اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کی کامیاب آزمائش

لاہور میں اورنج لائن کی صورت میں پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا میٹرو ٹرین منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین پروجیکٹ جو کئی ماہ تاخیر سے دوبارہ شروع ہوا، لیکن اب یہ آزمائشی مرحلے میں داخل ہو گیا۔ ڈیرہ گجراں میں ڈپو کے اندر سڑکوں کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہاں پر بچھائی گئی پٹری پر ٹرین نے آزمائشی سفر شروع کردیا۔اِس وقت تک 16 ٹرینیں لاہور پہنچ چکی ہیں، جبکہ 7 ٹرینیں چند روز تک کراچی پہنچ جائیں گی۔ ایل ڈی اے حکام کے مطابق واڑہ گجراں سے پاکستان منٹ تک کا چھ اعشاریہ تین کلومیٹر کا ٹریک مکمل طور پر تیار ہوچکا ہے، جبکہ منصوبے کے باقی حصوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر اور سٹیرنگ کمیٹی کے چیئرمین خواجہ احمد حسان کے مطابق شالامار باغ کے قریب ٹریک کی تعمیر بھی جلد مکمل ہو جائے گی، جبکہ ڈیرہ گجراں سے لکشمی چوک تک 12کلومیٹرٹریک رواں ہفتے مکمل کرلیا جائے گا۔ خواجہ احمد حسان نے کہا ہے کہ میٹرو ٹرین جن علاقوں سے گزرے گی، انہیں ترقی دے کر ان کا نقشہ بدل دے گی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ضروری حفاظتی اقدامات کر کے شالامار باغ سمیت جی ٹی روڈ پر واقع دیگر تاریخی عمارتوں کے قریب ٹریک کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ شالامار باغ سے لکشمی چوک تک نو تعمیر شدہ ٹریک پٹری بچھانے کے لیے چینی کنٹریکٹر سی آر نورنکو کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ڈیرہ گجراں سے پاکستان منٹ تک پہلے پانچ سٹیشنو ں کے درمیا ن ساڑھے چھے کلو میٹر طویل پٹری بچھا لی گئی ہے۔ اس پٹری کی ٹیسٹنگ شروع کر دی ہے اور اس کا معیار تسلی بخش ہے۔ اسلام پارک، سلامت پورہ اور محمود بوٹی سٹیشن تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ ان سٹیشنوں کا اوسطا 97فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ پی ایچ اے کو ڈیرہ گجراں سے لکشمی چوک تک ہارٹی کلچر کا کام جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر منصوبے کا 85.7فیصد تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے۔ ڈیرہ گجراں سے چوبرجی تک پیکیج ون کا89.97فیصد، چوبرجی سے علی ٹاؤن تک پیکیج ٹو کا78.67فیصد، پیکیج تھری ڈپو کا 86.52فیصد، جبکہ پیکیج فور سٹیبلینگ یارڈ کی تعمیر کا87.79فیصد کام مکمل کیا جا چکا ہے۔اس کے علاوہ منصوبے کا46.5فیصد الیکٹریکل ومکینیکل ورکس بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر اور سٹیرنگ کمیٹی کے چیئرمین خواجہ احمد حسان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت تاریخی عمارتوں کے قریب تعمیر کیے جانے والے میٹرو ٹرین کے سٹیشنوں کی تاریخی عمارتوں کے ساتھ مطابقت پیدا کی جائے گی اور سٹیشنو ں کی جد ید تعمیر کو ثقافتی ورثے سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے سٹیشنوں کے فرش اور دیواروں وغیرہ پر نقش و نگار بنائے جائیں گے۔ جگہ کی دستیابی کی صورت میں ان عمارتوں کی طرز پر چھوٹی محرابیں، جھروکے اور جالیاں تعمیر کی جائیں گی اور ان کے ارد گرد ماحول کو خوبصورت بنانے کے لیے قدیم باغات کے نمونے پر ہارٹی کلچر کا کام کیا جائے گا۔ اس کام کے لیے تجاویز تیا رکر کے منظوری کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی آف ایکسپرٹس کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ منصوبے کے تحت شالامار سٹیشن، گلابی باغ کے قریب یو ا ی ٹی سٹیشن، چوبرجی سٹیشن اور مقبرہ زیب النساء کے قریب سمن آبا دسٹیشن کی قریب واقع عمارتوں کی طرز پر تزئین و آرائش کی جائے گی۔ شالا مار باغ سٹیشن کے داخلی راستے پر شالامار باغ کے اندر تعمیر شدہ تین تاریخی تختوں کے نمونے پر پویلین کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جی ٹی روڈ پر واقع باغ کے مرکزی دروازے کے سامنے واقع مکانات اور دکانوں کے فرنٹ بھی خوبصورت بنائے جائیں گے۔

پنجاب کے شہر لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ چین کے تعاون سے تعمیر کیا جارہا ہے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین اہل لاہور کے لیے عوامی جمہوریہ چین کا شاندار تحفہ ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ کو نئی جہت عطا کرے گا۔ یہ چین کی طرف سے پاکستان میں سو فیصد لاگت کے ساتھ مکمل کیا جانے والا جدید انفراسٹرکچر اور ماس ٹرانزٹ کا پہلا منصوبہ ہے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ پر مجموعی لاگت ایک کھرب 65 ارب روپے آئے گی اور ٹرین کے روٹ کی لمبائی 27.1 کلومیٹر ہوگی۔ لاہور اورنج ٹرین پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا منصوبہ ہے، دنیا کے 50 سے زیادہ ممالک کے 148شہروں میں زیرزمین ٹرین چلتی ہے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین کے تحت 27 ٹرینیں چلائی جائیں گی اور ہرٹرین پانچ بوگیوں پر مشتمل ہوگی۔ بوگیوں میں معمر، معذور افراد اور خواتین کے لیے الگ نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ٹرین کا روٹ علی ٹاؤن رائے ونڈ روڈ سے شروع ہو کر براستہ ٹھوکر نیاز بیگ ملتان روڈ، کینال ویو، ہنجر وال، وحدت روڈ، اعوان ٹاؤن، سبزہ زار، شاہ نورسٹوڈیو، صلاح الدین روڈ، بند روڈ، سمن آباد، گلشن راوی، چوبرجی، لیک روڈ، جی پی او، لکشمی چوک میکلوڈ روڈ، ریلوے اسٹیشن، سلطان پورہ، یو ای ٹی، باغبان پورہ، شالا مار باغ، پاکستان منٹ، محمود بوٹی، سلامت پورہ، اسلام پارک اور ڈیرہ گجراں نزد قائد اعظم انٹر چینج رنگ روڈ تک ہو گا۔ شروع میں روزانہ اڑھائی لاکھ افراد استفادہ کریں گے، بعد ازاں یہ تعداد پانچ لاکھ افراد یومیہ تک بڑھ جائے گی۔ عام حالات میں اڑھائی گھنٹے میں طے ہونے والا یہ 27کلو میٹر فاصلہ اورنج ٹرین کے ذریعے صرف 45منٹ میں طے ہو گا۔ اس طرح یہ ضلع لاہور کے جنوبی، وسطی اور مشرقی حصوں کے درمیان تیز رفتار سفر کی سہولت مہیا کرے گا۔ اس میں 26 اسٹیشن، ایک ڈپو اور ایک سٹیبلنگ یارڈ بھی تعمیر کیا جائے گا۔ ٹرین کے 24 اسٹیشنز ایلیویٹڈ اور 2انڈ ر گراؤنڈ تعمیر ہوں گے۔ میٹرو ٹرین کو پہلے پانچ سال تک چین کا عملہ آپریٹ کرے گا، بعد ازاں اس کو پاکستانی عملہ چلائے گا۔ میٹرو ٹرین برقی توانائی سے چلے گی، اس طرح یہ سروس گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی خطر ناک آلودگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی بھرپور کوشش ہے کہ الیکشن سے پہلے اورنج لائن میٹرو ٹرین کا کام مکمل ہوجائے، تاکہ الیکشن کمپین میں اس کے فوائد حاصل کیے جاسکیں، لیکن الیکشن تک یہ کام مکمل ہوتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ملک میں میٹرو ٹرین کا منصوبہ ایک قابل تحسین اور قابل قدر منصوبہ ہے۔ اس قسم کے منصوبے ہر ملک کی ضرورت ہیں۔ آج کے دور میں اس ملک کو ترقی یافتہ ملک نہیں تصور کیا جاتا، جہاں ٹریفک کا جدید نظام موجود نہ ہو۔ کسی بھی ملک کے ٹریفک کا نظام اس کی معاشی اور سماجی خوشحالی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ آج دنیا کے تمام بڑے شہروں میں زیر زمین ریلوے نظام میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں انگریز دور کے بچھائے گئے ریلوے ٹریک میں گزشتہ چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہم اس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرسکے۔ ملک بھر میں ہمارا جو ریلوے سسٹم اب چل رہا ہے اس کی حالت بھی قابل رحم ہے، جسے بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں ہوشربا اضافے کے باعث ٹریفک کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر ہمیں بہت پہلے ہی ملک بھر میں جدید طرز کے میٹرو ریلوے سسٹم کو متعارف کروادینا چاہیے تھا، جو کہ مہنگائی کے اس دور میں ایک عام آدمی کے لیے یقیناً مفید ہے۔ان حالات میں جدید طرز کے میٹرو ٹرین سسٹم کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دنیا میں اس قسم کے منصوبے بہت پہلے سے شروع کیے جاچکے ہیں۔ دنیا میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کا نظام سب سے پہلے انگریزوں نے 1863ء میں برطانیہ میں لندن انڈر گراؤنڈ ریلوے سسٹم کے نام سے بنایا، جو آج تک بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ فرانس میں اس انڈر گراؤنڈ ریلوے سسٹم کو میٹرو کا نام دیا گیا۔ اسی طرح یہ نظام امریکا کے بڑے شہروں میں بھی بہت کامیاب رہا ہے۔ ان ممالک میں نہ صرف عوام بلکہ وزراء اور امراء بھی زیر زمین چلنے والی ٹرینوں میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ یہ سفر محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ آرام دہ بھی ہے۔ آج کے دور میں کسی ملک کے ترقی یافتہ ہونے کا اندازہ اس ملک کے انڈر گراؤنڈ یا میٹرو ریلوے سسٹم سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہانگ کانگ، سنگاپور، بینکاک اور دہلی جیسے شہر جنہوں نے بعد میں اس ریلوے نظام کی ابتدا کی اور وہ جگہ کی قلت کی وجہ سے انڈر گراؤنڈ نہیں بنا سکے، انہوں نے اسے اوور ہیڈ برج کی طرز پر بنایا اور یہ سسٹم وہاں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ہمارا ملک ترقی میں دنیا سے بہت ہی پیچھے ہے، جو کام ہمیں بیس سال پہلے کرنا چاہیے تھا ،وہ کام ہم آج کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے ملک بھارت نے دارالحکومت دہلی میں 2002میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں دو ارب پچیس کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والی زیر زمین میٹرو ریل کا افتتاح کردیا تھا۔ اس وقت اس میٹرو ٹرین کا یک طرفہ کرایہ صرف سات روپے رکھا گیا تھا، جبکہ اس سے بھی دو عشرے قبل یعنی 1982 میں بھارت نے کلکتہ میں زیر زمین میٹرو ٹرین متعارف کروا دی تھی، جس کی 28 کلو میٹر مسافت کی تکمیل 1984 میں ہوئی تھی۔ اسی طرح 9 ستمبر 2009 ء کو 8 ارب ڈالر کی لاگت سے 4 سال کی قلیل مدت میں ’’گلف ریجن‘‘ کی پہلی آٹومیٹک میٹرو ٹرین کا افتتاح دبئی میں کیا جاچکا ہے۔ بغیر ڈرائیور کے چلنے والی اس ٹرین کی اس وقت رفتار 110 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی، دبئی میں 52 کلو میٹر لمبی اور 29 اسٹیشنز پر مشتمل دبئی میٹرو کا 25 فیصد حصہ انڈر گراؤنڈ اور 75 فیصد حصہ اوور ہیڈ برج پر بنایا گیا تھا، جو کہ دبئی میٹرو حکام کے مطابق 2020ء تک میٹرو کے ذریعے روزانہ ساڑھے چار ملین مسافروں کو لے جانے کا منصوبہ تھا۔ چین تو کچھ سال قبل ’’چین سپر ہائی اسپیڈ ٹرین‘‘ کا آغاز بھی کرچکا ہے، جو کہ 500 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتی ہے۔ یہ برق رفتار ٹرین روٹ اب تجارتی سرگرمیوں کے مرکزی شہر گوانگ ڑو سے محض آٹھ گھنٹوں میں مسافروں کو دارالحکومت بیجنگ تک پہنچا دے گی۔ ان دونوں شہروں کا درمیانی فاصلہ قریب تین ہزار کلومیٹر ہے۔ اس کے باوجود کہ چین میں ٹرینوں کے ہائی اسپیڈ نیٹ ورک کو کئی مسائل کا سامنا ہے، یہ شعبہ ترقی کرتا جا رہا ہے۔ چین میں تیز رفتار ریل گاڑیوں کا نیٹ ورک 2007ء میں قائم کیا گیا تھا، مگر یہ انتہائی تیزی سے اس ضمن میں دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے۔ چین میں برق رفتار ریلوے نیٹ ورک اب 9300 کلو میٹر پر محیط ہے۔ اخبار چائنا ڈیلی کے مطابق 2020ء تک اس میں مزید 50 ہزار کلو میٹر تک کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ چین نے ریلوے کے شعبے میں ترقی کرتے ہوئے دنیا کو ایک تیز رفتار ٹرین سے منسلک کرنے کا منصوبہ بھی بنالیا ہے۔ اس منصوبے میں 13000 کلو میٹر پر مبنی چین کو امریکا سے منسلک کرنے والا زیر آب رابطہ بھی شامل ہے۔ دنیا ریلوے نظام کو بہت زیادہ مضبوط کرچکی ہے، لیکن ہمارا ریلوے نظام قابل رحم ہے،اگرچہ ملک میں میٹرو ٹرین کا منصوبہ متعارف کروایا گیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت ریلوے نظام کی بہتری کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ میٹرو ٹرین اور میٹرو بس کے منصوبے صرف لاہور کے لیے ہیں، لیکن ریلوے کا نظام پورے ملک کے لیے ہے،پورے ملک کے ریلوے نظام کو میٹرو ٹرین طرز پرچلانے کی ضرورت ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.