شخصیت فر د کے ذہنی ،جسمانی ،شخصی ،برتاؤ ،رویوں ،اوصاف ا
ور کردار کے مجموعہ کا نام ہے باالفاظ دیگر اگر سہل انداز میں شخصیت کی
تعریف کی جائے تو یہ انسان کے ظاہری و باطنی صفات ،نظریات اخلاقی اقدار ،افعال
احساسات اور جذبات سے منسوب ہے۔ ظاہری حسن وجمال وقتی طور پر کسی کی توجہ
تو مبذول کرسکتا ہے لیکن کردار کا دائمی حسن ہی انسان کو زندہ جاوید بنا تا
ہے ۔تعمیر کردار میں فکر و نظریات کا کلیدی رول ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے موت
و حیات کی تخلیق کا اصل سبب کردار کی آزمائش ہی بتا یاہے۔ ’’جس نے موت اور
زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھیں کہ تم میں سے کو ن
بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘(سورہ ملک آیت نمبر 2)قرآن کی یہ آیت زندگی کے
ترجیحات کے تعین میں ہماریمدد کرتی ہے۔ترجیحات کے تعین میں ناکامی کے سبب
ہی آج ہم درپیش مسائل کو حل کرنے میں الجھن کا شکار ہیں اور ناکامی کا
سامنا کر رہے ہیں۔ہم اپنے مال و متاع کے اضافے میں دن رات مصروف ہیں اور
خبر بھی نہیں ہے کہ یہ اضافہ ایک دن شر کی صورت میں ظاہر ہوگا اگر چیکہ ہم
اسے اعلیٰ اور عمدہ کردار کی حامل شخصیتوں کے ہاتھوں منتقل نہ کردیں۔ ہمیں
طئے کرنا ہوگا کہ ہماری سب سے بڑی دولت کیا ہے یقینا ہماری سب سے بڑی اور
عظیم دولت مال و متاع سونا چاند نہیں بلکہ ہمارے بچے ہماری اولادہے جن کے
دم سے ہمارے آنگن جنت کی تصویر نظر آتے ہیں۔گھر میں رونقیں لگی رہتی ہیں۔اس
عظیم دولت کا بگاڑ ہی دراصل ہمارے لئے خسران عظیم ہے۔ اگر ہم حقیقت میں
زوال کو روکنا یا کمال سے بدلنا چاہتے ہیں تو افراد کی شخصیت ساز ی بالخصوص
بچوں کی اخلاقی،روحانی اور سماجی تربیت پر ہمیں توجہ مرکوز کرنی ہوگی تاکہ
معاشرہ امن و سکون کا گہوارہبن سکے۔معاشرے کی تعمیر کا انحصار افراد کی
تعمیر پر ہوتا ہے۔افراد کی تعمیر میں خاندان ،سماج ،مدارس،یونیورسٹیز
اورمعاشر ے کاکلیدی کردار ہوتا ہے۔ حال کے احوال کی تبدیلی اور مستقبل کی
تعمیر ، نسل نو کی تعمیر سے ہی ممکن ہے۔نئی نسل کو ڈاکٹر ،انجیئنر،ماہر
قانون،کامیاب تاجر یا کچھ اوربنانے سے پہلے ایک،خوش اخلاق ،باوقاراور اچھا
انسان بنا نا ہوگا جس کے لئے کردار کی تعمیر ( شخصیت کی تعمیر )ضروری
ہے۔اچھے اوصاف واخلاق سے آراستہ لوگ انسانیت کے سفیر ہوتے ہیں اسی لئے
زندگی کی بے شمار ترجیحات میں شخصیت کی تعمیر کو اولیت حاصلہے۔ تعمیر شخصیت
میں کردار کو بانکپن عطا کرنے والے عناصر کی پہچان بہت ضروری ہے۔ ان عناصر
کی تلاشمیں پریشان ہونے کی اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ اسلام شخصیت کی تعمیر
کا ایک نہایت آسان فارمولہ پیش کرتا ہے۔قرآن اور سیرت رسول شخصیت کی تعمیر
میں مددگار عناصر کا تعارف پیش کرتی ہے۔
قانون فطرت (سنت اﷲ)سے آگہی ؛۔بچے جس ماحول میں پروان چڑھتے ہیں اس کا رنگ
ان کی شخصیت پر غالب رہتا ہے ۔یہ کلیہ صرف بچوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ
یہ سچ ہے کہ بڑوں پر بھی ماحول کا اثر مرتب ہوتا ہے۔وہ افراد جن کی تربیت
مختلف ماحول ،طرزمعاشرت اور دین پر ہوئی ہو وہ صالح نظریات ،اعلیٰ اخلاق ،اوصاف
حمیدہ کو ایک زنجیر خیال کرتے ہیں اور ان بندشوں سے ان میں سرکشی کا طبعی
میلان پایاجاتاہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ’’ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا
ہے ۔اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا تے ہیں‘‘۔(بخاری و مسلم) معلم
کائناتﷺکی تربیت اور شخصیت سازی پر مبنی اس حدیث کو انگریز فلسفی جان لاک
(John Locke) اپنے نظریہ تعلیم (Tabula Rasa) یعنی بچوں کے ذہن کو ایک لوح
سادہ (Plain Slate)کی صورت میں پیش کرتا ہے اور اس فکر کو ڈاکٹر فل (Dr.Phil)یوں
دہراتا ہے ’’بچہ ایک سادہ تختی ہے جس پر اس کے والدین ہر دن کچھ نہ کچھ نقش
کرتے رہتے ہیں‘‘۔(A Child is a plain slate in which a parent writes on
every day,Dr.Phill)۔بچے سے قربت رکھنے والا ہر شخص اور ماحول اس پر اپنے
نقش چھوڑتے ہیں اور انہی تجربات اور ماحول کے زیر اثر بچے کی شخصیت تشکیل
پاتی ہے۔بچے بچپن ہی سے احساس ،اقدار اور رویے سیکھتے ہیں جن کا وہ اپنی
عملی زندگی میں مظاہرہ کرتے ہیں۔دراصل آدمی اپنے ان رویوں اور نظریات کی
غمازی کرتے ہیں جنہیں وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پراپناتا ہے۔ لاشعوری
طور پر فکر اور رویے یقین میں بدلتے رہتے ہیں۔ حدیث مذکورہ میں نصرانی اور
یہودیوں کو اہل کتاب ہونے کے باوجودان کی رذیلہ صفات اور خباثتوں کی وجہ سے
مذموم اور غیر پسندیدہ امت قراردیا گیا ہے۔ہمیں غور کرنا چاہئے جن اوصاف
رذیلہ کو اپنا کر یہودی اور نصرانی مقہور ہوئے ان اوصاف کو اپنا کر بھلا ہم
کیسے اﷲ کی خوشنودی اور سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے
مطابق بچوں کو پاکیزہ ماحول ،درست انداز فکر اور طرز معاشرت فراہم
کرناضروری ہے تاکہ کسی بھی خباثت اور مسموم اوصاف سے نوزائیدہ ذہنوں کو
محفوظ رکھا جاسکے اور اسے دین فطرت کے عین مطابق بنایا جاسکے۔تعلیم کی
فراہمی میں آج کا معاشرہ نہایت چست ہے لیکن پاکیزہ ماحول کی فراہمی میں
یکسر ناکام ہوگیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی اضطراب اور ناانصافیاں
سر اٹھا چکی ہیں۔
اپنا پورٹریٹ خود بنائیں؛۔اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ ’’میں اپنے بندے کے گمان
کے مطابق ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے سا تھ ہوں‘‘(جامع
ترمذی) شخصیت کی تعمیر میں انسان کی اپنی سوچ اور فکر کا بڑا عمل دخل ہوتا
ہے۔ اسی اسلامی نظریے کوولیم جیمزیوں بیان کرتا ہے’’آپ اپنے بارے میں جو
تصویر بناتے ہیں اگر یہ تصویر ایک طویل عرصے تک آپ کے ذہن میں رہے تو آپ
بھی ویسے ہی بن جائیں گے جیسا آپ سوچتے ہیں۔‘‘منفی سوچ اور خیالات کے زیر
اثرایک متوازن اور پسندیدہ شخصیت کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔منفی سوچ اور
خیالات ایسے وائرس ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ذہن و قلب ماؤف اور ناامید ہوجاتے
ہیں۔جب کوئی پروگرام میں وائرس آجاتا ہے توفارمیٹنگ کے ذریعے اس کی
کارکردگی کو بہتر بنایا جاتاہے۔ اپنی بہتری اور ترقی کے لئے انسان کو بھی
اپنے ذہن کی فارمیٹنگ کرنی ضروری ہے تاکہ کارکردگی کو بہتر بناکر کامیابی
کے راستوں پر گامزن ہوسکے۔
فکر کی تبدیلی؛۔فکر کی تبدیلی سے ترقی کی جانب بڑی جست لگائی جاسکتی ہے
برائن ٹرائسی اس ضمن میں اپنی کتاب’’ جیسے خیالات ویسی زندگی‘‘ (Change
Your Thinking Change Your Life)میں ایک تیس سالہ شادی شدہ دو بچوں کی ماں
کی روائیداد بیان کرتا ہے ۔اس عورت کی پیدائش اور پرورش ایک ایسے گھرانے
میں ہوئی جہاں بچوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا تھا اور ان کے ساتھ خراب سلوک
برتا جاتاتھا۔والدین کی بدسلوکی کے نتیجے میں وہ خاتون بری طرح احساس کمتری
کا شکار ہوگئی اس کا اعتماد سلب ہوگیا وہ اپنی قدر سے ناواقف ہوگئی اور خود
کو کسی لائق نہ سمجھنے لگی۔ایک روز جس کار میں و ہ سفر کررہی تھی اس کا
حادثہ ہوجاتا ہے اور وہ خاتون اپنی یاداشت گنوا بیٹھتی ہے۔لاکھ کوشش کے بھی
جب اس کی یاداشت بحال نہ ہو تی ہے تو اسے دواخانے سے ڈسچارچ کردیا جاتا
ہے۔۔اپنے ماضی کو بھول بیٹھی یہ خاتون گھر میں یاداشت کے متاثر ہونے کے
اسباب اور حافظہ و یاداشت کوبہتر بنانے پر مبنی میڈیکل رپورٹس کا مطالعہ
شروع کردیتی ہے۔ماہرین سے معلومات کے لئے رجوع کرتی ہے۔جدید معلومات سے لیس
یہ عورت اپنی حالت پر ایک مقالہ پیش کرتی ہے ۔جہاں وہ اپنی نئی یاداشت ،اعصابی
کارکردگی ،تجربات اور خیالات کی روشنی میں کنونشن کے شرکاکے سوالات کا مدلل
جواب دیتی ہے۔ افراد خاندان اور اس کے معالجین اس تبدیلی پر حیران و ششدر
رہ جاتے ہیں۔دراصل دواخانے او ر حادثے کے بعد گھر پر حاصل ہونے والی توجہ
نے اس میں اعتماد کی کیفیت پیدا کردی اور وہ خود کو اہم اور لائق سمجھنے
لگی ۔ میڈیکل شعبے میں اہمیت کی حامل شخصیت کہلانے لگی۔ اسے لکچرس کے لئے
مدعو کیا جانے لگا ۔ماضی کے تمام منفی خیالات اس کے ذہن سے محو ہوچکے تھے۔
ماضی میں اس کے ذہن سے چمٹاکمتری کا احساس ختم ہوچکاتھا۔اب وہ ایک بالکل
نئی شخصیت تھی۔اگر ہم بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی کارکردگی کو بہتر
بنانے کے متمنی ہیں تب اپنی منفی سوچ سے ہمیں چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے ۔منفی
سوچ ہماری ذات کو محدود کردیتی ہے ۔
اعتماد کی بحالی کے لئے مثبت خیالات و افراد سے رشتہ جوڑیں؛۔کسی بھی شخص کو
جب مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ اپنی ذات میں کمی اور کمتری
محسوس کرنے لگتا ہے۔والدین بچوں کو بے جا تنقید کا نشانہ بناکر ان کی شخصیت
کو تباہ کردیتے ہیں۔عمر کے ابتدائی دور میں جب کسی بچے کو لگاتار تنقید کا
نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ خود کو اس تنقید اور سزاکا مستحق سمجھنے لگتا
ہے۔اپنی قدر و قیمت اور اہمیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ بچپن میں محبت اور شفقت
نہ ملنے کی وجہ سے بلوغت اور جوانی میں بچے مختلف معاشرتی مسائل کا شکار
ہوجاتے ہیں۔کلیوں کو پھول بننے کے لئے جس طرح شبنم کی ضرورت ہوتی ہے بالکل
اسی طرح بچوں میں اپنی ذات کی قدر(عزت نفس) کا جذبہ جاگزیں کرنے کے لئے
محبت اور شفقت کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔اعتماد سے محروم شخص بھی محبت اور
شفقت کی وجہ سے بے پنا ہ کارکردگی پیش کرنے کے لائق بن جاتا ہے۔انسان کو
ناکامی،تنقید اور رد کیئے جانے کا خوف ہمیشہ پریشان کرتاہے۔ انسان اپنے خوف
پر قابو پانے کے لئے ان کاموں کی انجام دہی میں لگ جائے جن سے وہ خوف زدہ
رہتا ہے۔منفی سوچ ایک زہر ہلاہل ہے جس سے بچنا بے حد ضروری ہے۔ منفی سوچ
ذہنی و جسمانی صحت پر اثر انداز ہوکر فطری صلاحیتوں کو تباہ کردیتی ہے اور
جس سے آدمی کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ منفی فکر کو پروان چڑھانے والے،
عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے والے آپ کی تحقیر وتذلیل کرنے والے افراد، افکار
اورخیالات سے آپ کو چوکنا رہنا چاہئے۔یہ افراد ،افکار اور خیالات آپ کے
دشمن ہیں جو آپ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔جس طرح منفی نظریات کے حامل افراد
سے بچنا ضروری ہے اسی طرح اپنے آپ کو بھی منفی سوچ سے محفوظ رکھنا ضروری ہے
۔انسان کی سوچ جس قدر مثبت ہوگی اس کی زندگی اتنی ہی خوش گوار اور پرمسرت
گزرے گی۔ مثبت سوچ انسان کو طاقت و توانائی فراہم کرتی ہے۔مثبت سوچ انسان
میں اعتماد پیدا کرتی ہے۔انسان کی شخصیت ،صحت ،جرات اور تخلیقی صلاحیتوں کی
تعمیر میں مثبت سوچ کاکلیدی کردار ہوتا ہے۔ مثبت سوچ ذہنی صلاحیتوں کو
پروان چڑھاتی ہے اور کارکردگی کو عروج و بلندی بخشتی ہے۔انسان کا دماغ ایک
وقت میں صرف ایک ہی خیال پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہوتا ہے خواہ وہ مثبت
خیال ہو یا منفی۔ لیکن یار رکھیئے انسان اپنے انداز فکر کی تبدیلی پر قادر
ہے ۔وہ منفی خیالات کو مثبت خیالات سے بدل کر اپنی زندگی کو خوش گوار بنا
سکتا ہے۔
تعمیر شخصیت کا اسلامی فارمولہ؛۔انسانی شخصیت، تخلیق اور تعمیر کی دوجہات
سے عبارت ہے۔تخلیقی اعتبار سے انسان کوکائنات میں ساری مخلوقات پر برتری
حاصل ہے ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘۔ ( سورہ
تین)۔ اگر چیکہ یہ کلیہ انسانوں کو دیگر مخلوقات پر برتری عطا کرتے ہوئے
اشرف المخلوقات کا شرف عطا کرتا ہے۔ لیکن انسانوں پر انسانوں کی برتری کے
بھی اﷲ نے اصول مقرر کیئے ہیں جس کی بنیاد پر انسان کو اعزاز و افتخار حاصل
ہوتا ہے۔’’بے شک زیادہ عز ت والا تم میں سے اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب
سے زیادہ پرہیز گار (اﷲ سے ڈرنے والا) ہے۔‘‘(سور ہ حجرات )مضمون کی ابتدائی
سطور میں سور ہ ملک کی آیت کے ذریعے یہ بات واضح کر دی گئی کہ موت و حیات
کی تخلیق کا اصل سبب ہی کردار کی آزمائش ہے۔یہ دنیا دارالعمل ہے‘ اچھے
اعمال سے شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ برے اعمال تخریب شخصیت کا باعث بنتے ہیں۔
انسان کو پیدائشی طور پر ہی تما م مخلوقات پر برتری اور فضیلت بخشی گئی
لیکن اپنے ہم جنسوں پر برتری اور فضیلت کے حصول کے لئے انسان کو اپنی شخصیت
کی تعمیرکی ضرورت ہوتی ہے اسی وجہ سے دنیا کو دارالعمل قرار دیا
گیاہے۔تعمیر شخصیت کے لئے اسلام ہماری مکمل رہبری و رہنمائی فرماتا ہے۔قرآن
اور اسوہ رسول اکرم ﷺ کی روشنی میں ایمان ویقین(Faith) ،علم (Knowledge)،تفکر(Deliberation)،
نیت،ارادہ (Motive) ،عمل (Execution)، اور نتیجہ عمل(Consequences)اور
احتساب شخصیت سازی کے اہم عناصر قرار دیئے گئے ہیں۔
ایمان و یقین (Faith)؛۔ایمان و یقین سے مراد وہ جذبہ ہے جو انسان کو غفلت ،بخل
اور بزدلی سے آزاد کرکے تذبذب اور بے یقینی کا خاتمہ کردیتاہے۔ ایمان اقرار
،تصدیق اور عمل سے مربوط ہے۔ایمان دعوے کانہیں بلکہ رویوں (Attitude)کانام
ہے ایما ن ایک ایسا جذبہ ہے جوانسان کو خالق کائنات کی ہیبت ،عظمت ،کبریائی
اور محبت سے سرشار کرتا ہے، نبی اکرم ﷺ کی اطاعت پر مائل کرتا ہے ۔ ایمان
انسان کو نہ صرف اﷲ اور اس کے رسول کو ماننے بلکہ اﷲ اور رسول کی ماننے کے
لائق بناتا ہے۔ایمان سلوک اور مسلسل عمل کانام ہے۔ایمان جب ٹھیک ہوتا ہے
توزندگی کے سارے معاملات درست ہوجاتے ہیں۔ایمان آدمی میں اچھا کردار پیدا
کرتا ہے۔، چوری،جھوٹ،خیانت،رشوت ،دھوکہ،فسق و فجور،شراب خوری،زناسے اسے باز
رکھتا ہے۔ برے کاموں سے روکتا اور اچھائی کاحکم دیتا ہے۔ایمان زبانی دعوے
کا نہیں بلکہ عمل کا نام ہے۔ ایک صحابی نے نبی اکرم ﷺ سے نصیحت کے لئے کہا،
آپ ﷺ نے فرمایا’’کہو!میں اﷲ پر ایمان لایا،پھر اسی پر استقامت اختیار کرو۔‘‘
ایمان و یقین کی اسی طاقت نے دنیا میں ایک مثالی انقلاب برپا کیا ۔ علم ،اخلاق،فکر
و فلسفہ ،سیاست اور حکومت کے میدان میں ایسی بے شمار عبقری شخصیات پیدا کیں
جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی۔ایمان استقامت اور ثابت قدمی کا نام ہے۔
علم(Knowledge)؛۔تعمیر ذات میں علم کی کلیدی حیثیت ہے۔ علم انسان کو خیر و
شر سے آگاہ کرتاہے اور جاہلوں سے آدمی کو ممتاز کرتا ہے۔’’اے بنی کہہ دیجئے
کیا علم والے(عالم) اوربے علم (جاہل ) برابر ہوسکتے ہیں‘‘(سور ہ الزمر آیت
9)۔علم عرفان ذات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔نفس کی پہچان کے لئے علم ضروری ہے
اسی لئے کہا گیا ہے ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانااس نے رب کو پہچانا‘‘۔علم
خیر و شر کے حدود متعین کرنے کے علاوہ انسان کو خشیت الہی سے آراستہ کرتا
ہے اور یہ ہی خشیت اسے خیر پر مائل اور شر سے دور رکھتی ہے۔’’بے شک اﷲ سے
اس کے بندوں میں علم والے(عالم ) ہی ڈرتے ہیں‘‘۔(سورہ فاطر آیت 28)علم ایک
امکانی طاقت ہے لیکن جب اس کے مطابق عمل کیا جاتا ہے تو یہ ایک حقیقی طاقت
بن جاتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں ایمان(علم) کے ساتھ عمل کی تلقین مربوط
نظر آتی ہے۔پاکیزہ علم دل اور دماغ کی تربیت کرتا ہے۔علم انسان میں کردار
کی مضبوطی ،ضبط نفس ،سننے سیکھنے اور جاننے کا جذبہپیدا کرتا ہے۔
تفکر(Deliberation)؛۔علم کا دوسرا مرحلہ تفکر اورغور و خوض ہے۔غور و فکر کی
صلاحیت انسانی ذات کوگہرائی اور گیرائی عطا کرتی ہے۔تفکر انسان پرانفس اور
آفاق کیحقیقتیں کھول دیتا ہے۔تفکر ذہن و عقل پر پڑے راز و ظلمتوں کے پردے
چاک کردیتا ہے۔فطر ی صلاحیتوں کے حساب سے انسان دنیا میں پائی جانے والی
بہت ساری مخلوقات میں بہت کم فطری صلاحیتوں کا حامل ہے۔یہ پرند ے کی طرح
اڑنا نہیں جانتا،چیتے کی طرح دوڑ نہیں سکتا ،مچھلی کی طر ح تیر نہیں
آتا،بندر کی طرح درختو ں پر چڑھ نہیں سکتا،نہ عقاب کی طرح تیز نظر ہوتی ہے
اور نہ بلی کے پنچوں کی طرح مضبوط پنچے۔ پھر بھی انسان عظیم اس لئے ہے کہ
اس میں سوچنے کی عظیم صلاحیت پائی جاتی ہے۔یہ اپنا ماحول خود تخلیق کرسکتا
ہے جبکہ جانور اپنے ماحول کے تابع رہتے ہیں۔انسان غور و فکر کی کوتاہی کی
وجہ سے مکمل طور پر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ تسخیر کائنا
ت کے لئے تسخیر ذات ضروری ہے اور تسخیر ذات و کائنات کے عمل میں تفکر اور
غورو فکر انسان کے لئے بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔
نیت ،ارادہ (Motive)؛۔نیت کے بغیر شخصیت کی تعمیر ناممکن ہے۔ عمل و کردار
کی دنیا میں نیت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’بلاشبہ
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘۔انسان کا عمل اس کی نیت کا عکاس ہوتا
ہے۔جیسی نیت ہوگی ویسا ہی اس کا عمل ہوگا ۔ اسی وجہ سے شخصیت کی تعمیر میں
نیت کی درستگی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔نیت دراصل ایک بیج ہے
اگر بیج اچھا ہوگا تب ہی اس سے بہتر پودا اور عمدہ پھل حاصلہوں گے۔
عمل (Execution)؛۔قرآن عملیات کی نہیں بلکہ عمل کی کتاب ہے۔ حضور اکرمﷺ کی
حیات طیبہ سخت جدوجہد کا عملی نمونہ ہے۔ محنت شاقہ اور ڈسپلن ہی نے صحابہ
کرام رضوان اﷲ عنہم کو برتر انسان بنایا اور رسول اکرم ﷺنے ہماری محنت کی
سمت اور سانچے کو بھی متعین کردیا ہے۔ غلط سمت میں دوڑنے والا یقینا منزل
سے دور ہوجاتا ہے اور غلط سانچے میں خود کو ڈھالنیسے شخصیت تباہ ہوجاتی ہے۔
شخصیت کی تعمیر محض خواہش ،علم، غوروفکر، اچھی نیت و ارادے سے انجام نہیں
پاتیبلکہ شخصیت معاون عناصر کوعمل کے قالب میں ڈھالنے سے ممکن ہوتی ہے۔
شخصیت کی تعمیر آرزؤں سے نہیں بلکہ آرزؤں کو حقیقت میں بدلنے سے ہوتی ہے۔
قرآن فرماتا ہے ’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘(سورہ
نجم آیت 54) ضروری ہے کہ انسان شخصیت کی تعمیر میں سعی و عمل سے کام لے۔عمل
سے فرار نہ اختیار کرے خواہشات پر اکتفا نہ کرے بلکہ خواہش کے بیج کو اپنے
عمل ، تدبیر اور سعی و کوشش سے بیج کو سایہ دار ،ثمر آور شجر میں تبدیل
کردے۔ خواہش کو عمل کے سانچے میں ڈھالیں۔
نتیجہ عمل(Consequences)؛۔ نتیجہ عمل شخصیت کے تعمیر ی عمل میں آخری پڑاؤ
ہے لیکن یہ ازحد اہمیت کا حامل ہے۔ کامیابی کی صورت میں آدمی غرور و تکبر
کا شکار ہوسکتا ہے یا ناکامی کی صورت میں ناامیدی اور بے یقینی کا ۔ یہ
دونوں بھی کیفیات انسانی شخصیت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔شخصیت کی
تعمیر کاایک اسلامی اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی کامیابی کو اﷲ کے فضل و کرم سے
تعبیر کرے اور کامیابی پر شکر ادا کرے ۔تکبر اور غرور کا ہرگزمظاہر ہ نہ
کرے۔ناکامی کی صورت میں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں اور صبر و
استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔ناامید ہونے کے بجائے دانشوری اور حکمت
سے کام لیتے ہوئے کامیابی کے بہتر راستے ڈھونڈے۔ کامیابی کے لئے عمل میں
دوام و استقامت کردار کاایک لازمیجزو ہوتاہے۔ محض ایک یا دو مرتبہ کی کوشش
سے دل خواہ نتائج حاصل ہونا ضروری نہیں ہے۔مقاصد کے حصول کے لئے مسلسل جدو
جہد درکار ہوتی ہے۔ اس وقت تک سعی و کوشش سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں جب
تک آپ کی محنت رنگ نہ لائے۔ اس کے لئے آپ کو خواہ کتنی ہی محنت ،مشقت، اذیت
و تکلیف سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔یہی فکر حقیقی طور پر انسان کی شخصیت کو
سنوار کر اسے فخرا ور تقلید کے قابل بناتی ہے۔
یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں |