نازی حکومت کے اوّلین برسوں کے
دوران قومی سوشلسٹ حکومت نے جبری کیمپ قائم کئے جہاں خیالی اور حقیقی سیاسی
و نظریاتی مخالفین کو قید رکھا جاتا۔ جنگ کے آغاز سے پہلے زیادہ تر ایس ایس
اور پولیس اہکاروں نے یہودیوں، روما خانہ بدوشوں اور دوسرے افراد کو نسلی
اور فرقہ وارانہ نفرت کی بنا پر اِن کیمپوں میں قید کر لیا۔ یہودی آبادی پر
ظلم کرنے اور اُن کی نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ بعد میں اُنہیں ڈی پورٹ کرنے
کیلئے جرمنوں اور اُن کے اتحادیوں نے جنگ کے دوران مخصوص یہودی بستیاں یعنی
گھیٹو، عارضی کیمپ اور جبری مشقت کے کیمپ قائم کئے۔ جرمن حکام نے نام نہاد
عظیم تر جرمن ریچ اور جرمن مقبوضہ علاقوں دونوں میں ایسے غیر یہودیوں کیلئے
بھی بے شمار جبری کیمپ قائم کئے جن کی مشقت کا استحصال جرمن کرنا چاہتے تھے۔
1941 میں سوویت یونین پر حملے کے بعد جرمن سیکیورٹی پولیس کے قاتل یونٹ آئن
ستزگروپن اور سیکیورٹی سروس ذیخرہیٹس ڈینسٹ یا ایس۔ ڈی اور پھر بعد میں
آرڈر پولیس اہلکاروں کی فوجی بٹالینیں یہودیوں، روما خانہ بدوشوں اور سوویت
ریاست اور کمیونسٹ پارٹی کے اہلکاروں کے قتلِ عام کیلئے جرمن دستوں کے
پیچھے پیچھے حرکت کرتی رہیں۔ جرمن ایس ایس اور پولیس کے یونٹوں نے ویہرماخٹ
کے یونٹوں اور وافن ایس ایس کی مدد سے دس لاکھ سے زائد یہودی مردوں، عورتوں
اور بچوں کے علاوہ لاکھوں دیگر افراد کو ہلاک کیا۔ 1941 اور 1944 کے درمیان
نازی جرمن حکام نے جرمنی، جرمن مقبوضہ علاقوں اور اپنے اتحادی ملکوں سے
لاکھوں یہودیوں کو یہودی بستیوں یعنی گھیٹو اور خاتمہ کر دینے والے کیمپ کے
نام سے موسوم قتل گاہوں میں پہنچا دیا جہاں اُنہیں خاص طور پر تیار کی گئی
گیس تنصیبات کے ذریعے ہلاک کر دیا جاتا۔
جنگ کے آخری مہینوں میں ایس ایس گارڈ قیدیوں کو ریل گاڑیوں کے ذریعے یا پھر
"موت کے مارچ" سے موسوم پیدل مارچ کے ذریعے دوسرے مقامات پر منتقل کرتے رہے
تاکہ قیدیوں کی بڑی تعداد کو اتحادی فوجوں کی طرف سے آزاد کرائے جانے کے
اقدام سے روکا جا سکے۔ جیسے جیسے اتحادی فوجیں جرمنوں کے خلاف حملوں کے
دوران یورپ کے مختلف مقامات سے گذرتی رہیں اُنہیں جگہ جگہ جبری کیمپوں میں
قید قیدی یا پھر ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کی کوشش میں جبری
پیدل مارچ کرتے ہوئے قیدی ملے جنہیں وہ آزاد کراتی گئیں۔ یہ پیدل جبری مارچ
7 مئی 1945 کے دن تک جاری رہے جب جرمن مسلح افواج نے اتحادی فوجوں کے سامنے
غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دئے۔ مغربی حلیفوں کیلئے دوسری جنگ عظیم اگلے
روز یعنی 8 مئی کو باضابطہ طور پر ختم ہوگئی جسے اُنہوں نے فتح کا دن یا
V-E Day سے موسوم کیا۔ سوویت فوجوں نے فتح کے دن کا اعلان 9 مئی 1945 کو
کیا۔
ہالوکاسٹ کے بعد زندہ بچ جانے والے بہت سے افراد کو اتحادی طاقتوں کی طرف
سے قائم کئے گئے پناہ گذینوں کیمپوں میں رکھا گیا۔ 1948 سے 1951 کے دوران
تقریباً سات لاکھ یہودی اسرائیل ہجرت کر گئے۔ اِن میں یورپ سے بے دخل ہونے
والے ایک لاکھ 36 ھزار یہودی بھی شامل تھے۔ بے دخل ہونے والے دیگر افراد نے
امریکہ اور دوسرے ممالک کا رُخ کیا۔ یہودی بے دخل افراد کا آخری پناہ گذیں
کیمپ 1957 میں بند کر دیا گیا۔ ہالوکاسٹ کے دوران ہونے والے مظالم کے نتیجے
میں بیشتر یورپی یہودی برادیاں تباہ ہو کر رہ گئی اور مقبوضہ مشرقی یورپ
میں آباد سینکڑوں یہودی بستیوں کا تو مکمل طور پر خاتمہ ہوچکا |