منی شنکر ائیر کے بڑ بولے پن کا فائدہ اٹھا کر مودی جی
ہندوستان کے پہلے چائے والے وزیراعظم بن گئے۔ ہوا یہ کہ مودی جی نے غریب
عوام کو رجھانے کے لیے کہہ دیا میں ایک چائے والے کا بیٹا ہوں ۔ تم ہی میں
سے ایک ہوں اس لیے مجھ پر رحم کرو اور ووٹ دے کر وزیراعظم بنادو۔ میرا
پردھان منتری بننا گویا تمہارا وزیراعظم بن جانا ہے۔ اس پر منی شنکر ائیر
نے رعونت سے کہہ دیا کہ ایک چائے والا ہندوستان کا وزیراعظم نہیں بن سکتا ۔
اب کیا تھا سارے ہندوستان میں چائے پر چرچا شروع ہوگیئ ۔ اس چائے میں نہ
جانے کیا گھول کر پلایا جاتا تھا کہ نوجوانوں کو ایسا لگنے لگتا کہ ان کی
بیروزگاری جلد ہی دور ہوجائیگی۔ ہر خاص و عام یہ محسوس کرتا کہ اس کے بنک
اکاونٹ میں ۱۵ لاکھ روپئے جمع ہوجائیں گے اور اچھے دن تو بس آیا ہی چاہتے
ہیں ۔ اس طرح چائے کی پیالی سے نکلنے والی سونامی مودی لہر میں تبدیل ہوگئی
اور وہ پردھان سیوک بن گئے ۔ سونامی جیسے بڑے سیلاب کی تباہ کاری اس کے اتر
جانے کے بعد بھی جاری رہتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ مودی لہرکے ساتھ ہوا کہ اس کے
اترنے سے قبل مہاراشٹر اور ہریانہ کی کانگریسی حکومتیں بھی اس میں بہہ گئیں
اور دونوں صوبوں میں پہلی بار کمل کھل گیا۔
مودی لہر کی چوتھی برسی کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں ایسے میں چائے
پھر ایک بار موضوع بحث بن گئی ہے۔ معاملہ چائے پر چرچا کا نہیں چائے پر
خرچہ کا ہے۔معلومات کے حق کی بدولت کانگریسی رہنما سنجے نروپم کو حکومت نے
بتایا وزیراعلیٰ مہاراشٹر کے دفتر میں ہر روز ۱۸ ہزار ۵ سو ۹۱ چائے پلائی
جاتی ہے۔ اس معاشی سال کے اندر اس مد میں ۴ء۳ کروڈ روپئے خرچ ہوئے ہیں۔ اگر
صرف وزیر اعلیٰ کے دفتر میں چائے پر کروڈوں روپئے خرچ کردیئے جاتے ہیں تو
اس کے ساتھ پلائے جانے والے وائے اور پانی پر کتنا خرچ ہوتا ہوگا؟ اور
دوسرے وزراء بھی پیچھے نہیں ہونگے۔ اس معاملے کا اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ
ہرسال اس میں بتدریج ترقی ہو رہی ہے ۔ گزشتہ سال یہ خرچ صرف ۲ء۱ کروڈ تھا
اور اس سے پیوستہ سال جب وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس نئے نئے وزیراعلیٰ بنے
تھے چائے پر خرچ ۵۸ لاکھ روپئے سے زیادہ نہیں خرچ کرسکے تھے۔ یہ تحقیق کا
موضوع ہے کہ اتنی ساری چائے وہ خود پی جاتے ہیں یا مہمانوں کو پلادیتے ہیں
نیز اضافہ ان کے چائے پینے میں ہوا ہے یا پلانے میں ۔
اس قیمتی ائے میں ضرور زعفران ڈال جاتا ہوگا ویسے سنگھ پریوار زعفران کی
قدرکیا جانے؟ اس کے باوجودوزیراعلیٰ کےلیے یہ چائے جو سونے کا انڈا دینے
والی مرغی ہے ۔ لوگ جوق در جوق اس چائے کو نوش فرمانے کے لیے وزیراعلیٰ کے
دفتر پر دستک دیتے ہیں اور بصورت ناکامی خودکشی تک کرلیتے ہیں ۔ گزشتہ سال
ماہِ جون میں نصف گھنٹے کے اندر تین لوگوں اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی ناکام
کوشش کی لیکن ان سب کو چائے پلا کر لوٹا دیا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اس سال ماہ فروری میں پیرول پررہاقتل کے ایک ۴۵ سالہ مجرم وزیراعلیٰ سے رحم
کی درخواست کرنے کے لیے ان کے دفتر پہنچا اور جب اسے چائے تک کے لیے نہیں
پوچھا گیا تو وہ پانچویں منزل سے کود کر جان بحق ہوگیا۔ اویناش نے اپنی
سالی کو گھروالی سمجھ لیا تھا لیکن جب سالی نے اس کی غلط فہمی دور کی تو وہ
آگ بگولا ہوکر وہ قتل کر بیٹھا ۔ وزیراعلیٰ فردنویس اگر چائے پلا کر اس کو
سمجھاتے تو ممکن ہے وہ خودکشی کرنے کے بجائے اپنی سزا پوری کرکے رہا ہوجاتا
لیکن یہ منحوس چائے نہ جانے کس کے لیے بنتی ہے اور کون اس کو پی جاتا ہے؟
اس سے ایک ہفتہ قبل احمد نگر کے ایک ۳۲سالہ بے روزگار نوجوان اویناش شیٹے
نے منترالیہ کے صدردروازے پر خودسوزی کی کوشش کی تھی۔ وہ بیچارہ اپنے جسم
پر مٹی کا تیل ڈالتے ہوئے دھر لیا گیا ۔ کون جانے اس کو گرفتاری کے بعد
وزیراعلیٰ کی زعفرانی چائے نصیب ہوئی یا نہیں؟ اویناش تو خیر اپنی ناتجربہ
کاری کے سبب ناکام رہا لیکن ۸۴ سالہ کسان دھرما پاٹل نے خودسوزی کے بجائے
زہر کھانے کو ترجیح دی ممکن اس نے چوہوں کے زہر کی مددلی ہو جو کروڈوں کی
تعداد میں منترالیہ کے اندر بکھری پڑی ہیں۔ دھرما پاٹل کی ناراضگی حکومت کے
ذریعے ترقیاتی کام میں ان کی زمین کا مناسب معاوضہ نہ دیئے کے سبب تھی۔ کاش
کہ فردنویس چائے پر روپیہ اڑانے کے بجائے وہی رقم کسانوں کو معاوضہ ادا
کرنے پر خرچ کرتے تو غریب دھرما کو اس انتہائی اقدام کے لیے مجبور نہ ہونا
پڑتا بلکہ اس کو اپنے پاس بلا کر زعفرانی چائے پلادیتے تب بھی یہ نوبت نہ
آتی لیکن چائے کے نشے میں چور وزیراعلیٰ سے اس ہمدردی و غمخواری کی توقع
کرنا فضول ہے۔
دھرما پاٹل کے سبب یہ سنگین مسئلہ ذرائع ابلاغ کی زینت بنا ورنہ حزب اختلاف
کے مطابق مہاراشٹر میں پچھلے تین سال کےبی جے پی دور اقتدار میں ۱۰ ہزار
کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ان کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتا۔ سرکاری اعداد و
شمار بتاتے ہیں کہ مہاراشٹر کے مراٹھواڑا علاقے میں جنوری تا دسمبر ۲۰۱۷
کے درمیان ۹۰۷ کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ زمینی حقائق سے واقف افسر ان خودکشی
کی وجہ فصلوں کا خراب ہونا اور کسانوں کا روزافزوں قرض بتا تے ہیں لیکن
امیت شاہ سمیت بی جے پی کا ہر چھوٹا بڑا رہنما اس کے لیے گھریلو مسائل کو
ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو کسانوں اور اہل خانہ سے
چائے پر چرچا کرکے ان کے مسائل حل کیوں نہیں کئے جاتے ؟ کہیں ایسا تو نہیں
کہ اس زعفرانی چائے میں بیروزگاروں اور کسانوں کا کوئی حصہ ہی نہ ہو اور یہ
صرف بی جے پی کو چندہ دہندگان سرمایہ داروں کے لیے مخصوص ہو؟ شرمناک بات یہ
ہے کہ جس صوبے کے ۶۷ ہزار بچےغذائی تنگی کے سبب ہلاک ہوگئے اس کا وزیراعلیٰ
چائے پر دولت لٹا رہا ہے کاش کہ اس سے ان غریب بچوں کو دودھ پلایا جاتا۔
مالی سا ل ۱۸۔۲۰۱۷ء کےلیےمہاراشٹر کےوزیر خزانہ سدھیر منگٹوار نے ۴۵۱۱ کروڑ
روپیہ کے خسارے کا بجٹ پیش کیا – اس عظیم خسارے کو کم کرنے کے لیے چائے پر
خرچ کم کرنے بجائے انہوں نے اقلیتوں کے بجٹ میں کٹوتی کرتے ہوئے اسے ۴۲۵
کروڑ سے ۳۷۵ کروڑ کر دیا-یہ بات قابل شرم ہے کہ جس صوبے میں ملک کی معاشی
راجدھانی ممبئی ہے اس پر فی الحال ساڑھے تین لاکھ کروڑ قرض ہے جو اس سال کے
خاتمے تک ساڑھے چارلاکھ کروڑ تک پہنچ سکتا ہے ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے
چائے پر سنجیدگی سے چرچا نہیں کی گئی تو بہت جلد یہ صوبہ اور ملک دیوالیہ
ہوجائے گا ۔ ایسے میں یہ لوگ کس منہ سے ووٹ مانگیں گے اور کس پیالی میں
کروڈوں کیچائے نوش فرمائیں گے ؟ |