سو لہ دسمبر انیس سو اکہتر کا دن
پلٹن میدان میں ھتیار ڈالنے کی منظر کشی نے ہمارے جسد ملی کو ہی نہیں بلکہ
پو ری دنیا کے مسلما نو ں کے دلو ں کو بھی دو نیم کر دیا۔ صرف چو بیس سال
کے قلیل عر صے میں دو قو می نظر یہ ، مشترکہ جدو جہد اور تا ریخ اور ورا ثت
کے امین ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو گئے۔ یہ منظر آج بھی تا ریخ کے صفحو ں
سے جھا نک کر ہمیں مضطرب کر دیتا ہے۔
سقو ط ڈھا کہ ہماری قو می تا ریخ کا انتہا ئی مشکل سوا ل ہے۔ اس سے صر ف
نظر ہما ری اجتما عی دا نش پر دھبہ ہے۔ اسی لیے ہم حا ل کی بھو ل بھلیو ں
میں بھٹک رہے ہیں۔ قیا م پا کستا ن نے ھندو مت کی با لا دستی کے خوا ب کو
ایک حسرت میں بدل دیا۔ لہٰذا دفا عی، معا شی ،علمی اثا ثو ں سے محرو می،
فسا دات، لا کھو ں بے گنا ہو ں کا قتل عا م ،ہجرت اور سازشیں اس کا مقدر
بنا دی گئیں۔ تعصب اور جانبداری کی انتہا تھی کہ پاکستا ن کے دو نو ں حصو ں
کے در میا ن کو ئی راہ داری نہ تھی بلکہ سو لہ سو کلو میٹر رقبے پر محیط
ھندوستان حا ئل تھا جہا ں سے زہریلا پرو پیگنڈہ دن رات غلط فہمیوں کو پھیلا
تا ، افوا ہو ں کو جنم دیتا اور حا لات کو دھندلا بناتا۔
حا جی شر یعت کے دیش نے صد یو ں تک انگریزی استعما ر اور پھر ھندو استحصا ل
کا شکا ر ہو نے کے با وجو د سیا سی شعو ر کا ثبو ت دیا ۔مسلم لیگ پا کستا ن
کی خا لق جما عت ڈھا کہ میں وجود میں آ ئی ،مگر فہم و فرا ست سے عا ری
حکمرا نو ں نے مسلما نا ن بنگا ل کو قو می دھا رے سے کا ٹ دیا ۔ غربت ،افلا
س تو ملک کے دو نو ں حصو ں میں یکسا ں تھا مگر احسا س محرو می کو اجا گر کر
نے اور مغر بی پا کستا ن کو غا صب کے طو ر پر پیش کر نے میں ھندو لا بی کار
فر ما تھی۔ پے در پے قحط اور سیلاب کے پیچھے قدرت کے ساتھ سا تھ ،ھندو ستا
نی دریا ﺅں پر بند کی منصو بہ بندی کا نتیجہ تھے۔
تعلیمی ادا رو ں میں مو جود ھندو اسا تذہ ،نظریہ پا کستا ن کی نفی کرتے اور
قوم کے اثاثے طلبہ میں اسلا م دشمنی ، عصبیت کا رنگ گہرا کر تے۔
عا قبت نااندیش قا ئدین نے بنگلہ زبا ن کی سر کاری حیثیت منسو خ کر کے طلبہ
کو مشتعل اور محب و طن بنگا لیو ں کو ما یو س کر دیا۔ فوجی اور سیا سی طا
لع آزما ﺅ ں کی ذا تی چپقلش نے ملک کا مستقبل دا ﺅ پر لگا دیا۔ متوا تر
مارشل لاء نے احسا س محرو می کو دو آتشہ کر دیا۔ مجیب الرحمان کا چھ نکا تی
منشور ہو یا صو با ئی خود مختا ری کا مطالبہ ،خدا اور خلق سے بے نیاز
اقتدار پر قا بضین نے کسی کو درخور داعتنا نہ جانا(یہ روش آج بھی ہے!!) اگر
یہ دو نو ں با تیں مذا کرا ت کی میز پر کی جا تیں تو المیہ کی شدت میں کچھ
نہ کچھ کمی ضرور آ جا تی۔
علیحدگی کی تحریک مسلح جدو جہد میں بدل گئی۔عوا می لیگ کی اکثریت سے کا میا
بی نے انتہا پسندی کی خلیج کو اور گہرا کر دیا ۔انتخا با ت کے نتا ئج بھی
قو می حمیت کو نہ جگا سکے۔ امن و اما ن کی بگڑ تی صو رت حا ل پر مذا کرا ت
کے بجا ئے شر پسندو ں کی سر کو بی کا نسخہ آزما یا گیا ۔ یو ں چنگا ریو ں
کو ہوا دے کر قو می وحدت اور سا لمیت کو ناقا بل تلا فی نقصا ن پہنچا یا
گیا اور پھر ملت اسلا میہ کی آنکھ کا تا را پا کستا ن دو لخت کر دیا گیا۔
ملت کفر کا مثا لی اتحا د مسلما نو ں کو لسا نیت کے نام پر تہ تیغ ہو تا
دیکھ کر آسودہ ہوئے ۔ امن ،انصا ف اور انسا نیت کے نا م پر کو ئی بین
الاقوا می ادارہ پا کستا ن کی طرف نہ بڑ ھا۔ اسرا ئیل، امریکہ اور ھندو ستا
ن اسلا م کے نا م پر بننے وا لی ریا ست کی مکمل شکست کے خوا ہا ں تھے۔ پا
کستا ن کے قیمتی اثا ثے ا جا ڑ کر نشا ن عبرت بنا دیے گئے۔ بیٹیا ں بتو ل
کی،کلکتہ کے با زا رو ں میں سجا دی گئیں۔یو ں لا کھو ں مسلما نو ں کی قربا
نیو ں پر پا نی پھیر دیا گیا۔
نوے ہزار فو جیو ں کی ذلت آمیز قید سے بڑ ھ کر ستم یہ ہوا کہ ہم نے یہ
المیہ قو می زندگی سے خا رج کر دیا ۔ زندہ قو میں وہ ہو تی ہیں جو سا نحا ت
کو لو ح دل پر اپنے لہو سے رقم کر تی ہیں ۔بلا شبہ ہما رے اھل دا نش اور
بینش اپنا فرض ادا نہ کر سکے ور نہ کم از کم نو ہزا ر کتا بیں تو وجو د میں
آ جا تیں ۔ نو سو حلقہ فکر و نظر تو قا ئم ہو جا تے!!!
اے کا ش مشرقی پا کستا ن کا دفا ع مغر بی پا کستا ن سے کر نے کی منطق نہ
بگھا ری جا تی!اگر مغربی محا ذ ( جہا ں ایک گولی چلا ئے بغیر جنگ بندی ہو
گئی) پر طبل جنگ بجا یا جاتا تو صو رت حا ل کتنی مختلف رہتی اور ہما ری سیا
سی اور فو جی قیا دت کا احتسا ب ان تا ریخی لمحو ں کی غلطی کا کفا رہ تھے
اور آج بھی وا جب الادا ہیں !! ریا ست کا دفا ع صرف سپا ہ کا کا م نہیں! سا
تھ ہی اہل دا نش اٹھیں اور نسل نو کی آبیا ری کر یں شا ید کہ ان میں کو ئی
اقبا ل،قا ئد جو ہر پو شیدہ ہو! تا کہ آئندہ کسی کو مملکت کی نظر یا تی اور
جغرا فیا ئی سر حدو ں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جر ات نہ ہو اور ایک
تا بنا ک مستقبل کے سفر کا آغاز ہو!!! |