دشمنانِ اسلام کی چالاکی سے ہوشیار

شام پر آخر کار 14؍ اپریل کوابھی صبح کی کرنیں آسمان سے نمودار ہونے ہی والی تھیں کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے خطرناک فضائی حملے کرتے ہوئے شامی عوام کو پھر ایک مرتبہ ڈرو خوف کے سایہ میں پہنچا دیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ ،برطانیہ اور فرانس نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تین تنصیبات پر 105میزائل داغے ۔ امریکی فوج کے عہدیداروں کے مطابق تمام میزائلوں نے منٹوں کے اندر اپنے اہداف کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ ملبے کا ڈھیر بن گئے۔پینٹگان میں لیفٹیننٹ جنرل کینتھ میکنزی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ہم نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کے دل کو نشانہ بنایا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں شام کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ تین اہداف برزح ریسرچ سینٹردمشق، حمص کے نزدیک ہتھیار زخیرہ کرنے کے دو مراکز ہیں ان جگہوں پر کلورین اور سیرین گیس تیار اور ذخیرہ کی جارہی تھی۔ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد ابتدائی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ تنصیبات کی تباہی سے کسی کیمیائی مادے کی فضا میں آلودگی کا مشاہدہ نہیں ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ اگر اتنے خطرناک ترین حملے کے بعد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں تو پھر ان تنصیبات کی تباہی سے کسی کیمیائی مادے کی فضا میں آلودگی کیوں نہیں ہوئی؟ کیا امریکہ اور اتحادی ممالک کی جانب سے کئے گئے حملے غلط نشانہ پر پہنچے یا پھر شام نے کیمیائی مادے کو اتنی حفاظت سے محفوظ رکھا ہے کہ اتنی بڑی فضائی کارروائی کے باوجود کیمیائی مادے کی فضا میں آلودگی نہیں ہوپائی یا۔ 14؍ اپریل تک روس نے امریکہ کو وارننگ دے رکھی تھی کہ اگر امریکہ اوراسکے اتحادی ممالک کی جانب سے شام پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمدہونگے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔دشمنانِ اسلام اپنے ہتھیار کی فروخت اور نکاسی کے لئے جس چالاکی سے ان ممالک پر حملے کررہے ہیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک طرف امریکہ اور اتحادی ممالک اور دوسری جانب روس اور اسکے اتحادیوں کے درمیان مسلمانوں کو ہلاک کرنے اور انکی املاک کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ ساتھ انکی معیشت پر کاری ضرب لگانے کے لئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔

امریکہ نے روس کی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شام پرمیزائلوں کے ذریعہ حملہ کردیا۔ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس جس طرح شام پر حملہ کرکے اپنے اہداف پالینے کا دعویٰ کررہے ہیں اس کے جواب میں شام کے سرکاری عہدیدار نے دعوی کیا ہے کہ 80فیصد میزائل ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کردیئے گئے یا وہ اپنے ہدف پر پہنچنے میں ناکام رہے۔ شامی حکومتی ذرائع کے مطابق روسی ساختہ S100اور S200اینٹی میزائل سسٹم نے امریکی قیادت میں فائر کئے جانے والے زیادہ تر میزائل تباہ کردیے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شام کے پاس روس کا جدید ترین اینٹی میزائل سسٹم S400بھی موجود ہے لیکن شام کا کہنا ہیکہ ان حملو ں میں اسے استعمال نہیں کیا گیا کیونکہ کوئی بھی حملہ آور میزائل اس معیار کا نہیں تھا جسے روکنے کے لئے اس جدید ترین نظام کی ضرورت محسوس ہو۔امریکی ڈائریکٹر آف جائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل کینتھ میکنزی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ برطانیہ نے 8اسٹارم شوٹر، فرانس نے اسکیلپ میزائل فائر کئے جبکہ امریکہ نے تمام کے تمام ٹوماہاک میزائل فائر کئے۔ امریکی محکمہ دفاع کے2017کے اعداد و شمار کے مطابق ایک ٹوما ہاک میزائل کی قیمت تقریباً 15لاکھ ڈالر بتائی جارہی ہے اس طرح شام پر 14؍ اپریل کو کئے گئے ٹوما ہاک کروز میزائل حملے میں تقریباً 16کروڑ 29لاکھ ڈالر کا خرچ بتایا جارہا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا امریکہ اتنی بڑی رقم صرف ان چالیس یا پچاس شامی شہریوں کو جو کیمیائی گیس کے ذریعہ ہلاک ہوئے ہیں انکی خاطر استعمال کیا؟ اتنی بڑی رقم اب امریکہ کو کون ادا کرے گا؟ اس کا جواب شاید یہی ہوسکتا ہیکہ مشرقِ وسطی کے وہ ممالک جنہوں نے شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے پر زور دیا ہے ۔ روسی صدر ولادیمیرپوٹن نے 14؍ اپریل سے قبل جس طرح بیان بازی کے ذریعہ امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک کو حملے سے روکنے کی جھوٹی کوشش کی تھی اب پھر ایک مرتبہ انہوں نے امریکہ اور اتحادی ممالک کو اکسانے کی کوشش کررہے ہیں۔ صدر روس ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ اگر مغرب کی جانب سے شام پر دوبارہ حملہ کیا گیاتو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔ ذـــرائع ابلاغ کے مطابق16؍ اپریل کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایرانی ہم منصب ڈاکٹر حسن روحانی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا،جس میں دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ شام پر حملے نے 7سال سے جاری تنازعہ کے سیاسی حل کو نقصان پہنچایا ہے،اگر شام پر حملہ کر کے دوبارہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی گئی تو یہ عالمی تعلقات کیلئے نامناسب اور خطرناک ہوگا۔دوسری جانب اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے اعلان کیا کہ فیس دی نیشن کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا جائیگا جس کے تحت ان کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی جائیں گی جو شامی صدر بشار الاسد حکومت کیلئے کیمیکل ہتھیاروں کی فراہمی کا سبب بن رہی ہیں۔واضح رہے کہ مغربی ممالک نے بشارالاسد حکومت پر باغیوں کے زیرقبضہ علاقے دوما پر کیمیائی حملوں کا الزام عائد کیا ہے جبکہ روس اور شامی حکومت نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ عام ذہن بھی اس جانب مبذول ہوتا ہیکہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس سب ہی چاہتے ہیں انکے ہتھیار کسی نہ کسی بہانے مشرقِ وسطیٰ میں استعمال ہو اور انکی بھاری رقم مشرقِ وسطیٰ کے تیل سے مالا مال ممالک سے حاصل کئے جائیں ۔برطانیہ کی جانب سے شام پر کئے گئے حملے کے سلسلہ دارالعلوم نے برطانوی وزیر اعظم سے جواب طلب کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابقبرطانوی وزیراعظم تھریسامے کو شام پر حملے کے بعد دارالعوام میں آڑے ہاتھوں لیا گیا، تھریسامے حملے کی صفیائیاں پیش کرتی رہیں، تابڑ توڑ سوالوں پر تھریسامے بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ شام پر حملہ ٹرمپ کے کہنے پر نہیں بلکہ برطانیہ کے قومی مفاد میں کیا۔اپوزیشن نے برطانوی وزیراعظم سے سوال کیاکہ شام پر حملہ کیوں کیا، پارلیمنٹ سے کیوں نہیں پوچھا؟ دارالعوام کے اراکین کی جانب سے سوالات کے جواب کی بجائے تھریسامے اپنا دفاع کرتی نظر آئیں، یہی کہتی رہیں کہ بعض خفیہ معلومات ایسی تھیں جن پر پارلیمنٹ میں بحث ممکن نہیں تھی انھیں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ حملے کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا کہ صدر ٹرمپ نے کہا بلکہ یہ حملہ برطانیہ کے قومی مفاد میں کیا گیا۔برطانوی وزیراعظم نے مزید کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو عام نہیں ہونا چاہیے، چاہے وہ شام میں استعمال ہوں یا برطانیہ کی گلیوں میں، اسے روکنا سب کی ذمہ داری ہے۔اس سے قبل بھی عراق ، افغانستان کی تباہی و بربادی میں امریکہ اور برطانیہ کا اہم رول رہا ہے اور اب شام اور دیگر عرب ممالک کی تباہی میں بھی یہ ممالک اہم رول ادا کررہے ہیں اس کے باوجود عرب حکمراں ان ہی ممالک کے تیئں دبے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان ہی سے کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار خرید رہے ہیں جس سے انکی معیشت بُری طرح متاثر ہورہی ہے۰۰۰

سعودی عرب کے شہر ظہران مشرق شرقیہ میں عرب لیگ اجلاس کے اختتام پر ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے صحافتی دستاویز میں ان ممالک کے رہنماؤں نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ہم اپنے شامی بھائیوں پر استعمال ہونے والے کیمیائی حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے تاکہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری ہو۔ اس دستاویز میں شام میں جاری جنگ کے خاتمے کے لئے سیاسی حل ڈھونڈنے پر زور دیا گیا اور ایران پر اضافی پابندیاں لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا اور تہران کو پیغام دیا گیا کہ وہ شام اور یمن سے اپنے جنگجو واپس بلائے۔ سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں نے 14؍ اپریل کو امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کئے گئے حملوں کی حمایت کی تھی جو شامی حکومت کے مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں کئے گئے تھے۔ کانفرنس کے آغاز پر میزبان ملک سعودی عرب کے حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنی افتتاحی تقریر میں ایران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایران کی جانب سے عرب خطے میں کی جانے والی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ان کی ان ممالک میں بے جا مداخلت کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ اس موقع پر شاہ سلمان نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے امریکی صدر کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ یروشلم کے حوالے سے امریکی فیصلہ کو مسترد کرتے ہیں۔ مشرقی یروشلم فلسطینی علاقوں کا اٹوٹ حصہ ہے۔ انہوں نے مشرقی یروشلم میں اسلامی ورثے کی بحالی کیلئے 150ملین ڈالر عطیے کا اعلان کیا ۔ عرب لیگ اجلاس میں 22ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

غزہ کے عوام کو خوشحال زندگی گزارنے کا حق دیا جائے
فلسطینی عوام خصوصاًغزہ کے لوگ جس طرح غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اس کا ذمہ دار اسرائل ہے جس نے فلسطینی عوام کو انکی رہائش اور زرعی زمینات سے بے دخل کرتے ہوئے انہیں معاشی اعتبار سے تنگدست کردیا ہے۔ فلسطین کے سرکاری ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں غربت کی شرح 53 فی صد بتائی جارہی ہے ، جبکہ غرب اردن میں یہ شرح 13.9 فیصد ہے۔ متوسط فلسطینیوں کی تعداد 29.2 فیصد بتائی جاتی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے علاقے میں غربت کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی معاشی پابندیاں اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے نافذ کردہ انتقامی کارروائیاں ہیں۔غزہ اور غرب اردن میں اوسطا ًپانچ افراد کے کنبے کی آمدنی 685 ڈالر ہے اور ایسے فلسطینیوں کی کل تعداد انتیس فی صد ہے۔ان فلسطینیوں کو عالمی سطح پر امداد دی بھی جاتی ہے تو ان تک برابر پہنچ پاتی ہے یا نہیں اسکا بھی کوئی مصدقہ ثبوت نہیں۔ کیونکہ غزہ اور غرب اردن میں اسرائیلی فوج اور سیکیوریٹی ان فلسطینیوں کو خوشحال زندگی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی جانب معاشی پابندیاں عائد ہیں۔ عالم اسلام جس طرح فلسطینی عوام کو امداد فراہم کرتا ہے یہ ان تک صحیح طرح سے پہنچ پارہی ہے یا نہیں اس پر خصوصی توجہ دیں تاکہ مستحقین تک امداد پہنچائی جائے۔ترکی کے شہر استنبول میں عالمی القدس اکناملک کانفرنس میں جو فیصلہ کیا گیا اسی طرح غزہ کے مظلوم غربت کے مارے افراد کیلئے انکے کھانے پینے ، رہائش اور تعلیم و تربیت اور معاشی استحکام کے لئے کوئی خاص فیصلہ کیا جاتا۔جس طرح ترکی کے شہر استنبول میں تین روز تک جاری رہنے والی عالمی القدس اکنامک کانفرنس کے تیسرے روز دفاع القدس کے لیے 10 کروڑ ڈالر پرمشتمل ایک فنڈ کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے اسی طرح کا فیصلہ غزہ پٹی کے خاندانوں کے لئے بھی کیا جانا چاہیے۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق استنبول میں القدس اقتصادی کانفرنس کا اہتمام فلسطین ۔ ترکی تاجر اتحاد، بیرون ملک مقیم فلسطینی کاروباری شخصیات اور القدس کے حوالے سے کام کرنے والے مختلف اداروں نے مشترکہ طورپر کیا تھا۔کانفرنس کے اختتام پر انتظامی کمیٹی نے تمام شرکا، تاجروں اور صاحب ثروت شخصیات سے مطالبہ کیا کہ وہ القدس کی بہبود اور اس کی تعمیرو ترقی کے لیے القدس فنڈ میں بھرپور حصہ ڈالیں۔اس موقع پر القدس فنڈز کے قیام کا اعلان کیا گیا اور 20 سرکردہ کاروباری شخصیات نے اس فنڈ کے لیے ایک سو ملین ڈالر کی رقم دینے کا عہد کیا ہے۔اس موقع پر کاروباری شخصیت فاروق الشامی نے 10 ملین ڈالر اگلے پانچ سال تک دینے جب کہ القدس میں زرعی سیکٹر میں معاونت کے لیے 50 ملین ڈالر کی رقم جمع کرکے فنڈ میں شامل کرنے کا یقین دلایا۔اس کے علاوہ عرب ، اسلامی بنک کی جانب سے القدس میں فلسطینی آبادی کے بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کے لیے پچاس ملین ڈالر کا اعلان کیا گیا۔فلسطینی تاجروں نے القدس چیمبرآف کامرس کے ساتھ مل کر پرانے بیت المقدس میں 400 دکانوں کو دوبارہ چالو کرنے کے لیے 50 ہزار ڈالر فی دکان دینے کا اعلان کیا۔ یہ رقم 20 ملین ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔خیر عالمی القدس اکناملک کانفرنس میں جو بھی فیصلہ کیا گیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے ۔ اس طرح ایک اہم کوشش کے ذریعہ فلسطینی عوام کی معیشت مستحکم ہوسکتی ہے۔

روہنگیا پناہ گزینوں کا پہلا کنبہ وطن واپس
روہنگیا پناہ گزینوں کا بنگلہ دیش میں مقیم کنبہ میانمار واپس ہوچکاہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق میانمار کا کہنا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کا پہلا کنبہ بنگلہ دیش سے ملک واپس آیا ہے جس کی باز آبادکاری کی گئی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ میانمار روہنگیا پناہ گزینوں کی واپسی کیلئے محفوظ نہیں ہے۔گذشتہ سال اگست میں شروع ہونے والی بہیمانہ فوجی کارروائی سے بچنے کیلئے میانمار یعنی برما سے تقریباً سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے راہ فرار اختیارکرتے ہوئے بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کا رخ کیا تھا۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے بھی میانمار پر نسل کشی کا الزام لگایا ہے جس کی میانمار تردید کرتا ہے۔میانمار نے بتایا ہے پانچ افراد پر مشتمل ایک خاندان باز آبادکاری والے کیمپ میں آیا ہے جسے شناختی کارڈ اور رسد پہنچائی گئی ہے۔اگر اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ وہاں شروع ہونے والے بحران کے بعد کسی پہلے کنبے کی واپسی ہوگی۔جو پناہ گزین ڈرو خوف کے مارے آسرا تلاش کرتے ہوئے بنگلہ دیش آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ 'اس قسم کے واقعات وسیع پیمانے پر کیے گئے جس میں لوگوں کا اندھا دھند قتل، ریپ اور بستیوں کو جلانے کے واقعات شامل ہیں۔'بنگلہ دیش میں بھی ان کی حالت خستہ ہے اور بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق روہنگیا کی خواتین اور نوجوان بچیوں کو جینے کے لیے جسم فروشی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔اسی طرح ہمارے ملک ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں روہنگیا پناہ گزینوں کا واحد کیمپ کو بھی کسی نے آگ لگا دی یا وہ کسی طرح خاکستر ہو گیا۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بھی روہنگی لوگوں کو شدید مخالفت کا سامنا بتایا جارہاہے۔دہلی کے کنچن کنچ علاقے میں دو سو سے زیادہ روہنگیا تقریبا 50 جھونپڑیوں پر مشتمل علاقے میں قیام کئے ہوئے تھے جو جل کر خاکستر ہو گئیں۔ اس میں کسی کے جانی نقصان کی خبر نہیں ہے البتہ ایک شخص کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے، دہلی کے کیمپ میں آباد روہنگیا کے پاس اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیا ہوا کارڈ تھا جو ایک رضا کار کے مطابق آگ کی نذر ہو گیا ہے 'وہاں 230 سے زائد افراد رہتے تھے اور انکا سب کچھ خاک میں مل چکا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ جھگیوں کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کولر کے بکسے، بالٹیاں، جلے ہوئے برتن، چھوٹے سلینڈر جیسے دھات کی چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا تھا۔'ایک مقامی سماجی رضاکار اویس زین العابدین کے مطابق روہنگیا ڈرے ہوئے ہیں اور وہ کھل کر یہ نہیں بتا پا رہے ہیں کہ آگ باہر سے آکر کسی نے لگائی تھی۔ زین العابدین روہنگیا کے معاملے میں سپریم کورٹ میں عرضی گزار بھی ہیں۔ انھیں خدشہ ہے کہ یہ آگ سازش کا نتیجہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ 'ان روہنگیا پناہ گزینوں کے پاس باقاعدہ اقوام متحدہ کے کارڈ اور طویل مدتی ویزا بھی ہے لیکن سب اس آگ میں جل کر خاکستر ہو گئے ہیں۔اس طرح روہنگیا پناہ گزینوں کو بنگلہ دیش اور ہندوستان میں جینا مشکل ہوتا جارہا ہے اس لئے عالمی سطح پر میانمار حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی بحفاظت واپسی کے لئے مؤثر انتظامات کریں تاکہ مستقبل میں انہیں بازآبادی کاری کے بعدانکے اپنے ملک میں چین وسکون کی زندگی فراہم ہوسکے۔
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209714 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.