جب ہم انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی بات کرتے ہیں تو پتہ
چلتاہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دورمیں سوشل میڈیا آپس کے رابطے کاایک
موثرترین ذریعہ بن چکا ہے، جملہ ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب
سے زیادہ ہورہا ہے،ایک شخص اپنے گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی کونے تک
چندسیکنڈوں میں اپنا پیغام پہنچاسکتا ہے۔ موبائل میں باآسانی نیٹ کی سہولت
دستیاب ہونے کے باعث پڑھے لکھے لوگ تو بعید ان پڑھ بھی سوشل میڈیا کا
استعمال کرنے لگے ہیں، ہرطبقہ یہاں اپنا اچھا خاصا وقت صرف کررہاہے،
بالخصوص نوجوان نسل۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں انٹر نیٹ اور میڈیا نے
معاشرے وسماج پر کافی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، چاہے اس کا تعلق سیاست سے
ہو،معاشرت سے ہو یااقتصادیات سے، انٹر نیٹ آج نوجوانوں کی بڑی تعداد کی
دلچسپی کا محور و مرکز بنا ہواہے۔ گوگل اس میدان میں کافی اہمیت کا حامل ہے
جس نے اپنی دو مقبو ل سائٹس یو ٹیوب اور آرکٹ(Orkut)کا آغاز کیا تھا۔ لیکن
فیس بک کی ایجادکے بعد اس کی بڑھتی مقبولیت کی بناء پر Orkutمیں نوجوانوں
نے دلچسپی کھودی اور فیس بک دھیرے دھیرے اس میدان کا لیڈر بن گیا۔ فیس بک
کے علاوہ اس میدان میں اور بھی دوسرے سائٹس داخل ہوئی ہیں جیسے Linkdin،
Twitter، My Space,اور واٹس ایپ وغیرہ۔ لیکن آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ
استعمال ہونے والی سائٹس میں facebook، یوٹیوب اورTwitter کا شمار ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کا مطلب عوام کے درمیان مختلف ذرائع سے مواصلاتی روابط پیدا
کرنا ہے۔ جس کا موجودہ دور معاشرے کے مزاج، خیالات، ثقافت اور عام زندگی کی
کیفیات پر دورس اثرات کا حامل ہے۔ اس کا بہاو انتہائی وسیع اور لامحدود
ہے۔سوشل میڈیا ذرائع کی طرف سے سماج میں ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ
اظہاررائے و آزادی اظہار کے مواقع حاصل ہو رہے ہیں۔ آزادشوشل میڈیا جمہوریت
کی بنیاد ہے۔یعنی جس ملک میں سوشل میڈیا کے ذرائع آزاد نہیں ہیں وہاں ایک
صحت مند جمہوریت کی تعمیر ہونا ممکن نہیں ہے۔سوشل میڈیا کا جال اتنا وسیع
ہے کہ اس کے بغیر ایک مہذب معاشرے کا تصور بھی نا ممکن ہے۔ اگرچہ سوشل
میڈیا کے ذریعہ ابلاغ و ترسیل میں ماضی کے مقابلے میں حالیہ کچھ سالوں میں
ایک بڑا انقلاب آیا ہے اور اسی تبدیلی کے سبب ہم اسے مواصلاتی انقلاب کہتے
ہیں۔سوشل ذرائع میں انقلاب کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں
بھی انقلاب آیا ہے۔ جس نے مارسل میکلوہان کے بیان کو مکمل طور سچ کر دیا کہ
پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہو جائے گی۔انسانوں کے بولنے کا انداز بدل
جائے گا اور عمل و رد عمل بھی۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے توبالکل ایسا ہی
ہوا ہے، آج نوجوان ریڈیو سن رہا ہے، ٹیلی ویڑن دیکھ رہا ہے، موبائل سے
باتیں کر رہا ہے اور انگلیوں سے لیپ ٹاپ چلا رہا ہے،چاہے وہ دنیا کے کسی
کونے میں بھی ہو۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نوجوان ایک ساتھ کئی تکنیک سے
مواصلاتی ذرائع استعمال کر رہا ہے۔ ان کی کئی طریقوں سے میڈیا تک رسائی ہے
اور اس میں سب سے موثرسوشل میڈیا ہے۔سوشل میڈیائی ذرائع کے نوجوان طبقے پر
پڑنے والے اثرات کے تناظر میں بات کریں تو ہر ایک ذریعہ کی طرح اس کے بھی
دو پہلو دکھائی دیتے ہیں اولاَ مثبت اورثانیاَ منفی۔ایسے میں ایک اہم سوال
یہ اٹھتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل سوشل میڈیا کے ذرائع کے کس پہلو سے زیادہ
متاثر ہو رہی ہے۔ مثبت پہلو یا منفی۔یہ بات الگ ہے کہ سوشل میڈیا ذرائع کی
بدولت آج کا نوجوان طبقہ اپنی خواہشات کی تکمیل کر رہا ہے۔لیکن وہ خواہشات
کیسی ہیں؟ اس کا معیار کیا ہے؟
موجودہ اعداد و شمار کے مطابق کہیں تو ملک کی تقریبا 58 فیصد آبادی
نوجوانوں کی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ خواب دیکھتا ہے اور ان
خوابوں کو پوراکرنے کے لئے کوشش کرتاہے۔ میڈیا ان نوجوانوں کو خواب دکھانے
سے لے کر انہیں نکھارنے بنانے،سنوارنے اوران کے خوابوں کو تکمیل تک پہنچانے
اور اسے شرمندہ تعبیر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اخبار،میگزین اور
رسالے جہاں نوجوانوں کو معلومات فراہم کرنے کافن و ذمہ داری ادا کر رہے
ہیں، وہیں ٹیلی ویڑن،ریڈیو، سنیما انہیں تفریح کے ساتھ جدیدیت بلکہ جدیدیت
کے نام پر اور بھی بہت کچھ سکھا رہی ہیں۔ لیکن ان سب میں سب سے زیادہ اور
اہم اثر سوشل میڈیا کا ہی ہے۔
انٹرنیٹ سے لے کر تیسری نسل (تھرڈ۔ جی) موبائل تک جدید ٹیکنالوجی مکڑی کے
جال کی طرح پھیل چکی ہے کہ دنیا کی سرحدوں کا مطلب بالکل ختم ہو گیا
ہے۔کوئی دیوار باقی نہیں رہ گئی ہے،ساری سرحدیں اور بندھن ٹوٹ چکے ہیں گویا
ان کے خوابوں کی پرواز کو ٹیکنالوجی نے گویا پر لگا دیئے ہیں۔ بلاگنگ کے
ذریعے جہاں یہ نوجوان اپنی فہم و فراست اور عقل و دانش کو بانٹنے کا کام کر
رہے ہیں۔ وہیں سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی طرح کی ذہنیت
والے لوگوں کو جوڑ کر سماجی معاشرہ کی ذمہ داری کوبطرز احسن نبھا رہے
ہیں۔اور اس طرح کے کاموں میں دونوں قسم کے افردا شامل ہیں یعنی مثبت طرز
فکر والے اور منفی سوچ والے،سماج کی اصلاح کرنے والے اور سماج کو بگاڑنے
والے بھی،معاشرے کے لئے بھلا سوچنے والے یا پھر انھیں قعر مذلت میں دھکیل
دینے والے بھی۔
حال ہی میں عرب ممالک میں انقلاب اس کی سب سے تازہ مثال ہے۔ ان تحریکوں کے
ذریعہ نوجوانوں نے سماجی تبدیلی میں اپنے کردار کا لوہا منوایا تو نوجوانوں
کے ذریعہ میڈیا کا بھی دم پوری دنیا نے دیکھا۔ نوجوانوں پر اس کا زیادہ اثر
اس لئے پڑا کیونکہ وہ جذباتی اور حساس عادت و طبیعت کے ہوتے ہیں۔ وہ بغیر
کسی ہچکچاہٹ کے کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا شروع کر دیتے
ہیں۔ہندوستان میں انا ہزارے اور پاکستان میں عمران خان اور مولانا طاہر
القادری کی تحریکوں کے علاوہ ملا لہ اور پھل نہ فروخت ہونے والی مہم اور
ہندوستان میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی دامنی کی مقبولیت اور اس کے
ذریعہ پیدا شدہ حالات کے علاوہ ہمارے ملک کے چھوٹے بڑے مسائل کو لے کر
لوگوں کی آرا اور اس پر سنجیدہ اور مثبت رویوں پر مبسوط بحثیں بھی اس میں
شامل ہیں۔
لیکن یہاں پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دوسری طرف نوجوان طبقہ سوشل میڈیا
کی چمک کے مایا جال میں پھنستا جا رہا ہے۔ اس بابت اگر یہ کہا جائے تو غلط
نہیں ہو گا کہ نوجوانوں میں تیزی سے اس کے سبب انحطاط اور علمی و فکری زوال
بھی آرہا ہے، اس میں ان کی گمراہی اورضلالت کو بھی جوڑ کر دیکھا جا سکتا
ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید اور اس کے پیچھے چلنے کی خواہش اور ہوڑ انہیں
جدیدیت کا متبادل لگنے لگی ہے۔ ان نوجوانوں کی پوری زندگی اور رہن سہن ان
سے متاثر دکھائی دے رہی ہے جس سے کھانے پینے سے لیکر رہنے سہنے یہاں تک کہ
بول چال تک تمام ہی چیزیں مجموعی طور پر شامل ہیں۔آج کے نوجوانوں کو نشہ
آور اشیا فیشن کے انداز لگنے لگے ہیں۔انھیں شراب پیتے،گٹکا کھاتے اور اسی
طرح سے گانجہ،سگار،ہیروئن جیسے مضر صحت اشیا کا استعمال کرتے ہوئے بھی کسی
قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی میں یہ وجہ بنیادی
طور پر ذمہ دار ہے۔ باہمی رشتے ناطوں میں بڑھتی ہوئی دوریاں اور خاندانوں
میں انتشار کی صورتحال اسی کا نتیجہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتہائی جدیدہوتے مواصلاتی نظام جسے ہم
جدیدمیڈیا کے نام سے جانتے ہیں ایک طرف نوجوانوں کے لئے نعمت ثابت ہو رہا
ہے، وہیں دوسری طرف یہ ایک لعنت کے طور پر نوجوانوں کی بے سمتی اور بے راہ
روی کو بڑھا رہا ہے۔ اگر اعداد و شمار پر غور کریں تو 30 جون، 2012 تک ملک
میں فیس بک اور سوشل سائٹس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریبا 5.9 کروڑ
تھی جو گزشتہ دو سال یعنی محض 2010 کے مقابلے میں 84 فیصد زیادہ ہے۔ ان 5.9
کروڑ لوگوں میں تقریبا 4.7 کروڑ نوجوان طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر اعداد
و شمار کو دیکھیں توہندوستان دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ فیس بک کا استعمال
کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ڈیجیٹل(برقی) انقلاب نے
نوجوانوں کی پرائیویسی کو متاثر کیا ہے اور نوجوان اپنی سوچ سے اپنے معاشرے
کو متاثر کر رہے ہیں۔
بزنس نیوز اینڈ ریسرچ سروسز کی طرف سے 1200 لوگوں پر کئے گئے سروے جن میں
18۔35 سال کی عمر کے لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق تقریبا 76
فیصد نوجوانوں نے تسلیم کیا کہ سوشل میڈیا ان کو دنیا میں تبدیلی لانے کے
قابل بنا رہا ہے۔اسی طرح قریب 24 فیصد نوجوانوں نے اس کی معلومات کا ذریعہ
سوشل میڈیا کو بتایا۔ تقریبا 70 فیصد نوجوانوں نے یہ بھی مانا کہ کسی گروپ
خاص سے منسلک ہو نے سے زمینی حقیقت نہیں بدل جائے گی، بلکہ اس کے لئے بہت
کچھ کئے جانے کی ضرورت ہے۔یہ بات ہم بھی مانتے ہیں کہ سوشل میڈیا ذرائع نے
گلوبل ولیج یعنی عالمگیریت کے تصور کو جنم دیا ہے۔جس کے تحت آنے والے ذرائع
برقی خطوط، ٹی وی، ریڈیو، موبائل، انٹرنیٹ جیسے ان تمام ذرائع نے نوجوان
طبقے پر اپنے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔بلکہ اس کا اثرتو اتنا طاقتور اور
موثّرہے کی آج کے نوجوان کا ان ذرائع کے بغیر اپنے دن کا آغاز ہی نہیں
ہوتا۔ادبی اور تعمیری میگزین خریدنے سے زیادہ جنسی اور فحش،رسالے خریدتے
اور پڑھتے ہیں اور صحیح معنوں میں اپنے کردار کو اخلاقی زوال دے کر اپنے
مستقبل کو اندھیرے میں رکھتے ہیں۔ اسی طرح ٹی وی جیسے سب سے زیادہ متاثر کن
ذریعے کا بھی نوجوانوں پر اچھا اور برا دونوں طرح کا اثر پڑا ہے ٹی وی وہ
ذریعہ ہے جس کی وجہ سے نوجوان طبقہ کسی بھی موضوع کے مثبت اور منفی پہلو کو
سمجھ سکتا ہے اگرچہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہو لیکن نوجوان طبقہ اس ذریعے
کا بھی غلط استعمال کرنے والے لوگوں کو ہی زیادہ دیکھتے ہیں،کیونکہ ان کو
اسی کے ذریعہ فوری لطف اور لذت کا سامان میسر آتا ہے اور وہ اس دور رس
تباہی کو نہیں سمجھ پاتے جس سے ان کا مستقبل نہ صرف بگڑتا بلکہ تباہ و
برباد ہو جاتا ہے۔
ہمیں یہ بھی مان لینے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ فی زمانہ موبائل اور
انٹرنیٹ اورجدید تکنیک کاہی ہے۔ جن میں اس کا استعمال زیادہ تر نوجوانوں کی
طرف سے کیا جا رہا ہے۔ موبائل یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے دور بیٹھے شخص کے
ساتھ بات کی جا سکتی ہے اور اپنے حسین لمحات میموری میں قید کئے جا سکتے
ہیں۔ یہ تو اس کا عہد ہی ہے لیکن آج نوجوان اس ذریعے کا غلط استعمال کر ایم
ایم ایس جیسے رویوں میں بھی پھنس جاتے ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ سوشل میڈیا
ذرائع میں سب سے متاثر کن ہے جس نے دوری اور فاصلوں کو کم کر دیا ہے۔ اس کا
زیادہ تر استعمال نوجوان طبقے کی طرف سے کیا جاتا ہے جہاں اس کی طرف سے
نوجوانوں کو تمام معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ ترقی میں تو مددگار ہے لیکن
آج موجودہ وقت میں نوجوان کی طرف سے اس کا غلط استعمال زیادہ ہوتا ہے۔
آج زندگی تمام شعبوں میں کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ اور الیکٹرانک میڈیا سے آن
لائن مارکٹنگ جاب بینکنگ ایجوکیشن غرض ہر شعبہ ہائے زندگی کو جدید دور سے
ہم آہنگ کر دیا ہے تعلیمی میدان میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔درس
وتدریس سے منسلک افراد کی بہت سی مشکلات حل ہوئی ہیں الیکٹرونک لائبریری،آن
لائن ای بکس،مختلف سماجی مذہبی سیاسی اخلاقی موضوعات پر آڈیو اور
ویڈیولیکچرز تک گھر بیٹھے رسائی آسان ہو گئی ہے۔کئی پاکستانی نوجوانوں نے
ذاتی کوشش سے تعلیمی ویب سائٹس قائم کی ہیں جن پر طلباو طالبات کو تعلیمی
نوٹس سابقہ پرچے تعلیمی اعلانات اور گفتگو کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن
افسوس جب ہم اغیار اور باطل مذاہب اورگمراہ فرقوں کے حالات کا جائزہ لیتے
ہیں تو معلوم ہوتاہے وہ سوشل میڈیا کے سہارے دین کے بازارمیں کھوٹے سکوں کو
خوب خوب رائج کرکے دین اسلام کے خلاف مختلف قسم کے پروپیگنڈے کررہے ہیں اور
یہود ونصاری اورمتعصب ہندو تنظیموں نے اسلام کے خلاف شبہات پھیلا نے ا ور
مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کی ہے،اور آج شرارت
اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کی نئی نسل میں طرح
طرح کے شبہات پھیلارہے ہیں تاکہ ان کو اسلام سے بدظن کرسکیں، آج اسلام اور
انسانیت دشمن طاقتوں کا ایک گروہ سماج میں بے حیائی،فحاشی،عریانیت اوررقص
وسرور کے وہ گل کھلارکھا ہیکہ گمان ہونے لگتاہے وہ انسان نہیں جانوروں سے
بدترکوئی مخلوق ہے، تفریح کے نام پرمسلمانوں کی نئی نسل کو بدلنے کی منظم
پلاننگ ہوچکی ہے۔یہ وہ تمام چیزیں ہیں جنکا صحیح استعمال انسان کو کامیابی
کی طرف اور غلط استعمال تنزلی کی طرف لے جاتاہے۔ سوشل میڈیا کا شعور رکھنے
والے ہرمسلمان اور حصوصاٌ نوجوان نسل کا فرض ہے کہ اسے استعمال کرکے دین کی
تبلیغ اور نشر واشاعت کرکے اللہ کے یہاں سروخرو ہوسکیں ہے اور قوم کے
نونہالوں نیز معاشرے وسماج کی اصلاح کرسکتاہے، ور نہ وہ دن دور نہیں جب
باطل طاقتیں انہیں آلات و ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ہمارے دین کو بگاڑ کر
ہماری نئی نسل کے سامنے پیش کریں،اور قوم نوح کی طرح ہمیں اور ہماری نسلوں
کو شرک وبت پرستی اور بدعات وخرافات میں ملوث کرادیں۔ |