے بلکہ چین ہمارا ہمسایہ اور دوست ہے۔

تنازع کشمیر کے بارے میں بھٹوصاحب کہتے ہیں”جب بھی کشمیر پر بھارتی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے تو بھارت بحران پر قابو پانے کے لیے مذاکرات کا جال بچھاتا ہے... اس طرح اُسے مہلت مل جاتی ہے کہ وہ اپنی پوزیشن مضبوط کرلے اور معاملات کو اپنے ڈھب پر لے آئے۔ جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو بھارت اپنا مجموعی موقف اختیار کرلیتا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اُس کے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی گنجائش نہیں“۔

بھٹو صاحب اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ بھارت ہمیشہ راہِ فرار اختیار کرلیتا ہے، جب اُسے بین الاقوامی دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر کشمیریوں کی جدوجہد میں تیزی آتی ہے تو وہ اپنے آپ کو بے بس سمجھ کر مذاکرات کی بات کرتا ہے اور جیسے ہی تھوڑا وقت گزرتا ہے ، بھارت اپنے پرانے گھسے پٹے موقف کو دُہراتا ہے اور دھوکے سے کام لے کر مزید وقت نکال لیتا ہے، مگر اب بھارت کو سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیری عوام کی حق خودارادیت کو وہ مزید غضب نہیں کرسکتا۔

موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو یہ وہی حالات ہیں جو بھٹوصاحب نے برسوں پہلے بیان کیے ہیں۔ یہی وہ کاروباری اور سرمایہ دار ہیں جنھوں نے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو اپنے خزانوں میں بھرلیا اور عوام کے لیے صرف کھوکھلے نعرے ہی رہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ 4اپریل1979ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔چند لوگوں کی ناپسندیدگی کی بنا پر ایک عظیم لیڈر کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔اس پھانسی نے پاکستان کو معاشی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ہر سطح پر بہت پیچھے کردیا ۔ اگر بھٹو صاحب کو موقع ملتا تو یقینا وہ اپنے وژن سے پاکستان کو بہت آگے لے جاتے، یہ ایک تحریک، ایک جذبے اور ایک مشن کا قتل تھا، جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے انتہائی غیرمناسب تھا۔
 

صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 86746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.