ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی حراست میں 15سال ہو گئے ہیں۔
امریکہ سے نیوروسائنس میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر صدیقی پر کسی کے قتل کا الزام
نہیں بلکہ اقدام قتل کا کیس ہے۔ ڈاکٹر صدیقی مارچ2003سے امریکی قید میں ہے
۔ اس پر 2008میں مقدمہ چلایا گیا۔ 2010میں امریکی عدالت نے 86سال سزائے قید
سنائی ۔ تین بچوں کی ماں ، پاکستانی سائنسدان کو پہلے سزا ہوئی، مقدمہ بعد
میں چلا۔ کوئی حکومت رہائی کے لئے کچھ نہ کر سکی۔ آج ایک بار پھر ڈاکٹر
صاحبہ کی ہمشیرہ نے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ اکیلی دردمندی سے اپنی قیدی
بہن کی رہائی کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں۔ شاید اس کا درد اور دکھ کوئی
محسوس کرے۔ انہوں نے ایک بار پھر کھلے خط میں اپنی بہن کی رہائی کے لئے
اپیل کی ہے۔
’’یقینا یہ واقعہ آپ کے علم میں ہوگا کہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے
کے ڈیفنس اتاشی کرنل جوزف نے نشے کی حالت میں ٹریفک سگنل توڑتے ہوئے عتیق
بیگ نامی ایک پاکستانی شہری کو کچل کر ہلاک اور اس کے دوست کو شدید زخمی
کردیا ۔اس افسوسناک واقعہ میں چند اہم باتیں انتہائی توجہ طلب ہیں۔ 1 -
2010ء میں ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی جاسوس نے 2 پاکستانی شہریوں کو لاہور میں
اپنے پستول سے قتل کردیا تھا اور اس کی مدد کو آنے والی امریکی قونصل خانے
کی گاڑی نے مزید ایک شہری کو کچل کر ہلاک کردیا تھا۔ حال ہی میں ریمنڈ ڈیوس
نے The Contractor کے ٹائٹل کے ساتھ کتاب لکھ کراس بات کا اعتراف کرلیاہے
کہ وہ امریکی سفارتکار نہیں بلکہ ایک جاسوس تھااور اس نے اپنی کتاب میں
تفصیل سے اپنی رہائی کیلئے ہماری اس وقت کی قومی قیادت کے کردار کو توہین
آمیز طریقہ سے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور جس سے یہ افسوسناک پہلو بھی
سامنے آتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی نظر میں ملک کے وقار اور پاکستانی
شہریوں کی زندگی کی کوئی وقعت نہیں ہے، جس کا خاتمہ ہم سب کو مل کر کرنا
ہے۔2 - پانچ سال قبل بھی فروری 2013 ء میں اسی طرح کا ایک افسوسناک واقعہ
پیش آیا تھا جب امریکی سفارتخانے کی ایک گاڑی نے اسلام آباد میں ٹریفک سگنل
توڑ کر ایک پاکستانی سرکاری ملازم کو کچل کر شہید اور اس کے دوست کو شدید
زخمی کردیا تھامگر کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی کیونکہ قاتل امریکی تھا۔
اب ایک اور امریکی کرنل جوزف نے ایک اور پاکستانی کو شہید کردیا ہے۔ اس
موقع پر ایک مرتبہ پھر سیاسی قیادت کی خاموشی انتہائی افسوسناک اور
تشویشناک ہے ۔3 - درج بالا واقعات کو سامنے رکھیں اور پھر قوم کی بیٹی
ڈاکٹر عافیہ کی 15 سالہ طویل پرتشدد قید تنہائی کا جائزہ لیں۔ درج بالا
امریکیوں نے پاکستان کے قوانین کی اس قدر سنگین خلاف ورزی کی کہ 5
پاکستانیوں کی جانیں چلی گئیں مگر امریکی قاتل مکمل پروٹوکول کے ساتھ چھوڑ
دئیے گئے کیونکہ ہمارے ملک میں قانون بہت کمزور ہے مگر اب ایسا نہیں ہونا
چاہئے، اس کے لئے ہم سب کو اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا ہے۔4 - کوئی
پاکستانی سفارتکار امریکہ میں ٹریفک سگنل توڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔
خدانخواستہ اگر کوئی امریکی کسی پاکستانی سفارتکار کی گاڑی سے اس طرح کچل
کر مارا جائے کہ ٹریفک کا اشارہ بھی توڑا گیا ہو تو امریکی معاشرہ کا
احتجاج اور امریکی میڈیا کے کردار کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ مگر
ہمارے معاشرے پر کیوں سکوت چھایا ہوا ہے؟ ۔5 - جو لوگ سفارتی استثناء کی
بات کررہے ہیں وہ جواب دیں کیاقاتل کو استثناء حاصل ہوتا ہے؟ عافیہ کوتو
مکمل استثناء حاصل تھا، پاکستانی شہری ہونے کے باوجود اسے افغانستان سے
امریکہ منتقل کرکے ایک جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ چلایا گیا تھا۔ بین
الاقوامی قوانین کی رو سے عافیہ پر مقدمہ چل ہی نہیں سکتا تھا۔یہ معاملہ
قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی باعزت وطن واپسی کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ اس
معاملے کو اس طرح حل کیا جائے کہ عتیق بیگ کے لواحقین کو انصاف ملے اور
عافیہ کی وطن واپسی ہوجائے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں یہ سنہری موقع گنوا
دیا گیا تھا مگر اب ایک اور موقع ضائع نہ کیا جائے۔ 6 - آج پھر پاکستانیوں
کی عزت اور جان کے تحفظ کا سوال ہے۔ اہل قلم تجزیہ کریں کہ ہماراملک اس وقت
عالمی برادری میں کس مقام پر کھڑا ہے۔عافیہ کی وطن واپسی صرف میری بہن کی
رہائی کا نہیں بلکہ یہ عالمی برادری میں ملک کی عزت و وقار کی بحالی کا
معاملہ ہے۔ میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے صدر، وزیراعظم ،چیف جسٹس، آرمی
چیف، سیاسی قائدین،اراکین پارلیمنٹ، صحافی برادری اور سول سوسائٹی سے
انتہائی مودبانہ اپیل کرتی ہوں کہ خدارا ملک میں قانون کو اتنا مضبوط کریں
کہ آئندہ کسی امریکی کو اس طرح کسی پاکستانی شہری کی جان لینے کی جرأت نہ
ہوسکے اور عتیق بیگ کے اہلخانہ کو انصاف بھی مل جائے۔ میری گذارش ہے کہ اس
حوالے سے حکمرانوں، ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری حکام کو ان کا قومی اور
آئینی فریضہ یاد دلائیں اور عوام میں شعور اجاگر کریں کیونکہ آخر کار عوام
کے مسائل ان کو ہی حل کرنا ہیں۔ آپ کی بہن ۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی‘‘۔ |