اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے مرتب کردہ رپورٹ سے پتہ
چلتا ہے کہ مختلف وزارتوں، ڈویژنوں، صوبائی محکموں اور خودمختار اداروں میں
خدمات انجام دینے والے 213 سرکاری افسران دوہری شہریت کے حامل ہیں، جن میں
سے بعض کو انتہائی اہم عہدے (Key Positions) تفویض کئے گئے ہیں۔ان میں سے
نصف سے زیادہ افسران (127) مختلف محکموں اور خود مختار اداروں سے منسلک ہیں
جبکہ 42 افسران کا ایک بڑا گروپ صوبائی حکومتوں میں تعینات کیا گیا ہے۔آزاد
کشمیر کی حکومت میں ایسے 20 افسران ہیں۔اس کا سپریم کورٹ کے لئے تیار کردہ
رپورٹ میں اسکیل 17-22 گریڈ کے دہری شہریت کے حامل افسران سے متعلق ایک
سوموٹو کیس میں انکشاف کیا گیا ہے۔
پوری قوم چیف جسٹس آف پاکستان محترم میاں ثاقب نثار کے دہری شہریت جیسے اہم
اور سنجیدہ قومی معاملات پر عدالتی کاروائی کا خیرمقدم کرتی ہے۔ اگرچہ یہ
کام حکومت اور پارلیمنٹ کو سرانجام دینا چاہئے تھا مگرعوام کے مسائل حل
کرنے سے متعلق غیرموثر حکومت اور پارلیمنٹ کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے
عدلیہ کو ان مسائل کا ازخود نوٹس لینا پڑرہا ہے۔ایسا کرنا ملک کی بقاء اور
سلامتی کیلئے ضروری ہوگیا تھا۔ ماضی میں انتہائی اہم عہدوں پرفائز دہری
شہریت کے حامل افراد نے قومی معیشت اور سیکوریٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں وزیر اعظم اور امریکہ اور برطانیہ میں تعینات
سفیروں کے عہدے پر فائز افراد نے صرف اپنے غیرملکی آقاؤں کی خدمت کی ہے اور
وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے بعد اپنے وطن
واپس چلے گئے۔دہری شہریت کے حامل افراد نہ صرف سرکاری سیکٹر بلکہ بینکنگ ،
فنانس، تجارت، صحت ، تعلیم اور پالیسی سازی جیسے اہم شعبوں میں موجود ہیں۔
دہری شہریت کے حامل افراد کا اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہونا سنجیدہ قومی
مسئلہ ہے۔ دہری شہریت کے حامل سرکاری ملازمین کو ان کے عہدوں سے ہٹا
دیناچاہئے۔ حساس عہدوں پر فائز ایسے افسران کی وفاداریاں تقسیم ہوتی ہیں
اور وہ آسانی سے پاکستان کے قومی مفادات پر سمجھوتہ کرسکتے ہیں۔معین الدین
قریشی 18 جولائی ، 1993ء سے 19 اکتوبر، 1993 ء تک نگراں وزیراعظم کے عہدے
پر فائز رہے تھے ۔ انہیں درآمدی وزیراعظم (Imported Prime Minister)
اوربینک ریکوری آفسیر کے نام سے یاد کیا جاتا تھاکیونکہ انہیں ورلڈ بنک کے
سینئر وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے واشنگٹن ڈی سی ، امریکہ سے بلوا کر پاکستان
کی وزارت عظمیٰ کی مسند پر بٹھایا گیا تھا۔ معین الدین قریشی نگراں حکومت
کی مدت پوری کرکے واپس امریکہ چلے گئے تھے اور 2016 ء میں وہیں ان کا
انتقال ہوگیا۔تین ماہ اور ایک دن کے قریشی دور کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان
آیا تھااور ملک ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبتا چلا گیا۔
شوکت عزیزپاکستان کے ایسے دوسرے وزیراعظم تھے جنہوں نے اپنے کیریئر کاآغاز
بینکنگ (سٹی بنک) سے کیا تھا۔وہ 28 اگست، 2004 ء سے 15نومبر، 2007 ء تک
وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔جس رات لال مسجد، اسلام آباد کے سانحہ نے
پورے ملک کو تشویش اور سوگ میں مبتلا کیا ہوا تھا تو شوکت عزیز اپنی فیملی
کو اسلام آبا دکے ریسٹورنٹ میں آئسکریم کھلارہے تھے۔ شوکت عزیز بیک وقت
پاکستانی، برطانوی اور امریکی شہریت رکھتے تھے ۔وہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے
سے اتر کرفوراََ ہی اپنے اصل دیش فلائی کرگئے۔
دہری شہریت کو دراصل کرپشن کرنے اور احتساب سے بچنے کیلئے ایک بہترین شیلٹر
کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اقامہ کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہے۔ اہم
وزارتوں اور سرکاری عہدوں پر فائز افراد یہاں تک کہ وزیراعظم کا اقامہ
سامنے آنا ایک اور قومی المیہ ہے۔دہری شہریت اور اقامہ کے علاوہ کٹھ پتلیوں
کو اہم عہدوں پر بٹھاکر مقاصد حاصل کرنا بھی کسی قومی المیہ سے کم نہیں ہے۔
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کے دل کے وزیراعظم کوئی
اورہیں۔ شاید اسی لئے انہیں اپنے حالیہ نجی امریکی دورے کے دوران ایئرپورٹ
پر جامہ تلاشی میں کوئی بے عزتی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ وہ خود کو نہیں
بلکہ نواز شریف کو اصل وزیراعظم سمجھتے ہیں۔ ایسے رویوں سے ہمارے
سیاستدانوں کی ذہنی سطح اور کردار کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ملک
اور قوم کے بارے میں کس طرح سوچتے ہیں۔ اہم این جی اوز کے شعبے کوبھی دہری
شہریتوں کے ساتھ نوازا جاتا ہے جو ملک کے مفادات کوزیادہ نقصان پہنچا رہے
ہیں۔ کئی سیاسی جماعتوں کے سربراہ بھی بیرون ملک بہت وقت گذارتے ہیں۔ وہ
بیرون ملک بڑی جائیدادیں رکھتے ہیں اور ان کے خاندان بھی وہاں آباد ہیں۔
پاکستان کیساتھ ان کی وفاداری ظاہری طور پرہے اور اگر وہ اپنی غلطیوں اور
کرتوتوں کی وجہ سے کوئی پریشانی محسوس کرتے ہیں تو اگلی دستیاب پرواز کے
ذریعے پاکستان چھوڑ سکتے ہیں ۔
دہری شہریت کو خفیہ رکھنے والوں سے نمٹنے کے لئے سخت قوانین کو نافذ کرنا
چاہئے جوکہ ہماری سیکیورٹی اور معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان کے
خلاف معاشی اور مالی دہشت گردی روایتی دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ نقصان
دہ ہے۔ قومی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیوں کو پاکستان اور پاکستانیوں کے
خلاف جاری معاشی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کیلئے ان کی سماجی، کاروباری اور
سیاسی حیثیت پر غور کئے بغیر اس برائی میں ملوث افراد کے خلاف انتہائی سخت
ایکشن لینا چاہئے۔ پاکستان صرف اس وقت خوشحال ہو گا جب محب وطن پاکستانی
ملک چلائیں گے، جو اپنا جینا اور مرنا اس ملک میں چاہتے ہیں اورجن کی آنے
والی نسلیں بھی اسی ملک میں جینا اور مرنا چاہتی ہو۔
ہمیں قرض فراہم کرنے والے مالیاتی اداروں کی طرف سے پالیسیاں ڈکٹیٹ کرانے
کی نہیں بلکہ ملک کے مفاد میں اپنی پالیسیاں خود بنانے کی ضرورت ہے۔جس
کیلئے ضروری ہے کہ قومی قیادت خالص پاکستانی ہو۔پاسبان کا مطالبہ ہے کہ ملک
میں متناسب نمائندگی کے نظام کو متعارف کراکے سیاست میں انقلابی تبدیلی
لائی جائے تاکہ عوام کے حقیقی نمائندے پارلیمنٹ اور قانون سازی کے فورمز
میں پہنچ سکیں۔انہوں نے کہا کہ حکمران طبقہ اشرافیہ اس تجویز کی مخالفت کر
رہا ہے کیونکہ اگر متناسب نمائندگی کی بنیادوں پر انتخابی نظام لایا جائے
گا تو ان کے سیاسی استحصال کے نظام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ملک میں سے موروثی
اور کرپشن کی سیاست کا خاتمہ ہوگا۔ عوام ووٹ شخصیات یا ایک خاندان کو نہیں
سیاسی پارٹیوں کو دیں گے۔ پھر شخصیات نہیں پارٹی منشور اہم ہوگا۔ پاکستانی
عوام کواپنے حقوق کی حفاظت کے لئے متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام کا
مطالبہ کرنا چاہیے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار سے استدعا ہے
کہ ایسے کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی جاری رکھیں جنہوں نے قومی دولت لوٹ کر
بیرون ملک منتقل کر دی ہے۔ |