اﷲ تعالےٰ نے امریکہ میں مقیم بیٹی کو چاند سا بیٹا
عطا کیا تو ہم نے بھی امریکہ جانے کے لیے رختِ سفر باندھا۔ ایک تو 28
گھنٹوں پر محیط طویل سفر اور دوسرے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نِت نئی
امیگریشن پالیسیوں کی بنا پر ہم تھوڑے مشوّش تھے کہ پتہ نہیں امیگریشن پر
کون کون سی گھاٹیاں سَر کرنی پڑیں گی۔ سفر تو بہرحال تکلیف دہ ہی تھا کہ
دبئی سے ہیوسٹن تک17 گھنٹے کی لگاتار پرواز سے جوڑ جوڑ دُکھنے لگا لیکن
ہیوسٹن پہنچنے پر ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی کہ امیگریشن پر چند بنیادی سوالات
کے بعد ہمیں جانے کی اجازت دے دی گئی اور ہم محض آدھے گھنٹے بعد ایئر پورٹ
سے باہر نکل آئے اور ہمارا یہ تصّور بالکل غلط ثابت ہوا کہ امریکہ میں بہت
سخت جانچ پڑتال ہوتی ہے۔
لاہور سے براستہ دبئی ہیوسٹن تک سفر کے لیے ہم نے ’’ایمرٹس‘‘ کا انتخاب کیا۔
وجہ اُس کی یہ تھی کہ پی آئی اے کی نیویارک تک کی پروازیں بند کی جا چکی
تھیں۔ یوں تو ایمرٹس کے بوئنگ 777 کا معیار بہت زبردست تھا لیکن جب فضائی
میزبانوں نے ہمارے سامنے کھانے کی ٹرے رکھی تو ہمارے چودہ کیا اٹھائیس طبق
روشن ہوگئے۔ کیونکہ ٹرے میں سجی کسی ایک شٔے سے بھی ہمارا کبھی واسطہ نہیں
پڑا تھا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے ایک دو چیزوں کو چکھنے کی کوشش کی لیکن پھر جلد
ہی ہاتھ کھینچ لیا کہ اُن میں سے کسی شٔے کی لذت سے آشنائی نہیں تھی۔ یوں
ہمیں پی آئی اے کی بُری طرح سے یاد ستانے لگی جس میں ہم پاکستانیوں کے لذتِ
کام ودہن کا بھرپور انتظام ہوتا تھا۔
یہ وہی پی آئی اے ہے جس کی گود میں ایمرٹس پَل بڑھ کے جوان ہوئی اور دنیا
میں نام ومقام حاصل کیا لیکن خود پی آئی اے کا حال یہ کہ دمِ واپسیں پہ۔
کسی زمانے میں پی آئی اے کا الگ نام ومقام ہوا کرتا تھااور ’’با کمال لوگ ،لاجواب
سروس‘‘ اِس کا نعرہ جس کی صداقتوں کی امین اُس کی بہترین کارکردگی ہوا کرتی
تھی۔ پھر یہی پی آئی اے سیاست کی بھینٹ چڑھی اور ایسی چڑھی کہ کاٹو تو بدن
میں لہو نہیں۔ ہر حکومت نے اپنے سیاسی ہرکاروں کو نوازنے کے لیے اِس میں بے
پناہ بھرتیاں کیں۔ اگر سیاسی بھرتیاں کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھاتو
پھرجہازوں کی تعداد بھی بڑھاتے تاکہ تناسب برقرار رہتالیکن ہمارے رہنماؤوں
کی تو اپنی ’’توندیں‘‘ اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتیں،
پھر بھلا جہازوں کیخریداری کے لیے پیسہ کہاں سے آتا۔
وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انہی سیاسی بھرتیوں نے پی آئی اے کو تباہی کے
دہانے پر پہنچایا ۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ہر حکومت پی آئی اے سے جان
چھڑانے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔ طُرفہ تماشا یہ کہ جب کوئی سیاسی جماعت
اقتدار میں ہوتی ہے تو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے نعرہ زَن ہو جاتی ہے اور
جونہی اپوزیشن میں آتی ہے تو نجکاری کے خلاف ڈَٹ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ آج
بلاول بھٹو ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف نعرہ زَن ہے
لیکن اپنے پچھلے ہی دَورِ حکومت میں پیپلزپارٹی پی آئی اے کی نجکاری کے لیے
ہاتھ پاؤں مارتی رہی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگرگھر میں کسی وجہ سے فاقوں کی
نوبت آجاتی ہے تو گھر کا سامان نہیں بیچا کرتے بلکہ اُس وجہ کو تلاش کیا
جاتا ہے جس کے سبب یہ نوبت آئی۔ تحقیق کہ پی آئی اے کو ایک دفعہ پھر باکمال
لوگوں کی لاجواب سروس میں ڈھالا جا سکتا ہے ،شرط مگر یہ کہ عزمِ صمیم اور
نیتوں میں خلوص ہو لیکن بدقسمتی سے حکمرانوں اور پی آئی اے کے عملے میں اِن
خصوصیات کا قحط ہے۔ اگر حکمران دو قدم آگے بڑھ کر پی آئی اے کو سنبھالا
دینے کی کوشش کرتے یا پھر پی آئی اے کا عملہ اِس کو نجکاری سے بچانے کے لیے
دِن رات محنت کرتا تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا لیکن یہاں تو صورتِ حال یہ
ہے کہ حکمران پی آئی اے سے بیزار اور عملے میں موجود کچھ ’’کالی بھیڑیں‘‘
نہ صرف پی آئی اے بلکہ ملک کی بدنامی کا باعث بھی بن رہی ہیں۔
پچھلے دنوں فرانسیسی کسٹم حکام نے پیرس میں تلاشی کے دَوران پی آئی اے کے
فلائٹ اسٹیورڈگلزار تنویر کو گرفتار کیا جس کے قبضے سے کروڑوں روپے مالیت
کی ہیروئن کے چار پیکٹ برآمد ہوئے۔ دَورانِ تفتیش گلزار تنویر کی نشاندہی
پر فلائٹ اسٹیورڈ عامر معین کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ کسی عام مسافر کے
قبضے سے اگر منشیات برآمد ہوتیں تو معاملہ کچھ اور ہوتا لیکن جب خود پی آئی
اے کا عملہ ہی ملوث ہو تو پاکستان کی کتنی بدنامی اور دنیا میں پاکستان کا
کیا امیج جائے گا،اِس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ کینیڈا ہیروئن کیس
میں بھی گلزار تنویر کے دو ساتھی وسیم عباس اور عامر نیاز اے این ایف کی
انکوائری بھگت رہے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب پی آئی اے کے یہ ناسور
اپنی مذموم حرکات میں مگن تھے ،تب اعلیٰ حکام کہاں سوئے ہوئے تھے۔ یوں
محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پی آئی اے کے عملے میں ایک پورا گینگ ایسی مذموم
حرکات میں ملوث ہو ۔ ایسے لوگوں کو نشانِ عبرت بنا دینا کوئی مسٔلہ نہیں
لیکن اِس کے لیے جو ہمت اور حوصلہ درکار ہے ،وہ شاید اعلیٰ حکام میں مفقود
ہے۔
گلزار تنویر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یونین کا نمائندہ ہے اور یونین
ہی کے کہنے پر اُس کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ جب وہ پیرس میں رنگے ہاتھوں پکڑا
گیا تو پی آئی ے حکام نے شیڈولنگ کی ڈیوٹی لگانے والے ہارون احمد کو معطل
کردیا ۔ ہارون احمد ایچ آرمیں سُپروائزر ہے جس کی ایچ آر نے ایڈمن کی ڈیوٹی
لگائی گئی تھی لیکن وہ اپنی اصل ڈیوٹی کرنے کی بجائے شیڈولنگ کی ڈیوٹی سر
انجام دے رہا تھا۔ گلزار تنویر کی ڈیوٹی لگانے والا بھی یہی شخص تھا ۔ شنید
ہے کہ شیڈولنگ کے دوران ہارون احمد کی کئی شکایات بھی ہوئیں اور ایڈمن
مینیجر نے کئی دفعہ اُس کے ریلیز آرڈر بھی کیے لیکن پتہ نہیں وہ کون سے
خفیہ ہاتھ تھے جن کے زعم میں وہ متواتر شیڈولنگ ہی کرتا رہا۔ جب پیرس میں
گلزار تنویر پکڑا گیا تو ہارون احمد کو معطل کرکے شوکاز نوٹس دیا گیا لیکن
محض تین چار دنوں کی کاغذی کارروائی کے بعد اُسے بحال بھی کر دیا گیا۔ یہ
بجا کہ اُس سے شیڈولنگ کی ڈیوٹی واپس لے لی گئی لیکن وہ اب بھی ایئرپورٹ پر
ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں ڈٹا ہوا ہے حالانکہ اُس کے خلاف تو بھرپور انکوائری
ہونی چاہیے تھی لیکن شاید پی آئی اے حکام اصل مجرم تک پہنچنا ہی نہیں چاہتے۔
ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ اصل سہولت کار ہارون احمد ہی ہے لیکن جس طرح سے
پاکستان کی بدنامی اور جگ ہنسائی ہوئی، اُس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے
کہ اِس معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لیے اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی
جائے تاکہ ایسے معاملات میں ملوث عناصر کو نشانِ عبرت بنایا جا سکے۔
|