وطن عزیزپاکستان وہ مظلوم ملک ہے جہاں نادیدہ طاقتوں نے
ہمیشہ قوم کے اجتماعی شعور کو اپنا قدرتی سفرجاری رکھنے کے راستے میں روڑے
اٹکائے ہیں(روڑے کی جگہ مولوی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا) جس کے نتیجے میں
دین کی روح سے نا آشنا اور دین ملاں فساد، کے مصداق بہت سے لوگ قوم کے فکری
رھنما بن بیٹھے اس طرفہ تماشے میں عقل و دانش سے عاری بہت سے مولویوں کی
دکانیں تو چل پڑیں لیکن عوام جہالت کی گہری سے گہری کھائی میں دھنستے چلے
گئے یہی وجہ ہے کہ آج ننگی گالیاں بکنے والے مولوی خادم جیسے لوگ بھی ایک
بڑی تعداد کے فکری رھنما ہیں جو اپنی جہالت کے بل بوتے پر ریاست کو گھٹنے
ٹیکنے پر مجبور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے ملاں کس طرح آن ہی آن میں پورے قومی منظر پر چھا
جاتے ہیں؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے افلاطون یا ارسطو کی عقل درکار
نہیں ہے بلکہ تھوڑا بہت شعور رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ ریاست نے جب
ایک عالمی طاقت کے مقابلے میں دوسری عالمی طاقت کی خوشنودی حاصل کرنا چاہی
تو مخصوص بیانیوں کو معاشرے میں فروغ دیا جس کے نتیجے میں اسلامی تعلمیات
سے عاری مولویوں کی سربراہی میں پاکستان "جہادستان" بن کر رہ گیا۔
ہماری ریاست نے مذہب کواستعمال کرتے ہوئے اپنی من پسند عالمی طاقت کا خواب
تو پورا کر دیا لیکن اس نام نہاد فتح، کے بعد جو آگ پاکستان میں لگی اس کو
بجھانے کے لئے ریاست ایک بار پھرسابقہ غلطیوں کو دہراتے ہوئے فسادی مولویوں
کی طرف دیکھ رہی ہے۔
کبھی پیغام پاکستان فتوی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے تو کبھی پاکستان کو آگ و
خون میں نہلانے والوں کو پر امن شہری بنانے کے لئے ریلیف دیا جاتا ہے۔لیکن
حالات ہیں کہ سدھرنے کا نام نہیں لیتے،سدھریں بھی کیسے؟ نہ ریاست دین کا
غلط استعمال روکے گی اور نہ حالات سدھریں گے۔
جس عالمی طاقت کو خوش کرنے کے لئے ہم نے اپنا تن من دھن قربان کیا اور
مولویوں کو اس قوم کے سر پر سوار کر دیاتھا وہ آج ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہے
اور ہماری ریاست ایک بار پھراسی غلطی کو دہراتے ہوئے تھوڑی سی تبدیلی کے
ساتھ سابقہ سکرپٹ پر کام کر رہی ہے پہلے روس کو سبق سکھانے کے لئے ایک خاص
مکتب فکر کے لوگوں کے جذبات کو بھڑکا کر پرائی آگ میں دھکیلا گیا تھا تو آج
روس کی خوشنودی کے لئے شیعہ مکتب فکر کے فسادی مولویوں کو میدان میں اتارا
جا رہا ہے جو پاکستان کے شیعہ نوجوانوں کے مذھبی جذبات کو مشتعل کر کے
پرائی جنگ میں دھکیل رہے ہیں ان شیعہ مولویوں میں سر فہرست جواد نقوی صاحب
ہیں جن کو بعض غیر ملکی ایجنسیوں کی ایماء پر بڑی شان و شوکت کے ساتھ
پاکستان میں لانچ کیا گیا ہے۔
جس طرح افغان جنگ کے دوران پاکستان کے مولویوں نے جہاد کی غلط تشریح و
تبلیغ کی اور پاکستان کے جوانوں کو پرائی جنگ کا ایندھن بنایا اسی طرح جواد
نقوی صاحب ایک خاص "نظریہ حکومت" کی من مانی تشریح و تعبیر کر کے،آنکھوں
میں پاکستان کا امیر المومنین بننے کا خواب سجائے شیعہ جوانوں کو پرائی جنگ
کا ایندھن بنانے میں مشغول ہیں۔
اس سارے کھیل میں ریاست خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک طرف روس
کی غیر اعلانیہ مدد کررہی ہے تو دوسری طرف پاکستان کے شیعوں کو کھڈے لائین
لگانے کا جواز پیدا کرنے کے لئے،کسی بڑے موقع کی تلاش میں ہے اسی لئے
پاکستان،پاکستانی نظام اور پاکستانی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے
جواد نقوی صاحب کی رسی کو ڈھیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔
جواد نقوی صاحب کے تمام تر افکار کا نچوڑ یہ ہے کہ پاکستان میں ان کے ذہن
سے جنم لینے والے ایک خاص نظام کو نافذ کر دیا جائے کیونکہ جمہوریت ان کے
نزدیک خدا کا شریک قرار دینے کے مترادف ہے۔پاکستان اور پاکستانیوں کی مشکل
کا ایک ہی حل ہے کہ ان کو امیر المومنین بنا دیا جائے۔
امیر المومنین بننے کے لئے پاگل ہوتے جواد نقوی صاحب کو طالبان اور طالبان
رھنماؤں کا انجام یاد رکھنا چاہیئے اور شیعہ تعلیمات کو مسخ کرنے سے باز
رہنا چاہیئے ورنہ نقوی صاحب کے اعمال کا خمیازہ آنے والی شیعہ نسلوں کو
بھگتنا پڑے گا۔
اسی طرح ریاست کو بھی یاد رکھنا چاہئِے کہ جس طرح آج نقوی صاحب کو طالبان
کی طرح شدت پسندی پھیلانے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے اس کا نتیجہ کبھی بھی
ریاست کے حق میں نہیں نکلے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ، عرصے بعد جواد نقوی
کے شدت پسند پیروکاروں سے چھٹکارے کے لئے ریاست کو شیعہ علما کی طرف دیکھنا
پڑے اور پیغام پاکستان کے نام سے فتوی لے کر فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کرنا پڑے
عقل مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ جواد نقوی صاحب کے شدت پسندانہ افکار کی تبلیغ
کا ابھی سے فوری طورپر نوٹس لیا جائے اور ان کو پاکستان،پاکستانی نظام اور
پاکستانی اداروں کے خلاف زہر افشانی سے روکا جائے۔ |