امریکی دن دھاڑے معصوم پاکستانیوں کو سر عام قتل کرتے ہیں
اور ملک سے بچ کر چلے جاتے ہیں۔ ایسا پہلے بھی ہوا۔ آج ایک بار پھر ایسا
ہونے جا رہا ہے۔ 2011کے آغاز پر لاہور کے مصروف ترین مزنگ چوک میں امریکی
سی آئی اے ایجنٹ جس کا تعلق بلیک واٹر سے تھا، نے دو پاکستانیوں کو گولیاں
مار کر شہید کر دیا۔ اسے بچانے کے لئے آنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑی
نے تیسرے پاکستانی کو کچل کو شہید کیا۔ یہ وہی ریمنڈ ڈیوس ہے جس نے اب اپنی
کتاب میں پاکستان کی حکومت اور اس کی بے بسی کا جی بھر کر مذاق ارایا ہے کہ
کس طرح اسے قتل کرنے کے بعد پاکستانی حکام نے بچا کر امریکی سفیر کیمرون
منٹر کے حوالے کیا۔ جو اسے لے کر فوری طور پر کابل پہنچ گئے۔ ریمنڈ ڈیوس کی
یادداشتیں کئی حیرتناک انکشافات سے بھری ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس سفارتکار نہ تھا۔
تا ہم وہ لاہور میں امریکی قونصل خانے کی نگرانی میں جاسوسی کر رہا تھا۔ جس
کا کام پاکستان میں دہشتگردی کرنا تھا۔ مگر وہ دو قتل کرنے اور اس کو بچانے
آنے والے ایک قتل کرنے کے بعد بھی بچ گئے۔ آج ریمنڈ ڈیوس اکڑ کر پاکستان
اور پاکستانیوں پر طنز کر رہا ہے۔
ہفتہ 7اپریل کی سہ پہر کو لاہور جیسا واقعہ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد
میں پیش آیا۔ اس بار بلیک واٹر کی جگہ امریکی سفارتخانے میں تعینات دفاعی
اور فضائیہ کے اتاشی کرنل جوزف ایمانوئل ھال نے ایک نوجوان کو قتل اور
دوسرے کو معذور کر دیا۔ امریکی دفاعی تاشی نے مارگلہ روڈ پر ٹریفک سنگل توڑ
کر دو موٹر سواروں کو کچل دیا۔ 22سالہ عتیق بیگ مارگلہ ہلز کے تلہار گاؤں
کا رہائشی تھا جو موقع پر شہید ہوا۔ اس کا کزن رحیل احمد ہسپتال میں تڑپ
رہا ہے۔
پانچ سال پہلے فروری 2013کو بھی اسی طرح امریکی سفارتخانے کی گاڑی نے ٹریفک
سنگل توڑ کر ایک سرکاری ملازم کو کچل کر شہید اور اس کے دوست کو زخمی کیا۔
دونوں موٹر سائکل پر سوار تھے۔ لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ کیوں کہ قاتل
امریکی تھے۔ جب غیر سفارتکار امریکی کئی قتل کرنے کے باوجود باعزت ملک سے
فرار کرا دئے جاتے ہیں تو پھر اسلام آباد میں نوجوان کو قتل کرنے والا
امریکی سفارتکار بھی ہے اور دفاعی اتاشی بھی۔ اس کے خلاف کون قانونی
کارروائی کی جرائت کر سکتا۔ یہ خطرہ کون مول لے سکتا ہے۔ تھانہ کوہسار میں
رسمی کارروائی کی گئی۔ امریکی دفاعی اتاشی کے پاس ڈرائیونگ لائسنس اور
سفارتی دستاویزات تھیں۔ اس کی آ ڑ میں اسے آ زاد کر دیا گیا۔ شاید اسے ملک
سے فرار بھی کرا دیا گیا ہو۔ دلیل یہی دی جا رہی ہے کہ سفارتی استثنیٰ کی
وجہ سے پاکستان مجبور ہے۔ کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ کیوں کہ کوئی
سفارتکار دوسرے ملک میں ریاست جیسا درجہ رکھتا ہے۔ اس لئے اس کے خلاف
کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔ مقتول نوجوان کے والد سعد پور گاؤں کے
ایک سرکاری سکول میں سیکورٹی گارڈ ہیں۔ حکومت ایک غریب شہری کو انصاف کیسے
دلا سکتی ہے۔ مقتول کے والد نے کوھسار تھانے میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ اس
کا بیٹا اور بھانجا دامن کوہ سے موٹر سائیکل پر آ رہے تھے جب مارگلہ روڈ پر
دامن کوہ چوک میں ایف ایٹ سے آنے والی امریکی دفاعی اتاشی کی لینڈ کروزر نے
اشارے توڑتے ہوئے دونوں کو کچل دیا۔ امریکی سفارتکار کو پولیس سٹیشن لے
جایا گیا۔ مگر اس نے ڈپلومیٹک کارڈ جو کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے جاری
کیا تھا، پیش کیا۔ سفارتکار نے ڈرائیونگ لائسنس بھی پیش کیا۔ امریکی
سفارتخانے کے سیکورٹی چیف پولیس سٹیشن آئے اور امریکی سفارتکار فوجی افسر
کو اپنے ساتھ لے گئے۔ پولیس نے امریکی لینڈ کروزر، ڈپلومیٹک کارڈ اور
ڈرائیونگ لائسنس ضبط کئے۔ دفتر خارجہ بھی متحرک ہوا۔ اگر چہ پولیس نے
سفارتکار کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کر لیا ہے، مگر اس میں غیر ارادی قتل
کا بطور خاص تذکرہ کیا گیا ہے۔ اب پولیس نے عوامی دباؤ پر وزارت داخلہ سے
کہا ہے کہ کرنل جوزف کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا جائے۔ یہ استدعا پیر کو
کی گئی۔ سڑکوں پر ٹریفک حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ اس میں کسی کی غفلت پائی
جاتی ہے۔ تا ہم سرخ اشارہ توڑ کر نکلتے ہوئے اگر کوئی نقصان ہو جائے تو اس
کی سزا ہے۔ یہاں ایک نوجوان قتل ہوا ہے۔ سفارتی تعلقات سے متعلق ویانا
کنونشن 1961کے آرٹیکل 29کے تحت سفارتکار قابل احترام ہیں۔ مگر کسی کنونوشون
یا دونیا کا کئی بھی قانون کسی بھی شخصیت کو جرم کی کھلی چھٹی کیس د
یسیکتیا ہ۔ یہ سب جنگل کے قوانین ہیں جو قتل کرنے پر بھی کسی ملک کے صدر،
وزیراعظم، جسٹس، جرنیل یا سفارتکار کو استثنیٰ دیتے ہیں۔ قانون امیر غریب ،
طاقت ور کمزور کے لئے برابر ہو۔ سزا یا جزا بھی مساوی ہو۔ کسی فرد سے غلطہ
ہو سکتی ہے ۔ اس کی معافی تلافی یا ازالہ ہو سکتا ہے۔ مگر مغرور اور تکبر
میں یا دبدبہ یا طاقت کے دباؤ میں کسی کو زیر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے مغرور
اور متکبر گھمنڈ والوں کا مقابلہ ضروری ہوتا ہے۔ صرف اپنی غلطی کا احساس
کرنے والے ، کمزور اور بے کس ہی معافی کے حق دار ہیں۔ پاکستان میں طاقت ور
مجرم سزا سے ہمیشہ بچ نکلتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے لئے محفوظ راستہ ہموار کیا
جا تا ہے۔ وہ قانون سے بالا تر سمجھے جاتے ہیں۔ اگر سی ڈی اے ملازم کو قتل
کرنے والے امریکی سفارتکار کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی تو آج مزید
کووئی پاوکسوتانی امریکی طاقت کے نشے میں اسو طرح مظلمیت کی موت نہ مرتا،
یا سے انصاف مل جاتا۔ حکومت میں ایسے عناصر موجود ہو سکتے ہیں جو اپنے ہم
وطن سے زیادہ غیر ملکی کے رعب یا اپنی کسی حاجت کے لئے نرم رویہ اپناتے
ہیں۔ بلا شبہ غیر ملکی مہمان ہیں۔ ان کا احترام، حفاظت، اور میزبانی حکومت
ہی نہیں بلکہ ہر شہری کے لئے اخلاقاً ضروری ہے۔ مگر مجرم کوئی بھی ہو، اسے
استثنیٰ دینا مذاق ہے۔ یہ پاکستانیوں کو حقیر، اپنی کالونی، اپنے غلام سمجھ
کر یہاں جرائم کرتے ہیں۔ کرنل جوزف کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے دفعات 279,
320, 337-G, 427لگائے گئے ہیں۔ جس میں غفلت سے ڈرائیونگ کرنے کے جرائم آتے
ہیں۔ اگر اس بار بھی سنگین جرم کے باوجود سفارتی استثنیٰ کی آڑ میں امریکی
کو چھوڑ دیا گیا تو آئیندہ بھی ایسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔جولائی
2010سے پریل2018تک امریکی سفارتکار کم از کم چار پاکستانیوں کو اسلام آباد
میں کچل چکے ہیں اور سزا سے بھی بچ گئے۔ریمنڈ ڈیوس سفارتکار نہ تھا۔ مگر
گرفتاری یا سزا سے بچ گیا۔ دیت یا معاوضہ بعد میں علامتی انداز میں طے ہوا۔
اس سے ملک کے شہری احساس کمتری اور امریکی احساس برتری میں مزید مضبوط
ہوئے۔ حکومت کی رٹ مزید کمزور ہوئی۔ امید ہے کہ کرنل جوزف کے بعد کوئی اور
پاکستانیوں کا یوں مذاق ارانے اور کیڑے مکوڑوں کی طرح روندھنے کی کوشش نہ
کرے گا۔ |