سیاسی پارٹیاں اور حکومتیں

برسات کا موسم کہنے میں تو بہت اچھا لگتا ہے کہ ساون کی پھُوار ہوگی،جھولوں کی قطار ہو گی،باغوں میں بہار ہو گی۔لیکن اسی موسم میں سیلاب کا درد بھی ہوتا ہے،فصلوں کی تباہی بھی ہوتی ہے،زندگیوں اور جسموں کی سوداگری بھی ہوتی ہے، سرکاری عملوں کی چوکسی بھی ہوتی ہے،رِشوتوں کی سودے بازی بھی ہوتی ہے،راحت اور امداد کی نوچا کھسوٹی بھی ہوتی ہے۔سیلاب سے متاثر لوگوں کی بے بسی کے نظارے بھی حکومت کے ارکان بڑی خوشی خوشی دیکھنے جاتے ہیں۔برسات میں نو آباد کاری کی مواقع بہت کم ہوتے ہیں تباہی اور پریشانی کے حالات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اسی موسم کی ایک دین ہوتی ہے جسے ’اُمس‘ کہتے ہیں جس سے نجات پانے کے لیے لوگ ’ لُو‘ کی دعا مانگنے لگتے ہیں۔ جب کہ’ لُو‘ بھی زندگی کی دشمن ہوتی ہے اور اندھیرے کمروں میں منہ ڈھانک کر پڑے رہنے میں ہی عافیت سمجھ میں آتی ہے۔

اس وقت بھارت میں بی․جے․پی․کی۳۱؍فیصد کی مطلق اکثریت والی حکومت کی’لُو‘ سے لوگ پریشان ہو کر ’اُمس‘ یعنی کانگریس حکومت کی دعا مانگ رہے ہیں۔بھارت میں اس وقت جو سیاسی موسم ہے اس سے لوگ اُوبے ہوئے ہیں اور بدلاؤ لانے کے لیے کوشاں ہیں۔فرقہ وارانہ فسادات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے جو اگلے انتخاب تک لوگ اسے ہوا دیتے رہیں گے ساتھ ہی ساتھ آگ کو بھڑکانے والی اشیا بھی ڈالتے رہیں گے تاکہ آگ بجھنے نہ پائے۔۲۰۰۲؁ میں گجرات کو ماڈل بنا کر پیش کیا گیا تھا اب پورا بھارت گجرات بننے کی تیاری پر ہے۔لوگ کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی کہتے رہے اور مسلمان بھی اس مذاق کو حقیقت سمجھتے رہے اور کانگریس کو ووٹ دیتے رہے۔راہل گاندھی گجرات کے انتخاب میں اپنے ہندو ہونے کاہی جاپ الاپتے رہے اورجنیو دکھاتے رہے۔وہ گانگریس پر لگے اس کلنک کو دھو دینا چاہتے ہیں کہ ’گانگریس مسلمانوں کی پارٹی ‘ہے۔اس لیے اس بار نہ تو وہ کسی مزار پر گئے اور نہ ہی کسی مزار کے لیے چادر بھیجی جبکہ مودی جی نے اجمیر شریف کے لیے چادر بھیجی اور نتیش کمار جی نے ایک مزار پر بہ نفس نفیس حاضری دی۔دیگر علاقائی پارٹیاں بھی بہت محتاط ہیں اسی لیے سیکولر ہو نے کا دعویٰ تو کرتی ہیں لیکن مسلمانوں کے مسائل کے حق میں اس ڈر سے بول نہیں سکتی ہیں کہ ان پر بھی ہندتو کے ایجنڈے کی خلاف ہونے کا الزام نہ لگ جائے۔اسد الدین اویسی مسلمانوں کے مسائل پر آواز اُٹھاتے ہیں تو ملک کے مخالف ہونے کی سند دے دی جاتی ہے۔بنگال اور بہار کے دنگوں کی مخالفت کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں کرتی ہے کیونکہ سبھی پارٹیوں کا ایجنڈا مسلم مخالفت ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیکولر پارٹی کے ممبران بڑی آسانی سے فرقہ پرست پارٹی میں چلے جاتے ہیں اور ان کا پر تپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے اور اسی طرح سے فرقہ پرست پارٹی میں نکارے گئے لوگ اپنی سیاسی موت سے بچنے کے لیے سیکولر پارٹی میں شامل ہو کر ایک دم شُدھ سیکولربن جاتے ہیں۔یہ اُسی طرح ہوتا جیسے تھانے پر تعینات ایک رشوت خور تھانیدار جیسے ہی سی․آئیـ․ڈی․ کا انسپکٹر بنتا ہے تو راتو رات ایمان دار ہو جاتا ہے۔

دنگے آزاد بھارت کی بد قسمتی ہیں کیونکہ آبادی کے حساب سے روزگار نہیں ہے۔سیاسی پارٹیاں ’پارٹی ورکر‘ بھرتی کر لیتے ہیں اور انہیں کو ہر طرح سے استعمال کرتے ہیں۔وہ بھی سوچتے ہیں کہ چلو پکوڑا تلنے سے تو بہتر ہے۔اوپر کی آمدنی میں لوٹ کھسوٹ کا مال بھی ملیگا۔یہ پڑھے لکھے بھی زیادہ نہیں ہوتے ہیں ہاں مجرمانہ تجربہ ضرور ہوتا ہے لیکن ان کو اپنے مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں رہتا ہے۔صرف ماتھے پر ٹیکا لگا لینا اور بھگوا انگوچھا گلے میں ڈال لینا ہی ہندو ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔جبکہ دیگر مذاہب کی طرح ہندو مذہب میں بھی پابندیاں ہیں۔’ہندو دھرم سے سیکھیں یہ دس بڑی باتیں‘ کے عنوان سے یہ مضمون شائع ہواجس کے کچھ اقتباسات پیش ہیں:
٭ کسی بھی پرکار کا دھرم لوگوں کے بھیتر سمپردائک سوچ کو بھرتا ہے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ اصل میں وہ ایک دھرم ہے کہ نہیں یا محض ایک سنگٹھن ہے؟
(ہر بھکت سمپردائک سوچ رکھتا لہذااسکا تعلق محض ایک سنگٹھن سے ہے نہ کہ دھرم سے۔)
٭ ہندو دھرم ،کرم پردھان ہے۔
(مسلمانوں اور دلتوں کو مارنا جلانا ہی کرم پردھان مانا جاتا ہے۔)
٭ ہندو دھرم میں ’پَرہِت(دوسروں کی بھلائی)‘ کو ثواب مانا گیا ہے۔
(یہ صرف دھرم کی بات ہے اس کا سنگٹھن میں کیا کام؟)
٭ ساری پرتھوی میرا پریوار ہے۔
(ہوتا رہے! ہمیں تو اپنا سنگٹھن چلانا ہے،دلت مسلم دشمنی نبھانا ہے۔)
٭ رواداری، سخاوت، انسانیت اور لچک کی روح، ہر ایک کی ہم آہنگی اور قبولیت کو فروغ دیتا ہے۔ہر ایک کے ساتھ مساوات اور محبت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے چاہے وہ کسی بھی ذات مذہب اور ملک سے تعلق رکھتا ہو۔
(یہ بھی دھارمک وچار ہے، سنگٹھن میں ان کا کوئی کام نہیں۔)

’سُر‘، ’سُرا‘ اور ’سندری‘ (یعنی ناچ گانا، شراب اور شباب) میں مصروف لوگوں کو مذہبی احکامات اورتعلیمات سے کیا لینا دینا ،سب اس حقیقت سے نا آشنا لگتے ہیں کہ مرنے کے بعد ان کو اچھے برے کاموں کا حساب دینا ہی نہیں ہے۔کسی طرح کی مذہبی تعلیم ’بھکتوں‘ میں تودکھائی نہیں دیتی،ہاں دلتوں اور مسلمانوں کے لیے نفرت ضرور دکھائی دیتی ہے۔رواداری اور پاس داری کی باتیں جاننے سمجھنے کے لیے بھکت لوگ کبھی بند مذہبی کتابوں کو نہیں کھولتے۔اور اگر پڑھتے بھی ہیں توروا داری پر عمل نہیں کرتے۔دشمنی نبھانے میں اور نفرت پھیلانے میں سادھو ، سنیاسی اور عام بھکت ایک ہی جیسے ہیں۔صرف بھگوا کپڑے پہننے سے کوئی مذہبی نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذہنیت اور عمل کو مذہبی نہیں کرتا ہے۔

سادھو نرمدا نند جی جو ابھی حال ہی میں مدھیہ پردیش میں منتری بنائے گئے ہیں وہ پتہ نہیں کب سے اندھے بنے ہوئے تھے اور ریل سے ریائتی کرایہ پر سفر کیا کرتے تھے(اندھا پن شائد اسی لیے تھا؟)۔منتری کا عہدہ ملتے ہی ماں نرمدا کی پریکرما کرکے وہ صحت مند ہو گئے اور سب کچھ دیکھنے لگے۔ایسے ہی ایک اور منتری جی ہیں جو ’کمپیوٹر بابا ‘ کے نام سے مشہور ہیں، انھوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کر آشرم بنایا ہے۔ایک بیچارے ’کمپیوٹر بابا ‘ ہی کیا، کتنے بابا ہیں جوزمین خرید کر آشرم بناتے ہیں؟ یہ سب ہتھیائی اور قبضیائی ہوئی زمینیں ہوتی ہیں۔سرکاری زمین پر قبضہ کر لینا پاپ نہیں سمجھا جاتااور اسی جذبہ کے تحت وہ سوچنے پر مجبور ہتے ہوں گے کہ شہنشاہ بابر نے اسی طرح سے قبضہ کر کے بابری مسجد بنوائی ہوگی۔اسلام کی تعلیم کے مطابق مسلمان ایک انچ بھی زمین کسی کی ہڑپ نہیں سکتا۔اسلام کی تعلیم کی ہی وجہ ہے کہ کسی بھی گھوٹالے میں یا فوجی راز دشمن ملک کو بیچنے میں مسلمان نہیں رہتا۔ سیاست میں اگر دھرم کو بائی پاس کرتے رہیں گے توپھر’رام راج ‘ کا خوا ب دیکھتے رہیں گے۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.