فتوحاتِ شام و دمشق:
اب تلک ایرانیوں کے ساتھ عراقی معرکوں کا حال پیش کیا گیا تھا،
سلسلہ واقعات کے لحاظ سے ہم اس موقع پر رومیوں کے ساتھ لشکر کشی کے ابتدائی
حالات پیش کررہے ہیں ،
دور فاروقی میں اس کی ابتداء شام سے ہوتی ہے، ہم فتح شام و دمشق پر پہلے
تفصیل پیش کرچکے ہیں ،
لیکن اس موقع پر یاد دہانی کے لیے شام کی لشکر کشی کے ابتدائی حالات بھی
نہایت اجمال کے ساتھ لکھتے ہیں۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آغاز 13 ہجری (634 عیسوی) میں شام پر
کئی طرف سے لشکر کشی کی۔
ابو عبیدہ کو حمص پر، یزید بن ابی سفیان کو دمشق پر، شرجیل کو اردن پر،
عمرو بن العاص کو فلسطین پر مامور کیا۔
فوجوں کی مجموعی تعداد 4000 تھی، عرب کی سرحد سے نکل کر ان افسروں کو ہر
قدم پر رومیوں کے بڑے بڑے جتھے ملے جو پہلے سے مقابلہ کے لئے تیار تھے ،
ان کے علاوہ قیصر نے تمام ملک سے فوجیں جمع کر کے الگ الگ افسروں کے مقابلے
پر بھیجیں۔
یہ دیکھ کر افسران اسلام نے اس پر اتفاق کیا کہ کل فوجیں یکجا ہو جائیں۔ اس
کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا
کہ اور فوجیں مدد کو روانہ کی جائیں،
چنانچہ خالد بن ولید جو عراق کی مہم پر مامور تھے عراق سے چل کر راہ میں
چھوٹی چھوتی لڑائیاں لڑتے اور فتح حاصل کرتے دمشق پہنچے
اور اس کو صدر مقام قرار دے کر وہاں مقام کیا۔
قیصر نے ایک بہت بڑی فوج مقابلے کے لیے روانہ کی جس نے اجنادین پہنچ کر جنگ
کی تیاریاں شروع کیں۔
خالد اور ابو عبیدہ خود پیش قدمی کر کے اجنادین پر بڑھے
اور افسروں کو لکھ کر بھیجا کہ وہیں آ کر مل جائیں۔
چنانچہ شرجیل، یزید، عمرو بن العاص وقت مقرر پر اجنادین پہنچ گئے۔
خالد نے بڑھ کر حملہ کیا اور بہت بڑے معرکے کے بعد جس میں تین ہزار مسلمان
شہید ہوئے۔
فتح کامل حاصل ہوئی۔ یہ واقعہ حسب روایت ابن اسحاق 28 جمادی الاول 13 ہجری
(634 عیسوی) میں واقع ہوا۔
اس مہم سے فارغ ہو کر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر دمشق کا رخ کیا۔
اور دمشق پہنچ کر ہر طرف سے شہر کا محاصرہ کر لیا۔
محاصرہ اگرچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں شروع ہوا،
چونکہ فتح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں حاصل ہوئی،
اس لئے ہم اس معرکہ کی حال تفصیل سے لکھتے ہیں۔
فتح دمشق:
یہ شہر شام کا ایک بڑا صدر مقام تھا اور چونکہ جاہلیت میں اہل عرب تجارت کے
تعلق سے اکثر وہاں آیا جایا کرتے تھے،
اس کی عظمت کا شہرہ تمام عرب میں تھا۔
ان وجوہ سے خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے اہتمام سے محاصرہ کے سامان
کئے۔
شہر پناہ کے بڑے بڑے دروازوں پر ان افسروں کو مقرر کیا،
جو شام کے صوبوں کی فتح پر مامور ہو کر آئے تھے۔
چنانچہ عمرو بن العاص باب توما پر، شرجیل باب الفرادیس پر،
ابو عبیدہ باب الجلیہ پر متعین ہوئے۔
اور خود خالد نے پانچ ہزار فوج ساتھ لے کر باب الشرق کے قریب ڈیرے ڈالے۔
محاصرہ کی سختی دیکھ کر عیسائی ہمت ہارتے جاتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ ان
کے جاسوس جو دریافت حال کے لئے مسلمانوں کی فوج میں آتے جاتے تھے۔
آ کر دیکھتے تھے کہ تمام فوج میں ایک جوش کا عالم ہے۔
ہر شخص پر ایک سکوت سا چھایا ہوا ہے۔ ہر ہر فرد میں دلیری، ثابت قدمی،
راستبازی، عزم اور استقلال پایا جاتا ہے۔
تاہم ان کو یہ سہارا تھا کہ ہرقل سر پر موجود ہے اور حمص سے امدادی فوجیں
چل چکی ہیں۔
اسی اثناء میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتقال کیا۔
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے۔
عیسائیوں کو یہ بھی خیال تھا کہ اہل عرب ان ممالک کی سردی کو برداشت نہیں
کر سکتے ،
اس لئے موسم سرما تک یہ بادل آپ سے آپ چھٹ جائے گا۔
لیکن ان کی دونوں امیدیں بیکار گئیں۔ مسلمانوں کی سرگرمی جاڑوں کی شدت میں
بھی کم نہ ہوئی۔
ادھر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذوالکلاع کو کچھ فوج دے کر دمشق سے ایک
منزل کے فاصلے پر متعین کر دیا تھا کہ ادھر سے مدد نہ آنے پائے۔
چنانچہ ہرقل نے حمص سے جو فوجیں بھیجی تھیں وہیں روک لی گئیں۔
دمشق والوں کو اب بالکل یاس ہو گئی۔ اسی اثناء میں اتفاق سے ایک واقعہ پیش
آیا جو مسلمانوں کے حق میں ئائید غیبی کا کام دے گیا۔
یعنی بطریق دمشق کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا۔
جس کی تقریب میں تمام شہر نے خوشی کے جلسے کئے اور کثرت سے شرابیں پی کر
شام سے پڑ کر سو رہے۔
خالد راتوں کو سوتے کم تھے اور محصورین کی ذرا ذرا سی بات کی خبر رکھتے
تھے۔
اس سے عمدہ موقع کہاں ہاتھ آ سکتا تھا۔ اسی وقت اٹھے اور چند بہادر افسروں
کو ساتھ لیا۔
شہر پناہ کے نیچے خندق پانی سے لبریز تھی۔
مشک کے سہارے پار اترے اور کمند کے ذریعے سے دیوار پر چڑھ گئے
اور جا کر رسی کی سیڑھی کمند سے اٹکا کر نیچے لٹکا دی۔
اور اس ترکیب سے تھوڑی دیر میں بہت سے جانثار (یہ طبری کی روایت ہے۔ بلاذری
کا بیان ہے کہ خالد کو عیسائیوں کے جشن کی خبر خود ایک عیسائی نے دی تھی
اور سیڑھی بھی عیسائی لائے تھے )
فصیل پر پہنچ گئے۔
خالد نے اتر کر پہلے دربانوں کو تہ تیغ کیا۔
پھر قفل توڑ کر دروازے کھول دیئے۔
ادھر فوج پہلے سے تیار کھڑی تھی۔
دروازے کھلنے کے ساتھ ہی سیلاب کی طرح گھس آئی اور پہرہ کی فوج کو تہ تیغ
کر دیا۔
عیسائیوں نے یہ رنگ دیکھ کر شہر پناہ کے تمام دروازے کھول دیئے اور ابو
عبیدہ سے ملتجی ہوئے کہ ہم کو خالد سے بچائیے۔
مقسلاط میں جو ٹھٹھیروں کا بازار تھا۔
ابو عبیدہ اور خالد کا سامنا ہوا۔
خالد نے شہر کا جو حصہ فتح کر لیا تھا۔
اگرچہ لڑ کر فتح کیا تھا۔
لیکن ابو عبیدہ نے چونکہ حاکمیت منظور کر لی تھی۔
مفتوحہ حصے میں بھی صلح کی شرطیں تسلیم کر گئیں۔
مسللمانوں کی انصاف پسندی اور شجاعت اور دلیری کو دیکھ کر وہاں سے بہت بڑی
نفری جہاد کے لئے تیار ہوئی اور ایمان والوں کی بہت بڑی فوج تیار ہوگئی اور
وہاں کے جنگی استادوں نے خدمات پیش کیں جس سے نئے فوجیوں کو جدید فوجی
تربیّت سے لیس کیا گیا-وہاں پر عدل وانصاف کی مضبوط حکومت کا آغاز ہوا -
اس طرح سے حضرت عمر کے دور خلافت کی پہلی بڑی فتح حاصل ہوئی-
|