بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان میں موجود تمام مسالک کے علماء کرام کے متفقہ رائے سے وجود میں آنے
والی پیغام پاکستان ایک ایسی علمی کاوش ہے کہ اگراسے قانونی و آئینی حیثیت
حاصل ہو جائے تو یقینی طور پر آئین پاکستان کے بعدعلمی و آئینی سطح پر
دوسری بڑی کامیابی ہو گی ۔گزشتہ سترہ سالوں سے دہشت گردی کی جنگ میں جلنے
والے وطن عزیز میں انتہاپسندی کے خاتمے اور امن و امان کے لیے اس سے بہتر
متفقہ علمی دستاویزات شاید ممکن نہیں ۔ پیغام پاکستان میں تین بنیادی نکات
پر اتفاق رائے کیا گیا ہے اور ان نکات پر عمل پیرا ہو کر گروہی فسادات ،
فرقہ واریت اور انتہا پسندی سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اول جہادکا اعلان
صرف ریاست کر سکتی ہے ،افرادی طور پر یا گروہی طور پر کسی گروہ کو یہ حق
حاصل نہیں کہ وہ جہاد کا اعلان کرے یا اس کے لیے کوئی گروہ تشکیل دے۔دوم
تکفیر کا فتویٰ ریاست کا حق ہے کوئی انفرادی یا گروہی طور پر کسی کی تکفیر
نہیں کر سکتا ۔سوم ملک میں خودکش حملے قطعی حرام ہیں اس کے لیے مواقع فراہم
کرنا سہولت فراہم کرنا غیر اسلامی ہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ
کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ پاکستان میں موجود ایک آئینی ادارہ جو
اسلامی نظریاتی کونسل کی شکل میں موجود ہے اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے
تھا لیکن گزشتہ کئی سالوں سے یہ ادارہ بھی سیاسی بھرتیوں کا مرکز بننے کی
وجہ سے خاطر خواہ کام نہ کر سکا ۔تاہم یہ بھی خوش آئند ہے کہ ایسے موقع پر
جب پیغام پاکستان پیش کیاگیا اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی محترم ڈاکٹر
قبلہ ایاز سنبھال چکے ہیں ۔ ڈاکٹر قبلہ ایازکی ذات کسی تعارف کے محتاج نہیں
ہیں ۔وہ پشاور یونیورسٹی کے کلیہ اسلامک اینڈ اورئینٹل اسٹڈیز کے ڈین کی
حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں ۔ ان کی سربراہی سنبھالنے کے بعد
ایک نئی امید پیدا ہو چکی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نہ صرف عملی میدان
میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوائے گی بلکہ موجودہ صورتحال میں درپیش جن
جدید چیلنجز کا بالخصوص پاکستان اور بالعموم اسلامی دنیا کو سامنا ہے ان سے
نبٹنے کے لیے کردار ادا کرے گی۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے
پیغام پاکستان کا متن دیکھتے ہوئے فوری طور پر اس کی تائید کی ۔
گزشتہ دنوں ادارہ علم و تحقیق کے زیر اہتمام’’ پیغام پاکستان کے بعد‘‘ کے
نام سے ایک مشاورت کا اہتمام کیا گیا ۔علم و تحقیق اور جستجو کے میدان میں
محترم خورشید ندیم کا نام بہت نمایاں ہے ۔ ادارہ علم و تحقیق انہی کی
سربراہی میں علمی و تحقیقی میدان میں گرانقدر خدمات سرانجام دے رہا ہے
۔چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل کی زیر صدارت معروف کالم نگاروں اور صحافیوں
کے جھرمٹ میں سجی مجلس مشاورت کی اس محفل میں ایک طالب علم کی حیثیت سے حصہ
لینے کا موقع ملا ۔اس مجلس میں پیغام پاکستان کے حوالے سے خدشات اور توقعات
پر مختلف انداز سے بات ہوئی ۔یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ نیشنل
ایکشن پلان پر اگر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تو پیغام پاکستان کی
کیا حیثیت ہو سکتی ہے اسی طرح ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ کیا علماء کرام
کے اس بیانیہ یا فتویٰ کو عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح
افغان سرزمین پر لڑی گئی روس کے ساتھ جنگ میں پاکستان کے کردار اور اس کے
نتیجے میں پیدا ہونے والی انتہا پسندی ، نائن الیون کے بعد امریکہ طالبان
جنگ کے پاکستان پر اثرات اور بالخصوص اس جنگ میں امریکہ کا حلیف بننے کے
پاکستان میں اثرات اوراس کے نتیجے میں ایک انتہا پسندی کا جو ماحول پاکستان
میں پیدا ہو چکا ہے اسے کس طرح سے یکدم یوٹرن لے کرانتہا پسندی کو ختم کیا
جا سکتا ہے ۔اسی طرح ایک اہم نکتہ پاکستان کے ان اداروں پر بھی اٹھایا گیا
جو افغان جنگ اور کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک میں مبینہ طور پر کردار ادا
کرتے رہے ہیں ۔ ویسے تو ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے اپنی اختتامی گفتگو میں ان
سارے سوالات کے نہایت مدلل جواب دیئے تاہم پیغام پاکستان کے حوالہ سے ایک
نشست میں تمام اشکالات کا احاطہ کرنا شاید ممکن نہ ہو ۔یہ نشست دراصل اس
مقصد کے لیے تھی کہ پیغام پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے دانشور ،
لکھاری اور صحافی برادری کیا کر سکتی ہے ۔ معاشرے میں کسی بھی بیانیہ کو
عام کرنے کے لیے ان سب کا کردار نہایت اہم ہے ۔ پاکستان گزشتہ سترہ سالہ سے
ایک مسلط کردہ جنگ لڑ رہا ہے ۔ افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی
امریکی جنگ میں پاکستان کے تعاون نے ایسے عناصر کو پاکستان میں قدم جمانے
میں مدد کی جو اپنے اپنے ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج اور جنگ
کو جائز ہی نہیں بلکہ عین شریعت سمجھتے تھے۔۔اس موقع پر جب پاکستان بدترین
دہشت گردی کی جنگ کا شکارتھا ایک بڑا دینی طبقہ گومگو کی کیفیت کا شکار
تھا۔ دہشت گرد اور انتہا پسندی کے لیے اسلام ، شریعت کا نام استعمال ہو
رہاتھا اور دینی رجحان رکھنے والے نوجوانوں کوسوشل میڈیا اور نامعلوم مصنف
کی ناموں سے شائع ہونے والی کتب کے ذریعے شکار بنایا جا رہا تھا۔ یہ بھی
ایک المیہ تھا کہ ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے نوجوان اورمذہبی
جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوان ایسے عناصر کے ٹریپ میں آنے
لگے جس کی وجہ سے مذہبی جماعتوں کے سرکردہ رہنما اور علماء بھی کھلے بندوں
انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت کرنے یا اسے حرام کہنے سے کنی کترانے
لگے ۔انہی دنوں جب دہشت گردی اور انتہا پسندی عروج پر تھی ایک خوشگوار ہوا
کا جھونکا اس وقت آیا جب مختلف مسالک کے علماء کرام جامعہ نعیمیہ میں جمع
ہوئے اور خودکش حملوں کے خلاف پہلی دفعہ تمام مسالک کے علماء کرام نے جمع
ہو کرکود کش حملوں کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کیا ۔2008میں جاری ہونے والا
یہ فتوی متحدہ علماء کونسل کے پلیٹ فارم سے جاری کیا گیا ۔ اس کونسل میں
بریلوی ، اہلحدیث، دیوبندی اور شیعہ مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء نے
شرکت کی ۔تاہم افسوس حکومت وقت اس فتوی سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکی
۔یقناً اگر اس موقع پر متحدہ علماء کونسل کے فتوی اور اس کے ساتھ دیگر
مطالبات پر توجہ دی جاتی تو شاید دہشت گردی کے خلاف اسی وقت کافی سارا کام
مکمل کر لیا جاتا ۔
پیغام پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہایت اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا
ہے اور یہ کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے بلکہ یہ انہی فتاویٰ کا ایک تسلسل تھا
جو حکومت کے زیر نگرانی پیش کیا گیا ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ
انتہا پسندی اور دہشت گردی ایسے مسائل ہیں جن کو جڑ سے ختم کرنا ازحد ضروری
ہے تاہم اس کے لیے صرف فتاوی ہی نہیں بلکہ ایک تسلسل کے ساتھ کچھ کام کرنے
کی ضرورت ہے ۔ملک میں موجود عسکریت پسند تنظیموں کا وجود اور انہیں قومی
دھارے میں لانا ایک بڑا چیلنج ہے جوشاید اندرونی صورتحال سے ذیادہ بیرونی
صورتحال پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ریاست ان تنظیموں اور ان افراد کو کس
طرح قومی دھارے میں لائے گی اس پر ابھی بہت سے اشکالات موجود ہ ہیں تاہم
ایسا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے بغیر شاید کوئی بھی قدم کارگر
ثابت نہ ہو۔
ملک کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔یہ نوجوان سوشل میڈیا میں
بھی مہارت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کا شمار ان ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے جہاں
سوشل میڈیا میں نوجوانوں کی کثیر تعداد متحرک ہے بلکہ اس سے متاثر بھی ہو
رہی ہے ۔ انتہا پسندی پھیلانے والے اسی سوشل میڈیا کو استعمال کر کے
نوجوانوں کو گمراہ کررہے ہیں ۔ حکومت کاپہلا کام ہے کہ پیغام پاکستان کو
مختلف مذہبی جماعتوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر ذیادہ سے ذیادہ عام کرے ۔ اس
کے لیے ہر مذہبی تنظیم کے پاس نوجوان موجود ہیں اور ان کے میڈیا ونگز بھی
موجود ہیں۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کا اہم کام مختلف مسالک کے لوگوں
کو ایک ساتھ بیٹھنے کا موقع فراہم کرنا ہے ۔صرف مسالک ہی نہیں بلکہ ملک میں
موجود مذہبی گروہ اور سیکولر و لبرل گروہوں کے درمیان جو خلا مسلسل بڑھ رہا
ہے اس کو بھی کم سے کم کرنا ہے ۔یہ ٹاسک اگرچہ کافی مشکل ہے تاہم ناممکن
نہیں ہے ۔ رواداری اور برداشت محض دینی جماعتوں کے لیے نہیں ایسے طبقے کے
لیے بھی ضروری ہے جو مذہب کے نام سے ہی بھڑک اٹھتے ہیں ۔ سب سے اہم کام جو
اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور حکومت وقت کے لیے ضروری ہے وہ پیغام
پاکستان کو قانونی شکل دینا اور اس کو نصاب تعلیم کا حصہ بنانا ہے ۔ دینی
مدارس کے علاوہ ہائیر ایجوکیشن میں بھی اس کو نصاف کا لازمی حصہ بنایا جانا
چاہیے۔اس سے ان تمام خدشات سے خلاصی ہو سکتی ہے جو اس وقت اٹھائے جا رہے
ہیں۔ میری رائے میں اگر ان پر بتدریج عمل ہو جائے تو کوئی مشکل نہیں کہ
پاکستان پھر سے امن وامان کا گہوارہ بن کر ترقی کی راہ پر چل سکتا ہے ۔ |