1-اگست 2008 کو کے -ٹو چوٹی کو سر کرتے ھوۓ کوہ پیمائ کی
تاریخ کا سب المناک حادثہ رونما ھوا۔یہ اسی کی روداد ھے۔
کے ٹو k-2 دنیا کی دوسری بڑی پہاڑی چوٹی ھے۔یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے
پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم میں واقع ھے۔اسکی بلندی 8611 میڑ ھے۔۔
کوہ پیماؤں کا کہنا ھے کہ ماونٹ ایورسٹ کے مقابلے میں کے ٹو پہاڑ پر چڑھنا
اور اسے سر کرنا زیادہ مشکل ھے۔ کے ٹو کو پہاڑوں کا پہاڑ ۔ یا کبھی وحشی
پہاڑ savage mountain بھی کہتے ھیں۔۔۔ ماونٹ ایورسٹ کو آج تک لگ بھگ تین
ھزار بار سر کیا جا چکا ھے۔اس کے مقابلے میں کے ٹو کو تین سو بار سر کیا
گیا ھے۔۔
کے ٹو کو ایک انگریز جغرافیہ دان Godwin Austen نے دریافت کیا۔لہذا اس
انگریز کے نام پر اس چوٹی کا نام Godwin Austen رکھا گیا۔۔مگر یہ کے ٹو کے
نام سے ھی مشہور ھے۔ کے ٹو پر چڑھنے کی بے شمار کوششیں ھوئ مگر پہلی بار یہ
31 جولائ 1954 میں سر ھوئ۔ ایک اطالوی کوہ پیماؤں کا گروپ اس پر چڑھنے میں
کامیاب ھوا۔ جس میں ایک پاکستانی کرنل محمد عطااللہ بھی شامل تھے۔ .اگرچہ
کرنل چوٹی پر نہ پہنچ سکا۔
❤❤❤ کے ٹو پہاڑ کے سب سے مشکل حصے کو بوتل نیک (bottle neck) کہتے ھیں۔ یہ
ایک سیدھی چڑھائ ھے۔ جو ھر وقت برف سے ڈھکی رھتی ھے۔یہاں برف کے بڑے بڑے
تودے گرتے رہتے ھیں اور طوفانی ھوائیں چلتی ھیں جو برف کے تودوں کو لڑھکاتی
رہتی ھیں۔۔انھیں avalaches کہتے ھیں۔ اگر کوئ کوہ پیما ان کی زد میں آ جاۓ
تو وہ سیکنڑوں فٹ گہری کھائ میں جا گرتا ھے ۔اور پھر ھمیشہ کیلیۓ برف کے
نیچے دفن ھو جاتا ھے۔
کےٹو پر چڑھنے کےلیۓ معتدل موسم کا انتظار کیا جاتا ھے۔عموماً جون تا اگست
کے دوران موسم ٹھیک ھوتا ھے۔ کے ٹو پر ھونے والے حادثات میں سب سے خطرناک
حادثہ 1 اگست 2008 کو ھوا ۔اس میں 11 کوہ پیما اپنی جان کی بازی ھار گۓ۔
چوٹی پر کوہ پیمائ کرنے کیلیۓ جس مقام سے آغاز کیا جاتا ھے اُسے بیس کیمپ
Base camp کہتے ھیں۔ اسی طرح مختلف فاصلوں پر بھی کیمپ لگاۓ جاتے ھیں۔۔ان
کیمپوں میں کوہ پیما آرام کرتے ھیں۔۔۔تھکاؤٹ دور کرتے ھیں۔اور مہم کے اگلے
حصے کے لیۓ خود کو تیار کرتے ھیں۔
جولائ 2008 کے اختتام تک کوہ پیماؤں کے کچھ گروپ کیمپ فور پر اکھٹے ھو
گۓ۔اس گروپ میں ایک امریکن ٹیم۔ ایک فرانسیسی ٹیم۔ ایک نارویجیئن ٹیم۔ایک
سربیئن ٹیم اور ایک کورین ٹیم کے کوہ پیما شامل تھے۔ تین آزاد کوہ پیما بھی
اس سارے گروپ میں شامل تھے۔۔۔ان میں دو میاں بیوی بھی تھے۔ دو پاکستانی
پورٹر جہان بیگ اور کریم مہربان بھی اس مہم میں حصہ لے رہے تھے۔ جو کے ٹو
اور دوسری بلند چوٹیوں پر چڑھنے کی مہارت رکھتے تھے۔
جمعہ1- اگست 2008 کو مہم شروع ھوئ
کوہ پیماؤں نے اپنے مددگار شرپاؤں( Sherpas) کے ساتھ ملکر پہاڑ پر چڑھنے
کیلیۓ رسیاں لگانی شروع کر دیں۔ چٹان کے اندر مخصوص قسم کے ھُک اور سکریو
گاڑے جاتے ھیں۔رسیاں ان ہکُوں میں پھنسائ جاتی ھیں اور ان کے سہارے اوپر
بڑھا جاتا ھے۔
ایک سپینی کوہ پیماہ Alberto zerain بھی اس دوران اُن سے آن ملا ۔ ایک
پاکستانی پورٹر۔ شاہین بیگ۔ جو سربیا کی ٹیم کے ھمراہ تھا ۔وہ اچانک بیمار
ھو گیا اور بیس کیمپ میں واپس آگیا۔ وہ شاید بخار میں مبتلا تھا- ایک بہت
بڑی غلطی یہ ھوئ کہ رسیاں ختم ھوگئ تھیں اور ۔bottle neck تک رسیاں نہ
باندھی جا سکیں۔ حالانکہ یہ چوٹی کا سب سے خطرناک حصہ ھے اور یہاں حفاظتی
رسوں کے بغیر چڑھنا بہت مشکل ھوتا ھے۔
ان حالات میں سے گزرتے ھوۓ کوہ پیماؤں نے چوٹی کی جانب چڑھنا شروع کر دیا۔
انکی رفتار سست تھی۔کیونکہ بہت بڑی تعداد اس معرکے میں حصہ لے رہی تھی۔ لگ
بھگ چوبیس کوہ پیما بیک وقت رسیوں کو تھامے چل رہے تھے۔ کسی ایک کو بھی کوئ
مسلہ ھوتا تو سبھی کو رکنا پڑتا تھا۔یہ ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا۔۔بہت سارے
کوہ پیماؤں پر بیزاریت اور تھکاوٹ طاری ھونے لگی۔
ایک سربئین کوہ پیما Dren mendic نے اپنا سیفٹی کلپ حفاظتی رسے سے الگ کر
دیا۔ وہ شائد نارویجئین ٹیم کو راستہ دینا چاھتا تھا۔ یہ اس کی ایک بھیانک
غلطی تھی ۔نیچیے مہیب چٹانیں منہ کھولے کھڑی تھیں۔اس کا پاؤں پھسلا اور وہ
پہاڑ سے نیچے لڑھکنے لگا۔اس کا بچنا ناممکن تھا۔ تقریباً سو میڑ نیچے
پہنچنے کے بعد اس کا جسم کسی چٹان سے لگ کر رک گیا۔۔۔۔کوہ پیماؤں کا کہنا
تھا کہ اس کے جسم میں حرکت نظر آ رہی تھی۔ کچھ آدمیوں کو نیچے بھیجا گیا
مگر معلوم ھوا کہ وہ مر چکا ھے۔ اس کے جسم کو کیمپ میں پہنچانے کا فیصلہ
ھوا۔ایک پاکستانی پورٹر جہان بیگ بھی اس ریسکیو آپریشن میں شامل تھا
برف سے ڈھکی ھوئ برفانی چوٹی پر کسی دوسرے زخمی کوہ پیما کو ریسکیو کرنا
اور زخمی کو بیس کیمپ تک پہنچانا بہت مشکل کام ھوتا ھے۔۔برفانی ڈھلوانوں پر
چپکے ھوۓ کوہ پیما اپنے آپ کو بڑے مشکل سے بیلنس رکھ پاتے ھیں۔
یہاں بھی یہی ھوا۔۔ نیچے اترتے ھوۓ اچانک جہان بیگ اپنا توازن برقرار نہ
رکھ سکا۔ اور وہ پہاڑی ڈھلوان پر گہری کھائ کی طرف لڑھکنے لگا۔۔اس نے
سنھبلنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ھو سکا۔ آن کی آن میں اس کا جسم گہری
کھائ میں غائیب ھو گیا۔ یہ دوسری موت تھی جو اس دن کے ٹو پر ھوئ۔
اوپر موجود کوہ پیماؤں نے چوٹی کی طرف بڑھنا جاری رکھا۔۔مگر وہ بہت لیٹ ھو
چکے تھے۔ رات ھو چکی تھی اور کے ٹو پر ایک مہیب اندھیرے کی چادر تن چکی
تھی۔درجہ حرارت گر چکا تھا۔۔۔سردی کی وجہ سے خون رگوں میں جمتا ھوا محسوس
ھو رہا تھا۔اس پر مزید ستم یہ کہ ایک ٹریفک جام کا منظر تھا۔
پہلا کوہ پیما جو چوٹی پر پہنچا وہ Alberto Zerain تھا۔نارویجئن ٹیم کے دو
کوہ پیما شام پانچ بجے کے قریب چوٹی پر پہنچے۔ڈچ ٹیم بھی چوٹی پر شام سات
بجے کے قریب پہنچ گئ۔ کل ملا کر تقریباً 18 کوہ پیما چوٹی پر پہنچے۔
اب نیچے اترنا تھا۔۔جب کوہ پیما بوتل نک Bottle Neck کے پاس پہنچے تو ایک
کوہ پیما پھسلا اور برف میں انھدیروں میں غائیب ھو گیا۔۔وہ رالف با ۓ Rolf
Bae تھا۔۔جو اپنی بیوی Cecile Skog کے ساتھ چوٹی فتع کرنے کے بعد واپس آ
رہا تھا۔
گرتی ھوئ برف نے رسوں کو توڑ پھوڑ دیا تھا۔واپسی ایک بہت مشکل مرحلہ ثابت
ھو رہی تھی۔ Skog اپنی ٹیم کے ساتھ کیمپ فور میں پہنچ گئ۔لیکن بارہ کے قریب
کوہ پیماہ ابھی بھی Death Zone میں رسیوں میں جکڑے ھوۓ موجود تھے۔ درجہ
حرارت منفی 40 ڈگری تک گر چکا تھا۔ اور ھوا میں آکسیجن کی مقدار خطرناک حد
تک کم ھو چکی تھی۔سانس لینا بہت مشکل ثابت ھو رہا تھا۔
رسیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سارے کوہ پیما اپنا راستہ گم کر چکے
تھے۔۔وہ نیچے تو آ رہے تھے مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ کدھر کو جا رہے
ہیں۔وہ بس اندھاد ھند نیچے اتر رہے تھے۔
اس شدید خطرناک صورتحال میں تین کوہ پیماؤں نے فیصلہ کیا کہ اب رک کر صبح
کا انتظار کیا جاۓ۔یہ Van Rooijin , Confortola , McDonnell تھے۔
دوسری صبح جب وہ نیچے اتر رہے تھے ۔انھوں نے کورئین کوہ پیماؤں کو رسیوں
میں جکڑا ھوا دیکھا جو بھت بری حالت میں تھے ۔ وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ
رھے تھے۔Confortola اور McDonnell نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔مگر دو
گھنٹے کی جدو جہد کے بعد بھی ان کو آزاد نہ کرا سکے۔McDonnell نے ان کو
چھوڑا اور نیچے اترنے لگا۔ وہ کچھ بیمار بھی لگ رہا تھا۔۔وہ اونچائ پر ھونے
والے بخار میں مبتلا ھو چکا تھا۔۔وہ خود نہ سمجھ پایا کہ وہ کیا کر رہا ھے۔
مگر وہ کبھی کیمپ 4 تک نہ پہنچ سکا ۔خیال یہ ھے کہ راستے میں کسی برفانے
تودے کی زد میں آ کر وہ اپنی جان گنوا بیٹھا۔ confortola بھی نیچے اترتے
ھوۓ راستے میں پھنس گیا ۔اس کی خوش قسمتی تھی کہ کیمپ میں موجود ایک پورٹر
Pemba نے اسے دیکھ لیا اور اسکی جان بچا لی۔ پھنسے ھۓ کورین کوہ پیما نہ بچ
سکے۔۔Pemba نے ایک بار پھر بہادری کا مظاھرہ کیا اور Death زون میں موجود
Rooijin کو بھی بحفاظت کیمپ 4 تک لے آیا۔۔وہاں سے پاکستان آرمی کے ھیلی
کاپڑ کے ذریعے ان دونوں کو نیچے اتار لیا گیا۔…
Pemba کو اسکی بہادری کی بنا پر ایک ہیرو کا اعزاز دیا گیا۔ ایک پاکستانی
پورٹر مہربان کریم بھی اس مہم اپنی جان گنوا بیٹھا۔۔اسکی لاش کا کچھ پتہ نہ
چل سکا۔ کل گیارہ کوہ پیماہ اس مہم میں مارے گۓ۔اس حادثے کو کےٹو پر ھونے
والا سب سے ھلاکت خیز حادثہ کہا جاتا ھے
|