تخت مظفرآباد خطرے میں

اقتدار کے کھیل کو ایک طرف سانپ سیڑھی کے کھیل سے تشبیہ دی جاتی ہے تو دوسری جانب یہ جملہ بھی اکثر سننے کو ملتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، سیاست کی آنکھ میں شرم،مروت اور حیا نہیں پائے جاتے اور موقع ملنے پر لیلائے اقتدار کے پروانے اپنوں کی پشت پر ایسا وار کر جاتے ہیں کہ نشانہ بننے والا شیکسپیئر کے ڈرامے کے زندہ و جاوید کردار کی مانند درد و اذیت سے پکار اٹھتا ہے۔۔۔"یو ٹو بروٹس"۔
آزاد جموں و کشمیر میں بظاہر دو تہائی اکثریت کے ساتھ برسر اقتدار آنے والی وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا لیکن پانامہ سکینڈل کی زد میں بلڈوز ہونے کے بعد سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا ساتھ دینے کے دوران راجہ فاروق حیدر خان سے کچھ نادانستہ غلطیاں اس انداز سے یا تو سرزد ہوئیں یا سرزد کروائی گئیں کہ ان کی شخصیت کو انتہائی نامناسب انداز میں کریش کیا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے جس قدر رکیک حملے ان کی ذات پر کئے گئے اس پر پوری دنیا میں آباد کشمیریوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا کہ سیاسی کھیل میں کشمیری قوم کے تشخص پر حملہ کر کے "بادشاہ گر" آخر کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟خیر خدا خدا کر کے وہ مرحلہ گزرا اور جذبات کا دریا کچھ اترا تو میاں محمد نواز شریف کی "مجھے کیوں نکالا" کمپین شروع ہوئی۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر راجہ فاروق حیدر خان کو پیغام دیا گیا کہ وہ اپنی "کشمیری پچ" سے باہر نکل کر کھیلنے سے گریز کریں ورنہ انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ واضح پیغام کے باوجود صاحب بہادر نے "اپنے وزیر اعظم" کا ساتھ نہ چھوڑا اور چچا غالب کے اس شعر کا وہ باوفا کردار بن گئے جسے کعبے کا قابل مدفون قرار دیا گیا۔
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بتخانے میں تو گاڑو کعبے میں برہمن کو

شطرنج کا کھیل اسی وقت شروع ہو گیا اور کاونٹ ڈاون کلاک کی "ٹک ٹک" واضح طور پر سنائی دینے لگی ۔اسی دوران "مجھے کیوں نکالا" کمپین کے سلسلہ میں چوہدری نثار کے انتہائی صائب اور مناسب مشوروں کو ایک مرتبہ پھر نظرانداز کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز نے "پانچ پیاروں" کی ہلہ شیری میں آ کر اسلام آباد،راولپنڈی،گوجر خان،دینہ،جہلم،گجرات،گوجرانوالہ اور پھر لاہور میں کھلم کھلا فوج اور عدلیہ کو انتہائی نامناسب انداز میں رگید کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ حیران کن طور پر لاہور کے اختتامی جلسے میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان تمام کمپین میں غیر حاضری کے بعد نمایاں انداز میں شریک ہوئے اور میاں محمد نواز شریف نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے واضح انداز میں علی الاعلان سب میڈیا کے سامنے کہہ دیا "مجھے فارغ کرنے کے بعد اب اگلی باری آپ کی ہے"۔ حیران کن امر یہ ہے کہ میڈیا کے بڑے بڑے جغادری دوست اس "پنچ لائن" کی سنجیدگی کو نظر انداز کر گئے اور کھیل کی اگلی چال کی طرف توجہ نہ دے پائے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مبینہ طور پر مقتدر حلقوں کی طرف سے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی طلبی کر کے انہیں "حکم" دیا گیا کہ وہ میاں نواز شریف کی "مجھے کیوں نکالا" کمپین کا حصہ نہیں بنیں گے۔ شدید اعصابی کشمکش میں وہ جی ٹی روڈ کی ریلی میں تو شامل نہ ہو سکے لیکن لاہور پہنچ کر اپنی سیاسی کمٹمنٹ کا ببانگ دہل اعلان کر دیا۔یہ اسی بات کا شاخسانہ ٹھہرا کہ ان کو ایک "دوست نما دشمن یا دشمن نما دوست" نے باور کروایا تھا کہ انہیں میاں نواز شریف کے حق میں پریس کانفرنس کرنی چاہیے۔ پریس کانفرنس میں گرمء گفتار کے دوران وہ جملہ بھی اسی "دوست" کی "ٹپ" تھی جو ایک خاص منصوبے کے تحت "اسائنمنٹ" پر کام کر رہا تھا۔ اگلی دو پریس کانفرنسز کے ذریعے سلگتی آگ کو مزید ہوا دے کر راجہ فاروق حیدر خان کو مکمل طور پر متنازعہ بنوا دیا گیا۔یہاں اب کہانی میں ایک اور "ٹوئسٹ اینڈ ٹرن" دیا گیا۔ ایک روایت سے اس ٹرن کو واضح کئے دیتے ہیں۔ ایک راہگیر نے چوک میں ایک مقام پر گوشت اور خون کا ملغوبہ دیکھ کر حیرت سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے۔۔۔؟
جواب ملا کہ
"یہ وہ گھوڑا ہے کہ جس نے توپ کو لات مار دی تھی"
کچھ ایسا ہی کام راجہ فاروق حیدر خان سے کروایا جانے والا تھا۔

آزاد جموں و کشمیر کونسل اور وزارت امور کشمیر عرصۂ دراز سے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور بیدار مغز قیادت کے لئے "پوائنٹ آف کنسرن" بن کر ابھرتے رہتے تھے۔ مسلم لیگ ن کے آزاد کشمیر میں قیام اور سنہ 2011 کے عام انتخابات کے بعد راجہ فاروق حیدر خان اور ان کے ساتھیوں نے عوامی اجتماعات سے خطابات اور میڈیا سے گفتگو کے دوران سینکڑوں مرتبہ ایکٹ 1974 کو "غلامی کی دستاویز" اور کشمیر کونسل کو متوازی حکومت قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار جاری رکھا کہ جب بھی انہیں موقع ملا وہ ایکٹ 1974 میں ترامیم بھی کریں گے اور کشمیر کونسل سے کشمیری قوم اور قانون ساز اسمبلی کے سلب شدہ اختیارات بھی واپس لیں گے۔ ان کی یہ کمپین اس حد تک پراثر رہی کہ چوہدری عبدالمجید کی حکومت نے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جس نے وزیر حکومت محمد مطلوب انقلابی کی سربراہی میں تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ایکٹ 1974 میں ترامیم کا "چارٹر آف ڈیمانڈ" مرتب کیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، وہ مسودہ ہنوز "لاپتہ" ہے۔خیر یہ تو وہ بیک گراؤنڈ تھا جس کی یاد دہانی ضروری تھی۔ اب آتے ہیں اس "توپ" کی جانب جسے اس مرحلے پر "لات" رسید کروائی گئی کہ جب حالات انتہائی نامساعد تھے اور قدم تک پھونک پھونک کر رکھنا اہم تھا۔ "آوٹ آف بلیو" سوشل میڈیا پر وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کے "متعدد آفیشل یا نان آفیشل اکاؤنٹس" سے یہ اعلان قلندرانہ سامنے آیا کہ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے مشاورت کے بعد آزاد جموں و کشمیر کونسل کے خاتمے کی منظوری لے لی گئی ہے اور میاں محمد نواز شریف قائد مسلم لیگ ن کے ویڑن کے مطابق کشمیری عوام کو ان کے سلب شدہ حقوق واپس دلوائے جارہے ہیں۔ یہ اعلان ایک ایسا "ان گائیڈڈ میزائل" ثابت ہوا کہ جس نے فضا میں گھوم پھر کر اپنے ہی مورچے پر حملہ کر دیا۔مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے سرخیل و سرپرست سابق صدر و وزیراعظم سردار سکندر حیات خان نے کشمیر کونسل کے خاتمے کی مخالفت کر دی، اپوزیشن لیڈر رہنما پاکستان پیپلز پارٹی چوہدری محمد یاسین نے کشمیر کونسل کے ملازمین کی وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی مخالفت میں نکالی گئی ریلی کی قیادت کر ڈالی، سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے بھی اس سے اختلاف ظاہر کر دیا اور رہنما و سربراہ پی ٹی آئی آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری بھی مسلم لیگ ن کی حمایت نہ کر سکے۔ یہ سب انتہائی اعصاب شکن تھا اور یہیں سے "مقتدر حلقوں" نے مبینہ طور پر اگلے مرحلے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جس کی ہیڈ لائن "ان ہاوس تبدیلی" تھی۔کشمیر کونسل ایک ایسی آکاس بیل ثابت ہوئی کہ جس نے پاکستان کے مقتدر حلقوں،سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ،ہر سیاسی جماعت کے فیصلہ سازوں،انتظامیہ،عدلیہ اور حتی کہ میڈیا میں بھی اپنی انتہائی مضبوط جڑیں بنا رکھی تھیں۔ اس سب کے نتیجہ میں راجہ فاروق حیدر خان کے درست اور جائز ترین بیانئے کو متنازعہ بنا کر رکھ دیا گیا۔افسوس ناک امر یہ رہا کہ ان کے ساتھ کھڑے رہنے کے دعویدار ممبران اسمبلی بھی اس ایشو پر ان سے دور جا کر کھڑے ہو گئے۔ ایک امر اس دوران بہت دلچسپ ثابت ہوا کہ سوشل میڈیا پر اس موضوع پر چلنے والی 99 فیصد ٹریفک وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کے حق میں کھل کر اظہار خیال کرتی رہی حالانکہ زبان خلق کی عکاسی کرنے والے سوشل میڈیا کو فاروق حیدر خان ہمیشہ "گٹر میڈیا" کہہ کر سیاسی جلسوں اور اجتماعات میں مذاق کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔آج وہی سوشل میڈیا کھل کر ان کا ساتھ دے رہا تھا۔اور تو اور کشمیر کی تقریبا تمام قوم پرست جماعتوں نے بھی اپنی حمایت کا وزن وزیراعظم کے پلڑے میں ڈال دیا۔ مقتدر قوتوں نے اپنی "مسل پاور" شو کرتے ہوئے "منٹس آف میٹنگ" تک جاری نہ کرنے دیئے جن میں کشمیر کونسل کی تحلیل پر وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعظم آزاد کشمیر و دیگر سٹیک ہولڈرز نے اتفاق کیا تھا۔ مبینہ طور پر جب آزاد کشمیر پرائم منسٹر سیکرٹریت نے منٹس آف میٹنگ کا ڈرافٹ تیار کر کے ارسال کیا تو اس پر شدید قسم کی ڈانٹ پلا کر اپنی "حدود" میں رہنے کا حکم دیا گیا۔اس دوران قوم پرست کشمیریوں کی نمائندہ تنظیمیں اور لیڈر شپ راجہ فاروق حیدر خان کی "قلمی حمایت" جاری رکھے ہوئے تھیں۔ بیرون ملک مقیم کشمیری بھی اس حمایت میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے تھے۔ یہاں سے آگے کی صورتحال اب اپنی "کھال" کے تحفظ کی خاطر اشاروں میں بیان کریں گے۔سیز فائر لائن جسے بعد ازاں کنٹرول لائن قرار دے دیا گیا پر بھارت کی بلا اشتعال گولہ باری اور شیلنگ سے ہونے والے نقصان پر تمام کشمیری فکر مند تھے۔اس کے خلاف لبریشن فرنٹ نے مارچ کا اعلان کیا اور پھر قصہ مختصر اس مارچ کے نقطہ عروج پر ان کے ایک کارکن گولی لگنے کے نتیجے میں جاں کی بازی ہار گئے۔ اشتعال کی اس فضا میں تمام قوم پرست جماعتوں نے جوتوں سمیت راجہ فاروق حیدر خان اور ان کی جماعت پر چڑھائی کر دی اور ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے ایک "ضعیف لمحے" میں نکیال کے مقام پر وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے قوم پرست جماعتوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دے دیا۔ اس سب نے تابوت پر آخری کیل بھی ٹھونک دی اور راجہ فاروق حیدر خان کی ڈٹ کر حمایت کرنے والا سوشل میڈیا ایک مرتبہ پھر "گٹر میڈیا" بن گیا اور یہ مضبوط عوامی ترجمان آواز بھی راجہ فاروق حیدر خان کے مخالف ہو گئی۔ ایک طرف تو مخصوص حالات کے تناظر میں وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کو مقتدر قوتوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور پے در پے ان کی کردار کشی کے لئے "مین سٹریم میڈیا" کو جارحانہ انداز میں استعمال کیا جا رہا تھا اور دوسری جانب عوامی سطح پر ان کی پذیرائی کرنے والے سوشل میڈیا کو کنٹرول لائن مارچ کے شرکاء پر تشدد اور راجہ فاروق حیدر خان کے قومپرست جماعتوں پر الزامات بھری تنقید کے بعد ایک نیا موڑ دیا جا چکا تھا۔ یہ بات معنی خیز تھی کہ ایک طرف تو "مجھے کیوں نکالا" فیم ہولڈر میاں نواز شریف اینڈ فیملی کی خاطر راجہ فاروق حیدر خان نے پریس کانفرنس کے بعد پریس کانفرنسز کیں اور جوابی کارروائی میں عمران خان اور الیکٹرانک میڈیا پر تشریف فرما اینکرز اور تجزیہ کاروں کی دشنام طرازی کا سامنا کیا اور دوسری جانب اچانک بیک فٹ پر جا کر کشمیر کونسل ختم کرنے کی بیوقت راگنی چھیڑ کر مقتدرقوتوں میں موجود "بھڑوں نہیں بلکہ بھیڑیوں" کو اپنے پیچھے لگوایا اور اس کے نتیجہ میں جب کشمیر کے قوم پرست جب کیا مدح و ستائش کر رہے تھے اور ان کو "بہادر اور غیرت مند کشمیری وزیراعظم" قرار دے رہے تھے تو اچانک انھی قوم پرستوں کو پاکستان اور پاکستانی فوج کا دشمن قرار دے کر انھوں نے یہ دوست بھی گنوا دیئے اور آخری ستم ظریفی یہ کی کہ کشمیر کونسل ختم کرنے کی چھیڑی گئی "بے وقت راگنی" سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ فرنٹ فٹ پر جا کر میاں محمد نواز شریف کی حمایت کر کے جن حلقوں سے دشمنی مول لی تھی آخر میں آ کر انہی کی شرائط پر ان سے دوستی کر لی۔
بقول چچا غالب
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بد مزہ نہ ہوا

یہاں ایک اور واقعہ بھی آپ کو یاد دلاتے جائیں۔ چیف ایڈیٹر روزنامہ جموں و کشمیر و صدر آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی عامر محبوب نے ان سب واقعات سے کچھ عرصہ قبل سابق صدر و وزیراعظم آزاد کشمیر سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان کا ایک یادگار انٹرویو کیا تھا جس میں انھوں نے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان، وزیر امور کشمیر برجیس طاہر،وزیر حکومت چوہدری محمد سعید اور دیگر پر انتہائی سخت تنقید کی تھی۔ اس انٹرویو کے بعد تنقید زدہ شخصیات کے حامیوں نے جوابی بیانات بھی داغے تھے اور مسلم لیگ ن آزاد کشمیر ایک مشکل صورتحال کا شکار دکھائی دی تھی۔ سردار سکندر حیات خان بزرگ ترین سیاست دان ہیں اور انہیں سیاست کا "انسائیکلوپیڈیا" بھی کہا جاتا ہے اور یہ بات بھی چار عشروں سے دہرائی جاتی ہے کہ ان کی سیاست اس حد تک پراثر ہے کہ وہ جب چاہیں سیاسی بساط الٹ کر "ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو"کرنے کی حیران کن صلاحیت رکھتے ہیں۔اب ان سب نقاط کے تناظر میں اچانک سینہ گزٹ سے یہ بات پھیلی کہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کے خلاف حکومتی جماعت کے وزارتوں سے محروم رکھے جانے والے ممبران اسمبلی نے اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لئے "نمبر گیم" پوری کر لی ہے۔ یکایک سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر کشمیر کونسل توڑنے کا اعلان کرنے والی "واردات" کی طرح وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں نے خبر بریک کر دی کہ کابینہ و فلیگ ہولڈر مشیران کی تعداد میں سو فیصد اضافے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور سات وزراء اور پانچ مشیران بنائے جا رہے ہیں۔ اگلے تین روز تمام پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اسی پر تبصرے کرتا رہا کہ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے لئے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے اپنے ہی الفاظ کی نفی کیوں کی کہ وہ وزراء کی تعداد اضافہ کرنے کی بجائے استعفی دے کر گھر چلے جائیں گے لیکن بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔ تین روز بعد اگلی خبر یہ آئی کہ نامزد مشیروں نے وزارت کا "چاند" مانگتے ہوئے مشیری قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وزارت کے لئے نامزد "صادق و امین" ممبران اسمبلی نے "تر و تگڑی وزارت" نہ ملنے کی صورت میں "اصولی موقف" پر ڈٹے رہنے کا اعلان کر دیا۔ اس سب کے بعد راجہ فاروق حیدر خان اضطراب و پریشانی کا شکار ہو کر میڈیا پر بیان بھی دیتے رہے اور مختلف اجتماعات سے خطابات میں بھی یہ کہتے رہے کہ وہ کسی کی بلیک میلنگ قبول نہیں کریں گے۔اس وقت حالات انتہائی نازک ہیں اور پاکستان میں نگران حکومت بننے سے پہلے ہی آزاد کشمیر میں کوئی بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ وزارت عظمی کی تبدیلی کی صورت میں درج ذیل دوست ٹاپ لسٹ میں شمار کئے جا رہے ہیں

1۔ چوہدری طارق فاروق
2۔ راجہ نثار خان
3۔ شاہ غلام قادر
4۔ چوہدری عزیز
5۔ ڈاکٹر نجیب نقی
6۔ مشتاق منہاس

آنے والا وقت ہی اب فیصلہ کرے گا کہ راجہ فاروق حیدر خان اس اسمبلی کو توڑ کر بیوفائی کرنے والوں کو بھی گھر بھیج دیتے ہیں یا شیکسپیئر کے ڈرامے کے کردار کی طرح "بہت سے بروٹس" بے نقاب ہوتے دیکھتے ہیں۔ ایک افواہ کے مطابق مبینہ طور پر وزیر حکومت چوہدری محمد سعید کو بھی وزارت عظمی کے عہدے کے لئے مقتدر حلقوں کی "ڈارلنگ" قرار دیا جا رہا ہے۔آنے والے چند ایام اعصاب شکن اور فیصلہ کن ہوں گے کہ راجہ فاروق حیدر خان پہلی تنخواہ پر گزارہ کرتے ہوئے مقتدر قوتوں سے "دوستی" کر لیں گے، تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے یا اسمبلی توڑ کر پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی مسلم لیگ ن کو "ماضی کی ایک سیاسی جماعت" بنا دیں گے۔ دیکھنے والی نگاہوں اور محسوس کرنے والے دلوں کے لئے اس سب داستان میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔
بقول شاعر
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 380662 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More