ملکی وغیر ملکی کالا دھن اور اثاثے قانونی بنانے کے لیے ایمنسٹی سکیم

پاکستان کی موجودہ معاشی حالت اخباری اشتہارات کی حد تک کوہ ہمالیہ کو چھو رہی ہے۔ لیکن ابھی اپریل کے آغاز میں ہی لوڈ شیڈنگ نے جینا محال کر دیا ہے۔ ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ اور ملک کے معاشی استحکام پر سوالات اُٹھاے ہوئے ہیں۔ سی پیک کا منصوبہ بہت اچھا ہے اور وقت کے ساتھ پاکستان ترقی کے مدارج طے کرئے گا۔ لیکن موجودہ حکمرانوں نے ملکی معیشیت کو جس مقام پر لاکھڑا کیا ہے اُس پر کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ حکومت آئندہ الیکشن سے پہلے قومی خزانے کو بھرنا چاہتی ہے۔ اِس لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ایمنسٹی اسکیم کا اتنا اہم اعلان کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملکی وغیر ملکی کالا دھن اور اثاثے قانونی بنانے کے لیے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر دیا ہے۔ سکیم آرڈی نینس کے اجراء کے ساتھ فوری طور پر نافذ ہو جائے گی اور 30 جون تک جاری رہے گی۔ وزیراعظم نے یکم جولائی 2018ئسے انکم ٹیکس کی شرحوں میں غیر معمولی کمی کرنے کا بھی اعلان کیا ہے کمپیوٹرائزاڈ شناختی کارڈ ٹیکس دہندہ کا نیشنل ٹیکس نمبر ہوگا۔ ملک کے اندر موجود اثاثے 5 فی صد پنلٹی ادا کرکے قانون بنائے جاسکیں گے جبکہ بیرون ملک دھن کو ملک میں لانے پر 2 فیصد جرمانہ ادا کرکے وائیٹ کیا جاسکے گا۔ ملک کے اندر جو اثاثے ظاہر نہیں کئے گئے ہیں جن میں سونا‘ بانڈز‘ پراپرٹی شامل اور ان پر 30 جون 2017ئتک جو آمدن ہوئی ہے اسے 5 فی صد پنلٹی دے کر باقاعدہ ہٹایا جاسکتا ہے۔ یکم جولائی سے ایف بی آر کے پراپرٹی ریٹس ختم ہو جائیں گے۔ ’’نان فائلرز‘‘ یکم جولائی سے 40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی پراپرٹی خرید نہیں سکیں گے۔ صوبوں سے کہا جائے گا کہ وہ پراپرٹی کی رجسٹریشن کے لیے صوبائی یا مقامی نوعیت کے ٹیکسوں کا حجم محض ایک فی صد رکھیں۔ وفاقی حکومت کو آئندہ مالی سال سے اختیار حاصل ہوں گا کہ وہ پاکستان میں رجسٹرڈ کرائی جانے والی پراپرٹی خرید سکے گی۔ اس کے لیے تین درجے رکھے گئے ہیں۔ پہلے درجہ کے معاہدہ وفاق حکومت اگر پراپرٹی کی ظاہر کردہ مالیت سے مطمئن نہیں تو وہ رجسٹریشن کے 6 ماہ کے اندر ظاہر کردہ مالی قدر کے 100 فی صد کے مساوی اضافی رقم دے کر بانڈز خرید سکے گی۔ سیاستدان اور ان کے زیر کفالت افراد ایمنسٹی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ غیر ملکی اثاثوں کے اعلان اور وطن واپسی کی ایمنسٹی سکیم کے تحت غیر ظاہر شدہ غیر ملکی زرمبادلہ کو وطن واپس لانے پر 2 فی صد پنلٹی ادا کرنا ہوگی۔ اس کے دو پہلو رکھے گئے ہیں جن کے تحت حکومت غیر ملکی دھن کو ظاہر کرنے کے لیے 5 سال کا بانڈ جاری کر ے گی جس پر شرح منافع 3 فی صد رکھی جائے گی۔ بانڈ ایک سال تک توڑے نہیں جاسکیں گے۔ حکومت بانڈ کے معیار پوری ہونے پر پاکستانی روپے میں رقم ادا کرے گی۔ پاکستان کے اندر موجود لوگ بھی جن کے پاس زرمبادلہ رکھا ہے اور ظاہر نہیں کیا گیا خرید سکیں گے۔ پاکستان کے اندر ڈالر اکاونٹ رکھنے والے افراد جنہوں نے ڈالرز ایسے رقم سے خریدے تھے جو ظاہر نہیں کی گئی تھی 2 فی صد پنلٹی دے کر باقاعدہ بنا سکیں گے۔ غیر ملکی فکسڈ اثاثے 3 فی صد جرمانہ کی ادائیگی پر ’’سفید‘‘ بنائے جاسکیں گے۔ غیر ملکی اثاثے جو کیش‘ سیکورٹی‘ بانڈز کی شکل میں انہیں 5 فی صد جرمانہ ادا کرکے باقاعدہ بنایا جاسکے گی۔ ایمنسٹی سکیم کو نیب‘ انکم ٹیکس اور دیگر قوانین کے اطلاق سے تحفظ دیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ ٹیکس چوری مجرمانہ فعل ہے۔ملک میں عدم استحکام نہ ہوتا تو زیادہ ترقی کر رہا ہوتا۔ بیس کروڑ ستر لاکھ افراد میں صرف بارہ لاکھ شہری انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں ان میں بھی پانچ لاکھ زیرو ریٹرن فائل کرتے ہیں یعنی ٹیکس نہیں دیتے سات لاکھ ٹیکس دینے کی اہلیت رکھتے ہیں پاکستان میں اکثریت تنخواہ دار طبقے کی ہے اسلیے ٹیکسوں کے لیے انقلابی اصلاحات کا اعلان کر رہے ہیں ٹیکس ادا کریں گے تو ملک چل سکتا ہے انہوں نے کہا کہ ٹیکس ادائیگی کا کلچر نہ ہونے کی وجہ سے اسکا بوجھ عام طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے جو اسکی صلاحیت بھی نہیں رکھتا یعنی ان پر ان ڈائریکٹ ٹیکس لگائے جاتے ہیں بالواسطہ ٹیکسوں کا نفاذ غیر منصفانہ ہے اسلیے ٹیکسوں کے حوالے سے پالیسی کے پانچ عناصر ہیں کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کو متعارف کروا رہے ہیں کسی کو نوٹس دے کر بلوانے کا کلچر نہیں ہو گا پاکستانیوں کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ہی ٹیکس نمبر ہوں گے ملک میں بارہ کروڑ شناختی کارڈز ہولڈر ہیں اور وہ ٹیکس گزاروں پر ان نمبرز کی بنیاد پر شامل ہو سکتے ہیں فارم پُر کر دیں بارہ لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن کو ٹیکس سے مستثنٰی قرار دے رہے ہیں بارہ لاکھ سے چوبیس لاکھ آمدن پر سالانہ پانچ فیصد ٹیکس ہو گا 48لاکھ روپے آمدن پر دس فیصد اور اس سے زائد آمدن پر 15فیصد ٹیکس ہو گا اندرون ملک و بیرون ملک اثاثوں، اکا?نٹس، پیسوں اور ڈالرز اکا?نٹس کے لیے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر رہے ہیں ماضی کو ایک طرف رکھ دیں آئیں اپنے اثاثے ظاہر کر دیں وزیر اعظم نے واضح کیا کہ ٹیکس گزاروں کی نشاندہی کے لیے ڈیٹا بیس کے حوالے سے ہوم ورک کر لیا ہے تمام معلومات دستیاب ہوں گی کیونکہ ریاست کو معلوم ہے کہ کونساشہری کتنا بجلی گیس کے بلز ادا کرتا ہے غیر ملکی سفر کرتا ہے دو دو عمرے کرتا ہے چھ چھ بار بیرون ملک سفر کرتا ہے اور کوئی ٹیکس نہیں دیتا اب ایسا نہیں ہو گا ہم پولیس کو نہیں بھیجیں گے ایف بی آر کی ٹیمیں بھی نہیں جائیں گی بلکہ جدید طریقے سے سب معلومات مل جائیں گی اور یکم جولائی سے اس پالیسی کے تحت پاکستانی ٹیکسوں کی ادائیگی شروع کر دیں گے سزائیں نہیں ہوں گی ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں پر نیب قوانین کا اطلاق نہیں ہو گا اور اس مقصد کے لیے آرڈیننس جاری کیا جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سیاست کرنے والے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے کے اہل نہیں ہونگے سکیم اڑھائی ماہ کے لئے ہوگی۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہمارے پاس قانون بنانے کا مینڈیٹ ہے۔ دنیا میں آف شور کمپنی رکھنا جرم نہیں، اگر آف شور کمپنی میں اثاثے رکھے ہیں تو یہ ڈکلیئر کرنے کا موقع ہے۔ جو اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے وہ قانون کی گرفت میں آ جائیں گے۔ جو ٹیکس ادا نہیں کرے گا، اس کی سزا کا فیصلہ پارلیمنٹ کر سکتی ہے۔ ایوب خان ، بھٹو، ضیا الحق، بے نظیر مشرف ، زرداری اور نواز شریف ہمای ملکی سیاست میں فعال کردار کے حامل ہیں۔ باقی چھوٹے موٹے سیاستدان یا مذہبی رہنماء صرف بطور پریشر گروپ ہی فعال رہے ہیں اور موجود دو میں بھی ایسا ہی ہے۔ ریاستی اداروں کی عزت و تکریم سے ہی ملک میں امن و سکون او ر خوشحالی کی فضاء قائم ہو پاتی ہے۔قانون معاشرے کی بہبود کے لیے ہوتے ہیں۔ مقننہ قانون بناتی ہے عدلیہ اُسکی تشریح کرتی ہے اور حکومت اِس پر عمل در آمد کرواتی ہے۔ گویا کہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار عدلیہ کا ہے لیکن اُس فیصلے پر اُس کی روح کے مطابق نفاذ کیے جانے کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے عدلیہ کے فیصلوں پر من و عن عمل درآمد کرواتے ہیں۔ گویا مققنہ نے قانون بنا کر اپنا فرض ادا کردیا۔ عدلیہ نے قانون کے مطابق فیصلہ کردیا اور اُس فیصلے کو منوانا کے لیے طاقت/ نافذ کے کرنے کی قوت صرف حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ آزاد عدلیہ کے نظریے کے مطابق انتظامیہ کے زیر تحت عدلیہ نے کام نہیں کرنا ہوتا ۔ بلکہ انتطامیہ اِس حوالے سے عدلیہ کے احکام پر عمل درآمد کروانے کی سو فی صد ذمہ دار ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں شرح خواندگی سو فی صد ہے وہاں پر جمہوری نظام کے ثمرات نظر آتے ہیں لیکن جہاں وڈیرہ شاہی، سرمایہ دارنہ اور جاگیر دارانہ نظام ہو وہاں انسان کی عزت و توقیر نہیں بلکہ طاقت کو فوقیت حاصل ہے ایسا ہی تیسری اور چوتھی دُنیا کے ممالک کا پرابلم ہے وہ یوں کہ انسانوں کو نام نہاد جموریت جانوروں کی طرح ہانک رہی ہوتی ہے۔ یہاں نام نہاد جموریت کے طریقہ کار میں صرف وڈیرے سرمایہ دار، با اثر، لوگ ہی انتخابات جیت کر عوام پر باد شاہت کرتے ہیں۔ اِس طرح کی اسکیم کیا ملک میں قانون کی بالادستی کے پیمانوں پر اُترتی ہے۔ پاکستانی معیشت کو چند فی صد اشرافیہ نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ عام آدمی افراط زر کی شرح میں بے پناہ اضافے سے روٹی کھانے سے بھی محروم ہے۔ستر فی صد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ملک کو جب تک ایماندار قیادت نہیں ملتی اُس وقت تک ملکی معیشت چند ہاتھوں میں مرتکز رہے گی۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 381958 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More