دھرنا ٹو کی نوبت ہی نہیں آئی۔جس مطلوبہ بندوبست کے لیے
پردہ نشین بھاگ رہے تھے۔وہ پوراکر لیا گیا۔جاوید ہاشمی نے کچھ لوگوں کو
تیار کرکے نوازشریف حکومت کو گھر بھجوانے کی تمنا رکھے جانے کا بھانڈا
پھوڑا تھا۔وہ لوگ تیار کرلیے گئے۔انہی لوگوں کی طرف سے پیادے کو پیغام
بھجوادیا گیا کہ ہم تیار ہیں۔معاملات ہمارے پاس لے آئیں۔ہم نوازشریف حکومت
کو گھر بھجوانے کی کوئی تدبیر کردیں گے۔آپ طویل عرصے تک سڑکو ں پر جو دھول
اڑا رہے ہیں۔اب اس کی ضرورت نہیں باقی رہی۔دھرنا ٹو کی نوبت نہ آسکی۔اگر یہ
دھرنا ہو بھی جاتاتو اس کا انجام دھرنا اول سے مختلف نہ ہوتا۔تب ساری
اپوزیشن نے دھرنا پارٹی کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔اس کا ساتھ دینے کے لیے
حیلے بہانے تراشے گئے۔کہا گیا کہ جمہوریت سے زیادہ ریاست عزیز ہے۔ہمیں
شخصیات کی بجائے اداراے بچانا ہیں۔جب کچھ دن دھرنا جوڑی نے اپنا سارازور
لگالیا۔ یہ پانسا کمزور نظر آنے لگا تو مخالفت کرنے والے بیشتر لوگ جمہوریت
کے دفاع کے نام پر حکومت کے ساتھ جاکھڑے ہوئے۔یہ بھی خیال کیا جارہاہے کہ
جب تک اشارہ نہ آیا۔جمہوریت مقدم رہی۔جس جس کو اشارہ ملتا گیا۔وہ جمہوریت
کی بجائے ریاست کے تقدم کا راگ آلاپنے لگا۔ اشاروں کا یہ پرچی تماشہ آج بھی
جاری ہے۔تحریک انصا ف نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے چیئرمین سینٹ کے
خلاف بیان کے خلاف قرارداد سینٹ میں پیش کردی ہے۔اس قرارداد میں کہا گیاہے
کہ وزیر اعظم کے ریمارکس چیئرمین سینٹ کے عہدے کوبدنام کرنے کی کوشش ہے۔یہ
بیان ضابطہ اخلاق اور اخلاقی اقدارکے بھی منافی ہے۔اس بیان کی تحریری طور
پر معذرت کی جائے۔
تحریک انصاف نے چیئرمین سینٹ کے خلاف بیان پر ناپسندیدگی کا اظہا رکیا
ہے۔یادرہے کہ وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی نے کہا تھا کہ سینٹ الیکشن میں بد
ترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے۔سنجرانی کی کوئی عزت نہیں۔متفقہ چیئرمین سینٹ
لایا جائے۔ووٹ خرید کر سنجرانی کو لایا گیا۔ایسا انتخاب بے عزتی ہے۔تحریک
انصاف کو وزیر اعظم کی اس بات پر غصہ ہے۔اسی سلسلے میں تحریری معذرت کا
مطالبہ کیا جارہا ہے۔سوال یہ ہے کہ آیا یہ مطالبہ قومی مفاد میں ہے یا کسی
طرف سے کیے گئے اشارے کے سبب ہے۔عمران خاں کی اب تک کی اچھل کود قومی مفا د
کی بجائے کچھ لوگوں کے مفاد پر مبنی ثابت ہوئی ہے۔اس سیاست کو مائنس
نوازشریف سیاست قراردیا جاسکتاہے۔ان کی جماعت جب بھی بولی نوازشریف کے خلا
ف بولی جو بھی تحریک چلائی نوازشریف کے خلاف چلائی۔یہ بے ہودہ پراپیگنڈہ
کیا جارہا ہے کہ شریف فیملی کے سوا سب اچھا ہے۔یہ برائیوں اور ناکامیوں کا
اصل سبب ہے۔یہ پراپیگنڈہ عوام الناس کو ہضم نہیں ہورہا۔اگر خاں صاحب بلا
امتیاز وتفریق پاکستان کے مسائل اور وجوہات پر سیاست کرتے تو شاید
مسیحاقرار پاجاجاتے۔صر ف ایک دھڑے کو تمام تر مسائل سے نتھی کردینے سے ان
کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔بظاہر یہ دھڑا برائی اور خرابیوں کے حساب سے کسی بھی
طرح اکیلا نہیں ہے۔برائیوں اور خرابیوں کی ایک لمبی قطار ہے۔اگر شریف فیملی
کو پاکستانی منظر نامے سے نکال بھی دیا جائے تو یقین نہیں ہوتا کہ سب اچھ
اہوجائے گا۔اگر عمران خاں نئے پاکستان کی با ت کرتے ہیں تو پھر انہیں سبھی
برائیوں اور خرابیوں پر برابر توجہ دینا ہوگی۔
تحریک انصاف سیخ پا ہے۔اسے چیئرمین سینٹ سے متعلق وزیر اعظم کے بیان پرغصہ
ہے۔ حیرت ہے کہ وزیر اعظم کے ہارس ٹریڈنگ ہونے کے بیان پرتو طیش ہے مگر
ہارس ٹریڈنگ پرکوئی غصہ نہیں۔اسی بد ترین ہارس ٹریڈنگ پر چیئرمین تحریک
انصاف نے کہا تھا کہ شرمناک ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔عوام نے اپنے نمائندوں کو
بکتے ہوئے دیکھا۔ضمیروں کی ایسی تجارت دنیا کی کس جمہوریت میں دیکھنے کو
ملتی ہے۔پی پی نے ہارس ٹریڈنگ سے کے پی کے کی دو نشستیں جیتیں۔تحریک انصاف
کو اس ہار س ٹریڈنگ پر بے پناہ غصہ تھا۔اسے اپنی تین یقینی سیٹیں چھن جانے
کا غصہ تھا۔دو سیٹیں اس کے اپنے نامزد اراکین کو نہ مل سکیں۔ ایک سیٹ پر اس
نے اپنی اتحادی جماعت کو جتوانے کا بندوبست کررکھا تھا۔ہارس ٹریڈنگ کے سبب
یہ تینوں سینٹیں چھن گئیں۔جانے کیوں اب عمرا ن خاں اس ہارس ٹریڈنگ کو
فراموش کرنے کے موڈ میں ہیں۔ پہلے وہ چھینا جپٹی سے جیتے ہوئے لوگوں کے
خلاف تھے اب ان کے دفاع کے لیے کمر کس رہے ہیں۔کہہ مکرنیوں کا مطاہر ہ پہلے
بھی ہوچکا۔جن دنوں انہوں نے ہارس ٹریڈنگ کا واویلہ کیا تھاانہی دنوں پی پی
او رمسلم لیگ(ن)سے تعاون کرنے کو اپنی سیاسی موت قراردیا تھا۔پھر قوم نے
دیکھا کہ پی پی کے ڈپٹی چیئرمین کو عمران خاں ووٹ دے رہے ہیں۔ لگتاہے انہیں
کہیں سے کوئی ہدایت نامہ مل رہا ہے۔جس کے سبب انہیں بار بار اپنے کہے کے
خلاف جانا پڑ جاتاہے۔جس طرح خاں صاحب چیئرمین سینٹ کے دفاع پربضد ہیں۔اسے
بھی کسی نئی پرچی تماشے کا کمال سمجھ لینا چاہیے۔ |